Wednesday, December 17, 2014

بنو قریظہ کے واقعے سے استدلال


معلوم نہیں، آرمی اسکول کے بچوں کو قتل کرنے کے حق میں بنو قریظہ کے واقعے سے استدلال، ذمہ داروں نے واقعی کیا ہے یا نہیں، لیکن اگر کیا ہے تو یہ افلاس علم کے باوجود تحکم اور خود اعتمادی کے اسی رویے کی ایک مثال ہے جو اس پورے طبقے میں علی العموم دکھائی دیتا ہے۔ بنو قریظہ کے جن مردان جنگی کے قتل کا فیصلہ، خود انھی کے مطالبے پر مقرر کردہ حکم نے کیا اور جو خود تورات کی شریعت کے مطابق تھا، وہ یہودیوں کے کسی مدرسے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل نہیں کر رہے تھے جن پر اچانک جا کر دھاوا بول دیا گیا اور کہا گیا کہ زیر ناف بال دیکھ کر بالغوں اور نابالغوں کو الگ کر دیا جائے اور بالغوں کو قتل کر دیا جائے۔ بنو قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور ایک نہایت نازک موقع پر مدینہ پر حملہ آور مشرکین کے ساتھ ساز باز کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی سازش کی تھی۔ ان کا باقاعدہ جنگی قوانین کے مطابق محاصرہ کیا گیا اور پھر انھی کے مطالبے پر انھیں اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کی اجازت دی گئی کہ ان کے متعلق فیصلہ ان کے اپنے منتخب کردہ حکم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کروایا جائے گا۔ چونکہ بنو قریظہ کی پوری آبادی اس جنگی جرم میں ملوث تھی، اس لیے ان کے عورتوں اور بچوں کوچھوڑ کر تمام مردان جنگی کو یہ سزا دیا جانا کسی بھی لحاظ سے جنگی اخلاقیات کے منافی نہیں تھا۔ اس سے یہ استدلال کرنا کہ دشمن کے کیمپ سے متعلق غیر مقاتلین پر اور وہ بھی ایک تعلیمی ادارے میں جمع ہونے والے معصوم بچوں پر حملہ آور ہو کر انھیں قتل کر دینا، سنت نبوی کی پیروی ہے، جہالت اور سفاہت کی ایک عبرت ناک مثال ہے۔

Tuesday, December 2, 2014

ناسٹیلجیا ۔۔۔۔۔


ہمارے دوست ابو نجمہ سعید صاحب کی جانب سے ایک بہترین قسم کا اظہار اور ماضی کی یاد۔۔۔۔۔۔ تمام اردو بلاگرز حضرات سے انکی شخصیت کوئی دھکی چھپی نہیں ہے۔۔۔۔۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔ سچ کہا جس نے کہا کہ آدمی کو مکان اور اس کے متعلقات سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی عزیزوں سے۔ واٹس ایپ پر ویڈیو اور تصاویر موصول ہوئیں، اس حسرت ناک خبر کے ساتھ کہ آم کا پیڑ کاٹ دیا گیا۔ ہائے ہائے!!! خبر کیا تھی اک تیر پُر ستم تھا جو سیدھا جگر میں پیوست ہوا۔ ایسا لگا کہ آرا پیڑ پر نہیں ہمارے دلوں پر چلا۔ کاٹا اسکو نہیں ہمیں گیا۔ اکھاڑا اسکو نہیں ہمیں گیا۔ شاخیں اسکی نہیں بازو ہمارے کاٹے گئے۔اوندھے منھ وہ نہیں ہم گرے۔ ہائے ہائے!! آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔ تو پکارے ہائے گل، میں چلاؤں ہائے دل۔ یہ تو معلوم نہیں کب سے تھا وہ ۔ البتہ آنکھ جب سے کھولی تب سے تھا وہ۔ کرکٹ بھی اسی کی چھاؤں میں کھیلی، کیریاں بھی اسی کی کھائیں۔ اسی کے نیچے اپنے دادا کو پوتوں کا قرآن سنتے دیکھا۔ ان کے بعد والد صاحب اور چچاؤں کو دیکھا۔ آنے والے مہمانوں کو دیکھا۔ ہونے والی مٹنگوں کو دیکھا۔دی جانے والی اذانوں کو دیکھا۔ پڑھی جانے والی نمازوں کو دیکھا۔ ہونے والی شادیوں کو دیکھا۔ رکنے والی گاڑیوں کو دیکھا۔ بہنے والے پانیوں کو دیکھا۔پانی پینے والے بیلوں کو دیکھا۔ نہلائے جانے والی بھینسوں کو دیکھا۔ تیرنے والے ہم عمروں کو دیکھا۔ وضوء کرنے والے بزرگوں کو دیکھا۔پڑھے جانے والے قرآنوں کو دیکھا۔ ہونے والے دوروں کو دیکھا۔ دینے والے مالکوں کو دیکھا۔ لینے والے مزدوروں کو دیکھا۔ میٹنگ ہال بھی تھا وہ۔ مردان خانہ بھی تھا وہ۔ مہمان خانہ بھی تھا وہ۔گاڑیوں کا گیراج بھی تھا وہ۔ آنے والے مرد مہمان اسکے نیچے بچھی چارپائی پہ بیٹھتے اور عورتیں گھروں میں چلی جاتیں۔ چائے ناشتہ جو ہوتا وہ اس کی چھاؤں میں۔ شادی بیاہ کے ہنگامے جو ہوتے وہ اس چھاؤں میں۔ اذانیں جو ہوتیں وہ اسکی چھاؤں میں۔ نمازیں جو ہوتیں وہ اسکی چھاؤں میں۔ صرف دو موقعوں سے ویران ہوتا۔ ایک برسات میں دوسرے رات میں۔ اول الذکر کی وجہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ثانی الذکر کی وجہ آپ جانتے ہی ہونگے ۔ واٹس ایپ پر جو آج خبر موصول ہوئی تو ایسے لگا جیسے دادا کا ایک بار پھر انتقال ہوگیا۔ لگنا بھی بجا ہے کہ آخر تھا بھی وہ دادا ہی کی عمروں کا۔ دادا ہی طرح ہمیشہ دیا لیا کبھی نہیں۔ حتی کہ مرتے ہوئے بھی نہال کرگیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ سچ کہا جس نے کہا کہ آدمی کو مکان اور اس کے متعلقات سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی عزیزوں سے۔ہائے ہائے!! آ عندلیب! مل کے کریں آہ و زاریاں۔ تو پکارے ہائے گل، میں چلاؤں ہائے دل۔ حالت غم میں ہوں یارو! تعزیت کرتے جاؤ یارو!