Saturday, February 2, 2013

دو گروہ

یہ دو گروہ اس دنیا میں شائد ازل سے ہیں اور قیامت آنے سے کچھ پہلے تک دو ہی رہیں گے اور قیامت آئے گی ہی اس وقت جب ان میں سے ایک گروہ جو اللہ کو ماننے والا ہے بلکل ختم ہو کر صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائے گا .....

یہ اللہ کا بہت ہی کرم اور احسان ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو ماننے والوں میں کردے اور اس کے بعد یہ اس ماننے والے کا کام ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کہ اس انعام اور اکرام کی قدر کرتا ہے کہ اسکی اس دی ہوئی نعمت میں اللہ کی طرف سے اضافہ ہوتا رہے کہ وہ ہمیشہ دسروں کے لئے بھی اس بات کا ذریعہ بنا جائے کہ لوگ اسے عمل سے متاثر ہو کر اللہ کی جانب راغب ہوں اور ان کے دلوں میں بھی اس بات کی خواہش بیدار ہو جائے کہ انکا تعلق بھی اللہ سے جوڑ جائے ....

اگر اللہ چاہے تو اس پوری کائنات تو اپنا مطیع بنا لے اور اسکو بنانے میں اتنا وقت بھی نا لگے جتنا پلک جھپکنے میں لگتا ہے ... مگر اللہ نے انسان کے اپر کوئی زور زبردستی نہیں رکھی ہے اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے اپنے خالق سے تعلق جوڑے .. اور اگر اللہ نے زبردستی کرنی ہی ہوتی تو انبیاء علیہ کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا .... اور انبیاء کرام کا سلسلہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کامیاب ہوجائے اور کوئی انسان جب اللہ کے پاس لوٹے تو کامیاب پہنچے ..... اور انیباء کرام کی محنت سے لوگ کا تعلق اللہ سے بنتا تھا اور وہ لوگ اللہ کے بندے اور اللہ کے ماننے والے جاننے جاتے ہیں ... اور جو نہیں مانتے وہ خالق کے نافرمان
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں شائد...

ماننے والوں کی ذمہ داری نا ماننے والوں سے زیادہ ہوتی ہے کہ جو لوگ جنہوں نے دین کو مذاق سمجھا ہوا وہ اس بات کی تاک میں رہتے ہیں کہ جیسے ہی آپ نے کوئی غلط بات کی اور غلط کام کیا وہ فورا اس بات کو جواز بنا کر دین سے متعلق غلط باتوں کو پھیلا سکیں اور دوسرے لوگوں کو دین کے خلاف اکسا سکیں ... اور نا ماننے والوں کا یہی وطیرہ رہا ہے ازل سے ..... لیکن ان کو ابھی اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ دین بھی مخلوق ہے اور اس میں دیئے گئے احکامات بھی مخلوق ہیں .. اگر کوئی جدانخواستہ دین اور اسکے احکامات کا مذاق بنا رہا تو وہ دراصل میں ..... میری تو اتنی جسارت ہی نہیں کہ میں یہ لکھ سکوں.....

اب اصل بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو دین اور اسے احکامات سے روگردانی کر رہا کہیں اسکی وجہ وہ لوگ تو نہیں جو دین کے ماننے والے ہیں .... یقین جانئے اگر ایسا ہے تو یہ سراسر نقصان کا سودا ہے .....

یہ بھی بلکل صدقہ جاریہ کی طرح سے ہے کہ اگر کوئی ایک شحص ہماری وجہ سے سیدھے راستے پر آگیا تو ہماری نجات کے لئے کافی اور اسی طرح اگر کوئی بھی ایک شخص ہماری کسی بات اور کسی عمل کی وجہ سے دین سے دور ہو گیا تو وہ ایک ہی ہمارے سارے اعمال کو راندہ درگاہ کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے .... اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے........

اور یہ تو المیہ ہی ہے خاص طور پر آج کے دور کے انسان کا کہ , وہ دوسرے کو دیکھ کر دین پر عمل کرتا ہے اور لوگ صرف جلوت کی زندگی ہی نہیں خلوت میں گذارے جانے والی زندگی کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں اگر ماننے والے اپنی زندگی کے قول اور فعل کے تضاد کو ختم کرنے کی سعی اور کوشش نہیں کرینگے تو معاملات کبھی بھی قابو میں نہیں آئیں گے .... اور حالات زور مزید درگوں ہوتے چلے جائینگے ....

