Sunday, June 27, 2010

خالی ذہن

خالی ذہن.........................آرام کی جگہ ہے کسی کی

Saturday, June 19, 2010

عجیب بات ہے

عجیب بات ہے کبھی بھی سمجھ میں نہیں آئی........ کیا اتنا سا فھم نہیں بے.... کہ ھم کیوں اس بات کو پھیلانے کا باعث بنیں جو بات کہنے سے کو بھی شخص نہ تو اسلام میں رہتا ھے بلکہ ملعون اور لعنتی بھی ٹیہرایا جاتا ہے....... یہ تو کہیں کی محبت نہ ہوئی کہ قیصر ایوب ملعون نے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جو گستاخی کی ان الفاطات کو ھم اپنے فیس بک پے چھاپ دیں اور دوسروں کو بھی ٹیگ کر دیں..... کیا یہ ان لوگوں کا کام اور آسان نہیں کرتے ھم لوگ جن کا مقصد ہئ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنا ھے...... اور یہ بھی سوچنے والی بات ھے کہ کیا انکی کی گئی بکواس سے معاز اللہ کیا ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی کمی ہوتی ھے.......ھان اتنا ضرور یے کہ بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس وققت بہت رنجیدہ ہو جاتے ہونگے جب فرشتے انکو خبر کرتے ہونگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کس طرح سنتوں کو چھوڑ بیٹھی ھے........ تو ضرورت اس امر کی ھے کہ اپنے آم کو اسقدر باعمل امتی بنا لیں کہ کوئی ایک لفظ بھی غلط کیتے ہوئے ہزاورں بار سوچے اور اسکے بعد بھی اسکی ہمت نہ پڑے کچھ کہنے کی...

Wednesday, June 16, 2010

وہ درویش کیسا دانا و عقلمند تھا

“خدا جس کو زمین پر عاجز کرنا چاہتا ہے، اُس سے عاجزی چھین لیتا ہے“۔ ماسٹر جی نے اپنی بات کا آغاز ایک حقیقی اور غیر معمولی بات سے کیا۔ مجب سمیت چالیس کے قریب نٹ کھٹ اور بلاکے شرارتی قسم کے لڑکے ھمیشہ کی طرح دم سادھے بیٹھے تھے۔ یہ ہمارے ہائی اسکول کے وہ واحد استاد تھے جن کے بارے میں طالب علم تو درکنار انکے کسی اپنے ساتھی کو بھی کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی۔ جس نے جب بھی یاد کیا اچھے اور عمدہ الفاظ میں یاد کیا۔

ماسٹر جی نے بولنا شروع کیا۔ “کسی غریب کا اپنی غریبی پے ندامت اختیار کرنا اتنا ہی برا ہے جتنا کسی امیر کا اپنی امارت پر غرور کرنا۔ جو شخص اپنی قسمت پا راضی نہیں ہوتا اہ خدا کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ کیونکہ اس طرح وہ خدا کی تقسیم سے بغاوت کرتا ہے۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان جدوجہد اور محنت کا راستہ ترک کر دے۔ جو ہے اس پر قناعت کرنا، خدا کا شکر بجالانے کے مترادف ہے اور جو نہیں ہے یس کے لئے جدوجہد کرنا خدا کی خواہش کی تکمیل کا نام ہے۔

“تم پوچھو گے کے وہ کیسے، خدا کی مرضی اس میں کہاں سے آگئی؟؟“ ماسٹر جی نے ہمارے پر تجسس چہروں کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔

“انسان کی ساخت پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ انسان بنا ہی محنت کے لئے ہے، اسکے ھاتھ پاؤں، جسمانی طاقت اور اسے بخشی ہوئی بے بہا دماغی قوتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ قدرت اسے محنت کرتے دیکھنے کی متمنی ہے۔ جس طرح کسی مشین کے موجد کو اس وقت تک حقیقی خوشی اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا جب تک اسکی بنائی ہوئی مشین پوری طرح سے کام کرنا نہ شروع کردے، اسی طرح خدا اس شخص سے کبھی خوش نہیں ہوسکتا جس نے اسکے بناے ہوئے وجود کو ناکارہ بنادیا ہو، ہا اسے کام لینے کے بجائے اسے دوسروں کے سہارے چھوڑ دیا ہو۔“ ماسٹر جی نے ہلکے سے گلا کھنکارا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا۔ “تمہیں پتہ ہے کہ لوگ دولت اور شہرت کے معاملے میں اکثر ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ طاقت اور ذہن صرف تدبیر سوچتے ہیں۔ میرے خیال میں سب سے برا حسد کسی کے ساتھ اپنا مقدر تبدیل کرنے کی خواہش کرنا ہے“۔

