Wednesday, June 15, 2011

گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے

ویسے تو کئی تحرریں ایسی ہوتی ہیں جو پڑھتے ہی کچھ دیر کے لیئے ہی سہی اپنا اثر کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جو پہلی مرتبہ پڑھ کر سمجھ میں ہی نہیں آتی ہیں۔

مگر کچھ تحاریر ایسی ہوتی ہیں جنکو انسان غیر ارادی طو پر کئی کئی مرتبہ پڑھتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ آیا وہ تحریر اسکو سمجھ آرہی ہے کہ نہیں ۔

لیکن جب سمجھ آتی ہے تو لگتا ہے کہ جیسے شاعر نے میری روزآنہ کی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ اشعار لکھے ہیں

کچھ اسطرح کل میرے ساتھ بھی ہوا ۔۔ میں آفس سے نکلا تو ایک صفحہ کسی کاپی کا میری گاڑی کی بونٹ پر پڑا ہوا تھا مین نے اسکو اٹھا کر دیکھا تو اس پر اردو کی نظم تحریر تھی
میں نے وہیں کھڑے کھڑے پڑھا اور وہ کاغذ لپیٹ کے اپنی جیب میں رکھ لیا۔

مجھے شک تو تھا کہ یہ نظم انکی ہی ہوگی جو میں سمجھ رہا ہوں ۔۔۔ گھر پہنچ کر پہلا کام یہی کیا گوگل میں سرچ کیا تو نام آیا ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ

میں اسکو پڑھنے کہ بعد سوچتا رہا کہ واقعی لگتا ہے کہ اللہ پاک کی کوئی خاص رحمت تھی اس شخص کیساتھ جسکو اس دور میں یہ ہنر بخشا کہ وہ لوگوں کہ لیے مشعل راہ بن سکے کسی جگمگاتے ہوئے جگنو کی طرح۔

ویسے تو اقبال رحمۃ اللہ عیلہ کی تمام شاعری ہی بہت پر اثر ہے مگر یہ نظم تو ماشاءاللہ سے بہت ہی خوب ہے اور جو اگر میں اپنا زرا سا بھی محاسبہ کرلوں تو شائد زندگی بدل جائے اس لیے آپ سب کے ساتھ بھی شئیر کر رہا ہوں۔

اقبال فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔


گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے

یہ بات نہیں کہ مجھ کو اس ہر یقیں نہیں
بس ڈر گیا خود کو صاحب ایماں کہتے کہتے

توفیق نہ ہوئی مجھ کو اک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا موزن اذاں کہتے کہتے

کسی کافر نے جو پوچھا کہ یہ کیا ہے مہینہ
شرم سے پانی ہوا میں رمضاں کہتے کہتے

میرے شیلف میں جو گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا
میں گڑھ کیا زمیں میں قرآں کہتے کہتے

یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے

Sunday, June 12, 2011

استانی، مائی ورک اور پیٹھ پہ تھپکی۔

ہمارا ایک دوست اپنی والدہ کے انتقال کے بعد یتیم ہوگیا اور اسکی والدہ مرتے، مرتے ایک عدد ہر جگہ سینگ پھنسانے والی چیز اسکے حوالے کر گئیں ایسے میں ایک محلے کی آنٹی نے اس سینگ پھنسانے والی چیز کو اپنی زیر تربیت(جامہ نہیں )رکھ رکھا لیا۔ ساتھ ساتھ اسے وہ پڑھا بھی رہی ہیں کہ اسکی والدہ نے اس شعبہ پہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اس سینگ پھنسانے والی چیز نے استانی محترمہ سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس ایسی یہ کیا تکنیک ہے جس سے آپ سامنے والے کو دیوار سے لگا دیتی ہیں۔ بلخصوص احکام اسلام میں تو کوئی آپ کے نقطہ نظر کو کاٹ ہی نہیں سکتا۔ سبکو چپی لگ جاتی ہے(اگر چہ اسکی یہ چپی آپکو پاگل اور نفسیاتی مریض سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہے) استانی نے پہلے تو کنواریوں کی طرح نخرے دکھائے (کیونکہ اصل زندگی میں انکو نخروں کا موقعہ نی ملا۔ جسکے سامنے نخرہ کیا وہ پلٹ کر واپس نی آیا )اور کہا:کیا ہم نے یوں ہی پھرا یا ہے اپنا دماغ؟! عرصہ ہائے دراز لگا تب جاکے پھرا ۔ سینگ پھنسانے والی چیز خوشامد کرتے کرتے جب تھک گیا تو اس نے ترپ کا یکا بن کے آخری چال چلی اور استاد کے تجویز کردہ نسخہ(نسخہ نی بے دوا ) کی پیش کش کی جس کو سنتے ہی وہ "ٹھنڈی" ہوگئیں (استاد کیسی دوا بتائی ہے وہ تو ٹھنڈا کر دیتی ہے) اور فرمانے لگیں:سامنے والے نے جو بات یا آیت پیش کی ہے اسکو لیکر بیٹھ جاؤ۔ اور عقلی طور پہ جو بعید سے بعید اعتراض یا اعتراضات اس پہ ہو سکتے ہوں وہ سب کر ڈالو ۔ سامنے والے کی خود ہی چپی لگ جائے گی۔ "اصول کافی حد تک میں سمجھ گیا ہوں بس ایک آدھ مثال اگر آپ دے دیتیں تو میں تو میں بصیرت کے درجہ پہ فائز ہوجاتا"۔ "مثال چاہیئے؟ لو مثال بھی لو ۔ یہ دیکھو میں نے ایک ڈاکٹر کو کیسے دیوار سے لگایا ہے جس نے ایک آیت پیش پیش کی تھی


۔"آپ نے میری اس بات کا جواب نہیں دیا کہ ایک واقعہ ہوتا ہے جس میں ایک جاہل مرد موجود ہے جو کسی گائوں سے شہر میں نووارد ہے اور ایک عورت ہے جو اسی شہر میں رہتی ہے پڑھی لکھی ہے ، تمام فہم و فراست رکھتی ہے، جدید علوم سے واقف ہے. وہ ایک بہتر گواہ ہوگی یا وہ جاہل مرد جو اس شہر کی گلیوں سے نا آشنا"۔

جاؤ گھر جا کے اس ضابطہ پہ خوب مشق کرو۔

اب وہ سینگ پھنسانے والی چیز ٹھری نری جاہل ۔۔۔۔۔ الف سے لام لا لٹو نہیں پتہ اسکو وہ سیدھے پمارے دوست کے پاس آیا اور آنٹی کی دی ہوئی مشق کو انجام تک پہچانے کی دوخواست کی پہلے تو ہمارے دوست نے منع کیا کہ ، نہ کر اوے کہ اگر میں نے اسکا جواب لکھ دیا تو آنٹی نے تجھے دیوار کے ساتھ لگا کے وہ کرنا ہے کہ وہاں وہاں تیرے زخم آئیں گے کہ کسی کو دکھا کہ ہمدردی بھی نہیں لے سکے گا۔۔۔۔۔ لیکن نہیں بھئی سینگ پھنسانے والی چیز کوئی آخری ڈھیت مانا ہی نہیں تو پھر ہمارے دوست کہا چل جیسی تیری مرضی ۔۔۔۔۔

ہمارا دوست نیٹ پہ بیٹھا اور مشقی میٹر کیلئے گوگل بگھوان کو عرضی دی۔ انہوں نے جواب میں مندرجہ ذیل "مواد"باہر پھینکا


۔"دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے
بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا"۔

اور ساتھ ہی یہ جواب لکھ کر سینگ پھنسانے والی چیز کے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔۔

فرض کیجئے کہ ایک پڑھے لکھے جوڑے کی شادی اس شق کے ساتھ ہوتی ہے۔ دونوں بڑی محبت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں ۔لوگ بھی اس جوڑے پہ رشک کرتے ہیں۔ شادی کے بعد شوہر بیوی کو ملازمت کا نہ صرف اختیار دیتا ہے بلکہ اپنے سے بھی اچھی ملازمت اس کیلئے تلاش لیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد شوہر مزید کوشش کر کے بیوی کیلئے بیرون ملک بھی ایک ملازمت تلاش لیتا ہے۔ بیوی بیرون ملک چلی جاتی ہے۔ اپنی عمدہ کار گذاری کی وجہ سے اسے اس سے بھی اچھی ملازمت دوسری جگہ مل جاتی ہے۔شوہر سے بھی رابطہ میں رہتی ہے۔ ادھر میاں بھی اپنے لئے باہر کی ملازمت تلاش کرتا ہے، دوران تلاش وہ ٹارگیٹ کلنگ کی زد میں آتا ہے اور اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھتا ہے۔ رہی سہی نوکری بھی چلی جاتی ہے۔ بیوی ضروری کاموں کی وجہ سے وطن نہیں آپاتی البتہ شوہر کا سرمایہ ختم ہوجانے کے بعد علاج کا تھوڑا خرچہ اٹھاتی ہے۔ سوئے اتفاق یہ کہ ایک بار میاں اپنا منھ دھوتا ہے اور بجائے پانی کی بوتل اٹھانے کے تیزاب کی بوتل اٹھا تا ہے۔ گرمی زیادہ ہونی کی وجہ سے چھینٹے نہیں مارتا بلکہ بوتل چہرے پہ انڈیلتا ہے ۔علاج بسیار کے بعد جان تو بچ جاتی ہے مگر چہرہ مکروہ ہوجاتا ہے۔ بیوی ضروری کام نپٹا کر وطن آتی ہے ۔ شوہر کی یہ حالت دیکھ کر اسکی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ کچھ دن تو برداشت کرتی ہے پر ایک دن شوہر سے کہہ دیتی ہے کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ کیوں؟ ان احوال میں تم مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے۔ لیکن یہ تو میرے ساتھ حادثہ ایسا ہوگیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ میں نہیں جانتی۔میں نے تمہارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا تھا۔ تمہارے لئے یہاں بھی ملازمت تلاش کی تھی اور باہر بھی۔ اسکا کچھ تو خیال کرو۔ دیکھو میں نے تمہارے چہرے کے علاج میں اتنا پیسا خرچ کیا ہے کہ اتنا تم نے ابھی تک کمایا بھی نہیں ہوگا۔ تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک کیا ہے اس پہ میں شکریہ ادا کرتی ہوں لیکن میں اس وقت تمہاری تلاش کی ہوئی ملازمت پہ نہیں ہوں میں تو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے اپنا ایک الگ جہان بنا چکی ہوں۔ لیکن میرا کچھ تو سوچو، میرا آگے کیا ہوگا میرے تو رشتہ دار بھی نہیں ہیں۔ یہ سر دردی تمہاری ہے۔ تو اب تم کیا چاہتی ہو؟میں شق اٹھارہ میں دیا ہوا حق استعمال کرنا چاہتی ہوں

سوال یہ ہے کہ جب تک میٹھا میٹھا رہا بیوی ہپ ہپ کرتی رہی جونہی کڑوا شروع ہوا بیوی نے تھو تھو کرنا شروع کر دیا



جب وہ سینگ پھنسانے والی چیز اپنا کام استانی کو دکھانے کیلئے لے گئے تاکہ پیٹھ پہ "یو آر اے سمارٹ بوئے کے تعریفی جملہ کے ساتھ شاباشی کی تھپکی لیں۔ انہوں نے کام ملاحظہ کیا۔ بعد ملاحظہ کے حکم دیا کہ ہاٹھ اٹھاؤ۔ اٹھا لئے۔ "دیوار سے لگ جاؤ"۔ لگ گئے۔ انہوں نے "دیوار سے لگانے" کے بعد تھپکی لی اور پیٹھ پہ جو بجائی ہے ( اور صرف تھپکی ہی نہیں بیلن چکلا جھاڑو گلاس۔ و علی ہذا القیاس) تو سینگ پھنسانے والے بیٹھنے اور سونے کے لائق نہیں رہے دو دن سے گھوڑے کی طرح کھڑے کھڑے سورہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ پیٹھ پہ وہ والی تھپکی کے بجائے یہ والی تھپکی کیوں پڑی؟