بقول ہمارے ایک بزرگ کے, کہ آج کا مسلمان ہی مسلمان اور اغیار کا دین پر عمل کرنے اور دین میں داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے .....

اللہ ہم سبکو کو ویسا بنا دے جیسا وہ چاہتا ہے ... اور اسکے لئے اب کوئی فرشتہ نہیں آئے گا یہ سب, ہم سب کو آپس میں مل کر غور و فکر سے حل کرنا ہے ... اللہ سبکو توفیق دے ... آمین

Wednesday, November 21, 2012

سمت کا تعین .....

یار آج تو میں غالب کے تمام خطوط اور اشعار کو ازبر کر کے آیا ہوں ... ان شاءاللہ آج کا پرچہ تو بہت ہی بہترین ہو گا اور میرے نمبر بھی اچھے ہی آئینگے .... یہ بات آج کا پیپر شروع ہونے سے پہلے اپنے دوستو سے کی .. تو ایک دوست نے پہلے تو حیرت سے دیکھا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا .. کافی دیر بعد جب اسکے حواس بحال ہوئے تو اس سے ہسنے کی وجہ پوچھی .... کہنے لگا ابے احمقوں کے سردار آج اردو کا نہیں حساب کر پرچہ ہے... اور تو اردو کی تیاری کر کے آگیا ... ابے صفر بھی نہیں ملے گا تجھکو ... چاہے غالب کیا دنیا کے ہر اردو شاعر کے بارے تو مفصل لکھ دے ........

ایک اور مثال بلکل آسان اور سیدھی سی صرف یاد دہانی کے لئے......
ایک شخص جس کو لاہور جانا ہے اور وہ ایک ایسی گاڑی میں سفر کر رہا ہے جو کوئٹہ جا رہی ہے بہت ہی تیز رفتاری کیساتھ تو چاہے کتنا بھی زور لگا لے لاہور قیامت تک نہیں پہنچے گا جب تک اپنا رخ اس سمت کی جانب نا کرلے جو لاہور کیطرف ہے ......

یہ باتیں اس لئے کی ہیں ... کہ ایک وہ شخص جو دین اسلام پر ہے چاہے اسکا عمل تھوڑا ہی کیوں نا ہو ان شاءاللہ کامیاب ضرور ہوگا اور ایک ایسا شخص جو دین کو سرے سے مانتا ہی نہیں مگر اسکے عمل سے انسانیت کو فائدہ بھی بہت پہنچ رہا ہو .. تو اسکو اسکے اس عمل کا بدلہ اس عارضی دنیا میں تو ضرور مل جائے گا جیسا کہ نظر بھی آرہا ہے مگر.. اگر وہ چاہتا ہے کہ ہمشیہ کے لئے کامیاب ہو تو اسکو اس دین کو جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچایا ہے لازم قبول کرنا پڑے گا ...

اور بحثیت مسلمان ہم کو یہ زیب بھی نہیں دیتا کہ ہم کسی انکار کرنے والے کا موازنہ کسی اللہ کے ماننے والے سے کریں ... کیونکہ یہ کبھی برابر ہو ہی نہیں سکتے....

اور ایسا کرنے کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آج ہمارے دلوں میں اللہ کہ وہ بڑائی عظمت اور کبیرائی نہیں رہی ہے...

اللہ ہم سب کے قلوب میں اپنی عظمت اور بڑائی راسخ کر کے غیر کا یقین نکال دے

Saturday, November 17, 2012

واقعی ہم اب وہ نہیں رہے

ہاں واقعی ہم اب وہ نہیں رہے جو بحثیت مسلمان ہم کو ہونا چاہیےتھا اور رہیں بھی کیسے .. کیونکہ کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں اس ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہوتا ہے.. اسی لئے اگر تمام انبیاء علیہ صلوۃ سلام کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو کم و بیش تمام انبیاء نے بکریاں چرائیں ہیں اور بکریاں چروانے کا مقصد یہی تھا کہ انکے اندر مسکنت پیدا ہو ... یہ بھی سنا ہے کہ شیر کی صرف کھال کے اپر بیٹھنے سے انسان کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے. یہ بات صرف اس لئے لکھی ہے کہ ہم کو اندازہ ہو سکے کہ انسان کی زندگی میں ماحول کے کیا اثرات ہوتے ہیں...