ماسٹر جی ذرا دیر کے لئے ٹھرے تو ایک لڑکے نے ان سے سوال کی اجازت لی اور بولا۔ “سر ھم انسان ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ حسد درست نہیں ھم ایسا کر بیٹھتے ہیں۔ کوئی آسان طریقہ بتائیے کہ ھم اپنا دامن اس برائی سے بچا سکیں۔

ماسٹر جی مسکرائے اور پھر بولے۔ “ یہ بہت ہی سادہ سا سوال ہے اور اسکا جواب اسے بھی سادہ ہے۔ دیکھو جس سے حسد ہو رہا ہو، اگر اسے دعا دے دی جائے تو حسد جاتا رہتا ہے۔“ تمام لڑکے ماسٹر جی کے جواب پر حیران زدہ رہ گئے۔

“کیا تمہیں پتہ ہے کہ ایک مضبوط ینسان کی تعریف کیا ہے؟؟“ ماسٹر جی نے ہماری طرف دیکھا، ھم جو انہیں بڑی عقیدت اور محبت سے دیکھ رہے تھے چپ ریے۔ شاید اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ ھم جانتے تھے کہ کوشش کے باوجود بھی ھم اس منطقی جواب تک نہیں پہنچ سکیں گے جو ان کے شایان شان ہو۔

“میں تمہیں بتاتا ہوں“۔ ماسٹر جی نے کہا “ مضبوط انسان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ غریب جو دولتمندوں کی دولت دیکھ کر حسد نہیں کرتے اور نہ دولت کی حرص انہیں بے چین کرتی ہے۔ اور دوسرے وہ امرا جو اہنے مال پر غرور نپہں کرتے اور نہ اپنی دولت سے دوسروں کو خوف زدہ کرتے ہیں، میرے خیال میں امیروں سے نفرت کرنے والا غریب اور غریبوں سے نفرت کرنے والا امیر دونوں یکساں درجے کے مجرم ہیں کیونکہ دونوں کے نزدیک نفرت کرنے کی وجہ “دولت“ ہے۔ دولت پر تکبر نہ کرنے والے جانتے ہیں کہ “المتکبر“ اللہ کی وہ صفت ہے جس میں کسی طرح کی شرکت شرک ہے اور شرک جدا کے نزدیک ناقابل معافی جرم یے۔“

“لیکن سر کیا انسان دنیاوی کامیابیوں پر فخر نہیں کرسکتا؟؟ کیا یہ بھی شرک کے ذمرے میں آئے گا؟؟

میں نے سوال کیا تو ماسٹر جی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ “ فخر اگر اپنی حدود میں رہے تو برا نہیں لیکن اگر حدود سے باہر نکل جائے تو پھر غرور اور فخر میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ دکھو اور میری بات پر غور کرو فخر یہ ہے کہ میں بھی ہوں اور غرور یہ ہے کہ بس میں ہی ہوں۔ جب تم کسی شخص کو غرور کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ بے خبری اور غلط فہمی کا شکار ہے، تم ایسے شخص سئ دور رہنا، وہ دنیا سے ستائش چاہتا ہے اور ستائش اپنے اوپر عدم اعتماد کی علامت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے والوں کی قریب سے گذریں تو شاید وہ بہت چھوٹے نظر آیئں۔“

ھم ہمہ تن گوش تھے۔ معرفت اور علم کے خزانوں سے اپنا دامن بھرتے جا رہے تھے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہ واحد پیریڈ ہوتا تھا جس میں استاد کو “خاموش پلیز خاموش“ کے الفاظ کہنے کی کبھی نوبت نہیں آئی۔