Tuesday, June 7, 2011

تمام خداوں سے بہتر خدا۔

ہم سب ایک شخص کے نہایت عجیب و غریب استدلال کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جہاں پہلے وہ عقل استعمال کرتا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ عقل استعمال ہی ایک نیوٹرل بندے اور غیر مسلم کے پوائنٹ آف ویو سے کی تھی۔ پھر وہ خدا کا انٹرویو کر آتا ہے اپنی لاشعوری کوشش کہ اس کو لا دین نہ سمجھا جائے۔ عجب تضاد کا شکار ہے۔ پھر برسوں گمنامی میں سونے والا ایک اور شخص جو کہ نہایت دعووں کے ساتھ گیا تھا پھر نمودار ہوتا ہے اور اپنی لا یعنی باتوں کا آغاز کر لیتا ہے حتی کہ غیروں کی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مانند دوسرے بلاگز پر پرائے پھڑے میں ٹانگ اڑا لیتا ہے اور واپس جا کر مالک کو اپنی کارگزاری سنا رہا ہوتا ہے۔
یہ شخص جا بجا ترجمہ کرتا ہے اور اخلاقی جرات کا یہ عالم ہے کہ کہیں بتانے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ سب اس کا لکھا نہیں عجب فراڈ انسان ہے۔ فلپائن میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ جلا لیا۔ آگے کی کہانی اس کو خوب معلوم ہے۔ اللہ واقعی بے نیاز ہے مگر اگر وہ اتنا ہی بے نیاز ہے تو لوگوں کو حساب کیونکر لے گا؟ جنت قدموں تلے رکھنے والیوں کو ایک یہ بھی پڑھ لینا چاہئے۔ کیونکہ بارہا ثابت ہو چکا کہ اس نے قران سمجھنا تو دور کی بات ترجمے سے پڑھ بھی نہیں رکھا۔ اور ہم تمام لوگوں کے لئے درج کی گئِ تمام آیات اہم ہیں مگر اہم ترین آخری والی۔

يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾

وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠﴾

ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١﴾

جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ﴿١٢﴾

خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾

اور جب ان سے کہا گیا جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں

Monday, June 6, 2011

اعترافی اور اقبالی بیان

ایک مینڈکی نے خفیہ طور پر اپنا نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر ہمارے اوے چینل کے نمائندے کو اپنا اعترافی اور اقبالی بیان ارسال کیا ہے جس کو من و عن آپک قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا کسی بھی قسم کی مماثلت کو غیر اختیاری مماثلت سمجھا جائے

بقول اور فعل مینڈکی کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ میں سے اکثر لوگ مجھے اچھی طرح جانتے اور پہچا نتے ہیں اور جو نہیں جانتے میں ان کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں ایک مینڈکی ہوں۔

آئیے میں آپ کو مزید اپنے بارے میں بتاتی ہوں۔

میرا مسکن پانی کے قریبی علاقوں میں ہوتا ہے۔ میدانی اور پہاڑی علاقوں اور وہاں کی مخلوقات سے مجھے سخت نفرت ہے۔

میری وہ خوبی جو مجھے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے میری پُھدکنا۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہر وقت میں تو بس پھدکتی رہتی ہوں۔ حاسدین اسی بات سے ہی بہت جلتے ہیں کہ میں گھر آرام سے کیوں نہیں بیٹھتی۔

دوسرے مینڈکوں کی طرح میرے دل کے بھی تین خانے ہیں۔ ایک خانہ "اُن" کیلیے اور باقی دو خانے میرے دو دوستوں ع غ کیلیے!

میرے سر میں زہریلے غدود پائے جاتے ہیں جو مجھے دشمنوں کا نوالہ بننے سے محفوظ رکھتے ہیں اور میری سوچ کو زہریلا کرتے ہیں۔ میری زبان کافی لمبی اور زہریلی ہے جس کی مدد سے میں اپنے آس پاس چھوٹے موٹے کیڑوں کو ایک پل میں چٹ کر جاتی ہوں۔

جب موافق موسم شروع ہوتا ہے تو میں راتوں کواٹھ کر ٹرٹرانا شروع کر دیتی ہوں اور ارد گرد کے مینڈک جو کہ کنویں کے مینڈک نہیں ہوتے، میری پکار پر لبیک کہتے ہوئے میری طرف لپکتے ہیں۔

میں دیگر جاہل اور ان پڑھ مینڈکیوں کے بر عکس صرف ایک بچے کی قائل ہوں اور دیگر ہزاروں انڈے ضائع کر دیتی ہوں۔ میں ان جاہلوں کو میٹامارفوسس کا عمل اور اس کے نقصانات بھی سمجھاتی رہتی ہوں۔

حد سے زیادہ ٹرٹرانے کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے مجھے زکام ہوا جو کہ اب بخار میں تبدیل ہو چکا ہے۔