ویسے تو یہ بات بحیثیت مسلمان ہر شخص جانتا ہے کہ آج جو مسلمانوں کا پوری دنیا میں حال ہے اسکا کوئی اور نہیں خود ہم مسلمان ہی ذمہ دار ہیں. مسلمان اس پری طرح سے پریشان اور مجبور ہے کہ اسکا کوئی پرسان حال نہیں.. کبھی افغانستان میں, کبھی فلسطین میں, کبھی کشمیر میں تو کبھی خود اپنے ہی گھر میں, اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اللہ پاک نعوزبااللہ یہ سب نہیں دیکھ رہا اور اگر دیکھ رہا ہے تو پھر اپنے ماننے والو کی مدد کیوں نہیں کر رہا..

اصل میں اللہ پاک نے اپنی مدد کو ایمان کے ایک مخصوص لیول کیساتھ مشروط کیا ہوا ہے .... اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں اللہ تو بس ہماری مدد فرما دے باقی ہم کرینگے تو وہی جو ہمارا دل چاہے گا . تو اس طرح اللہ پاک کی مدد تو نہیں البتہ وہی ہوگا جو اس وقت ہو رہا.

اور اس بات میں کوئی شک اور کوئی ابہام نہیں میرا یقین ہے کہ جس دن ہمارا ایمان و عمل اس معیار کو چھو لینگے جو اللہ پاک کو مطلوب ہے ... تو اللہ کی پاک کی مدد آج بھی بلکل اسی طرح سے ہمارے ساتھ ہوگی جس طرح سے اللہ پاک نے ابراہیم علیہ سلام کی آگ میں مدد کی تھی, موسی علیہ سلام کی نیل میں سے گذرنے میں مدد کی تھی اور جس طرح عبدالمطلب کی مدد کی تھی ابابیل بھیج کر اور یہ سب تو اللہ کہ مخلوق ہیں واللہ اس بات میں بھی کوئی تردد نہیں کہ اللہ پاک ہماری آج بھی اسی طرح مدد کرینگے جس طرح سے کفار مکہ کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت فرمائی تھی.

مگر اسکے لئے شرط وہی ہے کے پہلے ہم کو اللہ کی ماننی پڑے گی بلکل اسی طرح جس طرح ماننے کا حق.

تو یہ بات تو بہت ہی واضح ہے کہ آج ہم بذات خود مسلمان ان حالات کے ذمہ دار ہیں اس کے لئے کسی اور کو قصور وار ٹھرانا سراسر زیادتی ہے ہم اور ہمارے اعمال خود اللہ کے مدد راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو اغیار سے کس بات کی شکایت.

بات آسان ہے بس اللہ پاک ہم سبکو یہ بات سمجھا دے ... کہ ہم اللہ کو بلکل اسی طرح ماننے جس طرح اللہ کو ماننے کا حق ہے ... اس یقین کیساتھ کہ اللہ جب ساتھ ہوگا تو چاہے سامنے کوئی بھی ہمارا کچھ بھی نہیں کر سکے گا. اور اللہ پاک نے خود بھی فرمایا ہے جسکا مفہوم ہے کہ .. غالب تم ہی رہو گے اگر تم پورے ایمان والے ہو

اللہ پاک ہم سبکو یہ بات سمجھ کر اس پر عمل کرنے والا بنا دے

آمین

Saturday, August 25, 2012

مقاصد اردو بلاگنگ...

اردو بلاگنگ کے جتنے چاچے مامے ہیں ان سے آج ایک سوال ہے کہ اردو بلاگنگ کا مقصد کیا ہے...
کیا اردو بلاگنگ کا مقصد صرف ایک دوسرے کی بینڈ بجانا ہے یا پھر صرف دوسروں کی پیروڈی کرنا ہے..

اگر کسی انسان کو اللہ نے کوئی صلاحییت دی ہے تو اسکو مثبت راستے پر استعمال کریں اور خاص کر اس وقت جب آپ کو خود یہ پتہ ہو کہ ایک جم غفیر ہوتا ہے جو آپکی بلاگ پوسٹ کا شدد سے انتظار کررہا ہوتا ہے.. تو کیوں نہ اس بات کا فائدہ اٹھا کر کچھ ایسا تعمیری اور تربیتی لکھا جائے کہ اس سے پڑھنے والا اثر لے , قاری کی سوچ تبدیل ہو اگر وہ منفی زہن رکھتا ہو تو مثبت ہوجائے, اگر قاری آپکی تحریر صرف پڑھتا ہے اور اس پر اسکا کوئی اثر نہیں تو ایسے لکھنے والوں کو دینا , چول چوہدری, کپی, رولیکس والا بابا اور نا جانے کیا کیا کہتی ہے یہ لوگ ویسے ہی کثیر تعداد میں موجود ہیں اپنے آپ کو اس میں شامل کر کے مزید چولوں کا اضافہ نہ کریں....