ماسٹر جی بولے۔ “مجھے صرف ڈر لگتا ہے تو اس بات کا کپ ہمارا معاشرہ مغرب کی اندھی تقلید میں ایسی شکل اختیار نہ کر جائے جہاں پیسہ تہذیب و نسب اور غربت محض احساس شرمندگی بن کر رہ جائے، کیونکہ جدید دور کا المیہ یہ ہے کہ اس نے معاشرے میں عزت اور مرتبہ حاصل کرنے کے بنیادی اور حقیقی فلسفے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ پتہ نہیں میں کس حد تک غلط یا درست ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وقت گذرنے کہ ساتھ ساتھ انسانیت، خاندانی شرافت، تعلیم و تربیت اور اخلاقی اقدار جیسے اوصاف ثانوی حیثت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور معاشرے میں محض “عزت کا معیار“ محض دولت رہ گئی پے“۔ ماسٹر جی نے اپنا جملہ پورا کیا ہی تھا کہ پیریڈ کے خاتمے کی گھنٹی بج اٹھی۔

اس بات کو برس ہا برس گذر گئے لیکن ماسٹر جی کی باتیں آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ وہ درویش کیسا دانا و عقلمند تھا۔ آنے والے دور کے بارے میں اسکے خیالات اور خدشات کتنے دورست تھے۔ میں ذندگی کے بہت سے معاملات میں آج بھی ان کے فلسفے سے رہنمائی حاصل کرتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ اس سے ہر وہ شخص مستفید ہو سکتا ہے جو اپنے احتساب کا قائل ہو۔

Thursday, June 10, 2010

عورت کو مطمئن کرنا نا ممکن ہے"

بازا میں ایک دکان کھلی جو شوہروں کو فروخت کرتی ہے ' اس دکان کے کھلتے ہی لڑکیوں اور عورتوں کا اژدہام اس بازار کی طرف چل پڑا - دکان کے داخلہ پر ایک بورڈ رکھا تھا جس پر لکھا تھا - اس دکان میں کوئی بھی عورت یا لڑکی صرف ایک وقت ہی داخل ہو سکتی ہے " پھر نیچے ھدایات دی گئی تھیں کہ : " اس دکان کی چھ منزلیں ہیں ہر منزل پر اس منزل کے شوہروں کے بارے میں لکھا ہو گا ' جیسے جیسے منزل بڑھتی جائے گی شوہر کے اوصاف میں اضافہ ہوتا جائے گا خریدار لڑکی یا عورت کسی بھی منزل سے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے ' اور اگر اس منزل پر کوئی پسند نہ آئے تو اوپر کی منزل کو جا سکتی ہے - مگر ایک بار اوپر جانے کے بعد پھر سے نیچے نہیں آسکتی سوائے باھر نکل جانے کے - " ایک عورت جو جوان اور خوبصورت تھی دکان میں داخل ہوئی - پہلی منزل کے دروازے پر لکھا تھا - " اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں اور الله والے ہیں - دوسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا " اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں ' اور بچوں کو پسند کرتے ہیں " تیسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا - " اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں ' بچوں کو پسند کرتے ہیں اور خوبصورت بھی ہیں " یہ پڑھ کر عورت کچھ دیر کے لئے رک گئی ' مگر پھر یہ سوچ کر کہ چلو ایک منزل اور جا کر دیکھتے ہیں وہ اوپر چلی گئی - چوتھی منزل کے دروازہ پر لکھا تھا - " اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں ' بچوں کو پسند کرتے ہیں ' خوبصورت ہیں اور گھر کے کاموں میں مدد بھی کرتے ہیں " یہ پڑھ کر اس کو غش سا آنے لگا ' کیا ایسے بھی مرد ہیں دنیا میں ؟ وہ سوچنے لگی کہ شوہرخرید لے اور گھر چلی جائے ' مگر دل نہ مانا ' وہ ایک منزل اور اوپر چلی آئی - وہاں دروازہ پر لکھا تھا - " اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ' الله والے ہیں ' بچوں کو پسند کرتے ہیں ' بیحد خوبصورت ہیں ' گھر کے کاموں میں مدد کرتے ہیں اور رومانٹک بھی ہیں " اب اس عورت کے اوسان جواب دینے لگے - وہ خیال کرنے لگی کہ ایسے مرد سے بہتر بھلا اور کیا ہو سکتا ہے مگر اس کا دل پھر بھی نہ مانا وہ چھٹی منزل پر چلی آئی یہاں بورڈ پر لکھا تھا " آپ اس منزل پر آنے والی 3448 ویں خاتون ہیں - اس منزل پر کوئی بھی شوہر نہیں ہے - یہ منزل صرف اس لئے بنائی گئی ہے تا کہ اس بات کا ثبوت دیا جا سکے کہ "عورت کو مطمئن کرنا نا ممکن ہے" آگے لکھا تھا ہمارے اسٹور پر آنے کا شکریہ ' سیڑھیاں باھر کی طرف جاتی ہیں۔