تو میری ان تمام اردو بلاگرز خواتین اور حضرات سے جنکے قاری لاتعدد ہیں اپنے ہنر کو خوب سے خوب اور بہتر سے بہتر طریقے سے استعمال کر کے لوگوں کی فلاح کے لئے لکھیں...

اور قارئین اردو بلاگرز سے بھی یہی التماس ہے کہ کسی بھی تحریر کو صرف اس لئے نہیں پڑھیں کہ یہ آپکے کسی عزیز دوست نے لکھی ہے بلکہ اچھی تحریر پڑھنے کا مقصد ہی یہ ہونا چاہیے بلکہ یہ نیت ہونی چاہیے کہ جو بھی اچھی بات پڑھیں گے اس پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرینگے ..

Saturday, July 21, 2012

دس بلاگرز

بلکل اسی طرح جتنے ٹی وی چینل ہیں انکی ہی مقدار کے برابر ایوارڈ ہوتے ہیں ... اور کچھ ایسا ہی سلسلہ ہمارے اردو بلگرز میں بھی سٹارٹ ہو گیا ہے جتنے بلاگرز اتنے ہی ایوارڈ ...

تو آج میں بھی آپ سب کی خدمت میں اردو کے 10 بہترین بلاگرز پیش کرنا چاہتا ہوں.... اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ اپنے پسندیدہ بلاگرز کی ایک نئی فہرست بنا کر ایوارڈ کے بندر کو بانٹ دیں.....

اچھا جی پہلے طریقہ کار کو وضع کر دوں کے بلاگرز کو کس طریقے سے منتخب کیا گیا ہے....

بہت ہی آسان فارمولہ ہے ...

1- پہلے اپنے 10 پسندیدہ بلاگرز منتخب کریں

2- ہر بلاگرز کے نام کی 10, 10 پرچیاں بنائیں

3- اور اب باری باری ہر بلاگر کے نام کے دس پرچیاں ھاتھ میں لے کر خوب ہلائیں اور انکو اچھال کر زمین پر ڈال دیں...

4- پھر اگر آپکے اپنے دس بچے ہیں تو ٹھیک اگر کچھ کمی ہے تو آس پڑوس کے بچوں کو بلا کر 10 کی گنتی پوری کریں....

5- اسکے بعد وہ بلاگرز جو پہلے ہی سے ہم سیٹ کرچکے ہیں نمبر 01 سے 10 نمبری تک اسی ترتیب سے پرچیاں اچھالیں اور ایک جگہ نوٹ کرتے جائیں کے کون نمبر 01 اہے اور کون نمبر 10 ہے

.... اب ہم آپکو بتائیں گے کہ وہ کون سے دس بلاگرز ہیں جنکو ہماری نظر نے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا ہے...

ویسے تو کسی بھی خاتون بلاگر کو ہم پہلا نمبر دے سکتے تھے لیکن جینڈر ڈسکریمینیشن بھی کوئی شئے ہے تو ... درج ذیل میں فہرست ملاحظہ ہو...

01-محسن شفیق حجازی... یہ اردو بلاگر نہیں ہیں مگر اگر انسے درخواست کی جائے تو بن سکتے ہیں ...

02‏شبیہہ فاطم پاکستانی

03- زینب واحدی بٹ

04- عطا محمد تبسم

05-منظر نامہ جو خود ایوارڈ بانٹتے کیا وقت آگیا کہ انکو بھی ایوارڈ مل گیا

06-محترم ہر دلعزیز طارق عزیز

07-جاہل اور سنکی

08- وقار اعظم

09- آزاد

10- ابو شامل

میرے حساب سے یہ دس بہترین بلاگرز ہیں... ہر ایک اپنے لکھنے میں ایک منفرد انداز رکھتا ہے... اور چونکہ یہ میرے پسندیدہ بلاگرز ہیں تو کسی کو کوئی اعتراض تو ہونا نہیں چاہیے ...

اور میری طرف سے ان تمام بلاگرز کو شبھ شبھ مبارکباد .... بلاگستان زندہ ہی باد

اور اگر کسی بلاگر کو نمبر پت اعتراض ہو تو بتا دے نمبر تبدیل کرنے کی سہولت ہے اور بچے بھی اپنے ہی ہیں جب دل چاہے گا نئی پرچیاں نکال دی جائیں گی ...

باقی میری طرف سے کچھ بلاگرز سے معذرت بھی ہے ...... :ڈ

Tuesday, June 26, 2012

واہ رے ٹیڑھی پسلی

وہ میرا دوست تھا .. کیونکہ اب میں کم سے کم اسکو اپنا دوست تو نہیں کہہ سکتا ....

ابے بھائی کون تھیں یہ خاتون جن کو تو اتنے برے انداز سے پرا بھلا حتی کے گالیاں بھی دے رہا تھا .... اچھا ... واقعی ... نہیں یار مذاق نا کر اسطرح کی گالیاں تو ہم کسی خاتون فقیر بلکہ کسی وحشیا کو بھی سرعام اس طرح نہیں دے سکتے ....

جی ہاں ہمارے ایک سابقہ دوست جن سے اتفاق سے دوستی ہوگئی تھی اپنی دادی یعنی کے اپنے ابا کی سگی اماں کو گالیاں دے رہے تھے.

وجہ پوچھی تو پتہ چلا کے انکی دادی نے انکی اماں پر بہت ظلم ڈھائے اور انکے ابا نے انکی اماں کی حمایت میں اپنی اماں کو گالیاں نہیں دیں اس لئے یہ اپنی اماں کا بدلہ اپنے ابا کی اماں سے لے رہے ہیں.....

20 سال بعد .... زرا ڈھنگ تو دیکھو آج کل کی اولاد کے بیوی کے کہنے میں آکر اپنی اماں سے ہی بدزبانی اور بدتمیزی کر رہا ہے کوئی اسکو سمجھاتا کیوں نہیں ہے ... ماں ہوں میں اسکی اگر ایک بددعا دے دی تو دنا بھی خراب اور آخرت بھی........
یہ بات اماں جی آپنے اس وقت کیوں نا سوچی تھی جب آپ اپنے مجازی خدا سے ہر وقت اس بات پر ہی جھگڑتی رہتی تھیں کہ تم اپنی اماں کو کھری کھری کیوں نہیں سناتے ہو....

واہ رے ٹیڑھی پسلی کی پیداوار کوئی کل بھی سیدھی ہے کہ نہیں

بس ثابت یہی ہوا کہ اس میں تربیت کا شدید فقدان ہے اور بچوں کو بڑوں کے معاملے میں بولنے دینے کا رجحان بھی.

Tuesday, May 8, 2012

اس ایک تھپڑ کی مار

یہ بات ہے سن 1987......
اسکول کے گراونڈ میں اسمبلی ہو رہی ہے اور تمام مستقبل ہونہار معار باآوازبلند پاکستان کا ترانہ پڑھ رہے ہیں... وہاں سے فارغ ہو کر کلاسوں میں جا پہنچے اور پڑھنا اور اپنے استاد محترم سے علم کی روشنی سے قلوب کو منور کرنا شروع کیا.
ابھی کوئی دوسرا پریڈ ہی سٹارٹ ہوا تھا کی باہر کوریڈور میں کچھ ہلچل سے مچی اور ہمارے ھیڈماسٹر صاحب کی زوردار آوازیں آنا شروع ہوئی تو ہمارے استاد جی بھی پاہر کیجانب گئے دیکھنے کے لیے کہ ماجرا ہے....

ھیڈماسٹر صاحب دسویں جماعت کے کسی لڑکے کو ڈانٹ رہے تھے اور حسب روائت کان کے نیچے بجا بھی رہے تھے...
اوہ ہو یہ تو نعیم ہے یار اسکا تو روز کا ہے یہی وطیرہ ابھی مار کھا رہا ہے اور ہاف ٹیم میں پھر گول ہو جائے گا اسکول سے اور وڈیو گیم کی دکان پر چھٹی کے ٹائم تک گیم کھیلے گا یہ ساری باتیں ہم لوگ کر رہے تھے اور کلاس کی کھڑکی سے اچک اچک کر دیکھ بھی رہے تھے........