Wednesday, June 9, 2010

ابھی نہیں تو پھر کب

پہلے تو سمجھتا تھا کہ کوئی بڑے ہی فالتو لوگ ہیں جو بلاگ لکھتے ہیں. اور ساتھ میں حیران بھی ھوتا تھا کہ اتنا وقت نکال کے لوگ پہ شغل کیسے کر لیتے ہیں جبکہ یہاں تو دفتر کے بعد تو کسی کام کو کرنے کا دل ہی نہیں کرتا..... اور جو قریبی بلاگی دوست تھے ہر وقت انکو ملامت کرتا رہتا تھا کہ یار کوئی کم دا کم کرو یہ کیا ہر وقت بلاگ پے بونگیاں مارتے رہتے ھو...... پھر کچھ عرصے پہلے اک دوست نے کتابی چہرہ پے اکاوونٹ بنادیا اور کچھ تصاویر بھی لوڈ کر دیں.....تو اس طرح کتابی چہرے پے کچھ یار دوست مل گئے اور کچھ نئے بن گئے... ان نیوںمیں ایک دوست ہیں جو تمام کتابی چہرے والے دوستوں کے استاد مانے جاتے ہیں، نے مشورہ دیا کہ جو بلاگ لکھتے ہیں سمجھو کمال کرتے ہیں تب تک ھم بھی کچھ آشنا ہو چکے تھے سو بنا ڈالا ایک اپنا بلاگ بھی... اور آج آدھی رات کو بیٹھے پہ اوٹ پٹانگ لکھتے ھوئے ایک بزرگ با عمل کی کہی ہوئی بات یاد آگئی.... کہ جو کوئی کسی دوسرے کو اسکی کسی برائی پے طنز کرے گا تو اللہ اسکو مرنے سے پہلے اس برائی میں ضرور مبتلا کرے گا.

آج اگر اپنے اطراف پے نطر دوڑایئں تو سب ایک جیسے ہی لگتے ھیں...... کیونکہ آج ہر شخص دوسروں کے عیب تلاش کر رہا ھے اور اپنے اسکو نظر نہیں آرہے.....
تو کوئی پی ایچ ڈی ھے تو اسکو مبارک کوئی بھائی ھو یا کوئی بھی زبان بولنے والا کیا فرق پڑتا یے اصل تو یہ ہے کہ مین نے کیا، کیا اب تک...صرف باتیں.... اور میں کیا سب جانتے ہیں کہ باتوں سے آجتک کوئی پیدا نہیں ھوا.......مجہے آج آور ابھی سے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اپنی اور اپنی آنے والی نسلووں کے لئے... ابھی تو یہ انفرادی سوچ ہے انشاءاللہ جس دن اجتماعی سوچ بن جائے گی تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ سرے بحر ھم کو لوٹ لے.......

اوہ ہو اصل بزرگ والی بات تو رہ گئی تو ان بزرگ نے کسی شخص کو پان کہانے پے ٹوک دیا تھا اور بقول انکے اسکے بعد انہوں نے بیس سال تک پان کہائے..........اور پھر اللہ سے اپنی کہی ہوئی بات سے توبہ کی تو اللہ نے بھی انکو توفیق دی اور انکی جان اس بری لت سے چھوٹی......

اعتراض پو تو بتادے۔۔۔۔

کسی کو کوئی اعتراض پو تو بتادے۔۔۔۔ پھر بعد میں کوئی بھی اعتراض قبولا نہیں جائے گا۔۔۔۔۔ کیونکہ میں بلاگی ھو جاوں گا تو کسی کی نہیں سنوں گا۔۔۔ صرف سناونگا۔۔۔