اچانک کلاس کے بچوں کی چیخ نکل گئی ایسے کہ کسی کو اچانک بچھو نطر آگیا ہو... پیچھے کھڑے لڑکے جن کی رسائی کھڑکی تک نہیں ہو رہی تھی تجسس بھری آواز میں پوچھا کہ کیا ہوا کیوں چیخے تم لوگ................
تو ایک لڑکے نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا ... تھپڑ .... منہ پر تھپڑ ماردیا ...... نعیم نے ھیڈ ماسٹر کے منہ پر تھپڑ ماردیا ..... سب کے سامنے سارے استادوں کے سامنے ... سارے بچوں کے سامنے.... سارے چپڑاسیوں کے سامنے... اوہ سارے بچے دم سادھ کے اپنی سیٹوں پر آکت بیٹھ گئے.... باہر سے آوازیں بھی اب آنا بند ہوگئی تھیں....

تھوڑی دیر بعد استاد جی کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ ابھی جو کچھ ہوا وہ تو اپنے لوگوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا...
پھر کہا....... ھیڈماسٹر صاحب نے نعیم کو اسکول سے نکال دیا ہے ..... اسکے بعد انہوں نے دوبارہ پڑھائی سٹارٹ کردی

سن 2002 ..... ہندرہ سال کے بعد میں آفس سئ واپس آرہا تھا کہ کسی نے آواز دی ..... ہیلو بھائی کہاں ہو کبھی ہم سے بھی مل لیا کرو .... میں نے گھوم کے دیکھا تو سامنے ملگجے کپڑوں میں ملبوس ایک انتہائی کمزور اور لاگر بندہ کھڑا ہے ... کہنے لگا ہاں یار اب کہاں پہچانوں گے عرصہ بھی تو بہت ہوگیا ..... میں وہی ہوں نعیم جو تمھارے ساتھ جامعہ ملیہ اسکول میں پڑھتا تھا ..... میں نے فورا کہا اسے کہا ارے ہاں تم وہی ہو نہ جس نے ھیڈ ماسٹر صاحب کو مارا تھا ......

اس ٹائم زوربازو تھا جوانی تھی ماردیا... مگر اس ایک تھپڑ کی مار میں آج تک جھیل رہا ہوں.....
میں نے پوچھا کیا ہوا اسکے بعد تم نے کون سے اسکول میں داخلہ لیا کہنے لگا ..... مجھے اسکول میں داخلہ تو مل گیا مگر اسکے بعد میں کسی بھی کتاب کا ایک حروف بھی یاد نہیں کر سکا بلکہ اسے پہلے جو مجھے آتا تھا میں وہ بھی بھول گیا میرا دل و دماغ ایسا ہوگیا جیسے کسی سلیٹ پر لکھ کر مٹا دیا جاتا ہے......

اس ایک تھپڑ کے بدلے زندگی نے اتنے تپھڑ مارے ہیں اور ایسے مارے ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا.....

یہ سارا قصہ اس لئے یاد آگیا کہ کل کے کسی اخبار میں پڑھا کہ کچھ لڑکوں نے نقل سے روکنے پر استاد کی پٹائی کردی..... استاد تو شائد معاف کر دے... مگر اسکا جو مکافات عمل ہے وہ ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتا..

یہ بات سمجھ سے بلاتر ہے کہ کوئی اسطرح کا سوچتا بھی کیسے ہے کہ استاد کو مار دیا جائے... بقینا یہ گھر والوں کی طرف سے تربیت میں کچھ کمی یا پھر بلاوجہ اور ناجائز سپورٹ کا نیتجہ ہوتا ہے .... جسکا انجام اور کسی کو نہیں اپکی اپنی اولاد کو تادم حیات بھگتنا پڑتا ہے...

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ابا نے ہمارے استاد کو کہا تھا کہ ..... آج سے یہ ہمارا بچہ آپکے حوالے کچھ بھی غلط کرے تو چمڑی آپکی اور اگر باقی کچھ بچا تو ہم لے جائیں گے.......
اللہ ہم سب کو اپنے استادوں کی قدر اور حقیقی عزت کرنے والا بنا دے کہ اللہ نے بھی استاد کا درجہ بہت بلند رکھا ہے کہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو کسی بھی انسان کو زندگی کو گذارنے کا طریقہ بتاتی ہے.......

اللہ ہم سب کو عمل کرنے والا بنا دے .... آمین