Monday, April 11, 2011

فارمولا

بہت دن ہو گئے جی اب تو 30 مارچ2011 کو گذرے ہوئے ۔۔۔۔ یہ دن بھی پاکستان کی تاریخ میں کمال کا دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سمجھ گئے نا تو پھر اب کام کی بات ہو جائے

کبھی کسی نے تکون چاند دیکھا ہے، یا کبھی کسی نے ہوائی جہاز کو بانی پر تیرتے اور پانی کے جہاز کو ہوا میں اڑتے دیکھا ہے۔۔۔۔ ارے ناراض نہ ہوں میں تو پوچھ رہا ہوں آپ لوگوں سے ۔۔۔۔

اچھا دیکھنے کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟؟؟؟؟

کچھ لوگ لاجک لگا کر اسکو ممکن کر دیکھانے کی کوشش کریں گے اور آخر تک لگے رہیں گے اپنے اپنے طریقوں سے مگر جو علم رکھتے ہیں وہ شائد یہ کہہ دیں کہ اللہ پاک کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں وہ چاہے تو کچھ بھی کر ستکتا ہے۔۔۔

جی ہاں بےشک اللہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے اور کسی کا محتاج نہیں اور مسلمان ہونے کے ناطہ ہمارا ایمان بھی یہی ہے

مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے لئے اس اللہ نے ایک فارمولا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ پہلے ہم انسان وہ کریں جو اللہ نے کہا ہے اسکے بعد اللہ پاک ہر وہ کام ہمارا کر دینگے جس کو عقل بھی کہتی ہے کہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم انسان ڈیڑھ سیانے کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ یا اللہ پاک آپ ہمارا یہ کام کر دیں تو پھر میں آپ کے تمام احکامات مانوں ۔۔۔۔۔۔ اور اس پر ہی جمے رہتے ہیں۔۔۔۔اور رو، رو کے دعائیں کرتے ہیں مطلب صرف دعا خالی خولی بغیر عمل کے۔۔۔۔۔۔

تو آپکا کیا خیال ہے ایسی دعا کس بلندی تک جاتی ہے اور اگر ہم کو دعا کو عرش تک پہنچانا ہے تو کس بات کی اشد ضرورت ہے ؟؟؟؟

11 comments:

ڈفر said...

مولبی یار سیکنڈ لاسٹ پیرا تو اخییییییر ای ہے

یاسرخوامخواہ جاپانی said...

کام کروائے بغیر احکامات مان کر دعا کرکے دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔شاید عرش ہلا دے۔کام رشوت دے کر ہی کروانا لازمی ہے؟

وقاراعظم said...

یہ کی نہ ہمارے دل کی بات۔۔۔۔۔۔

جعفر said...

عمدہ

حجاب said...

اچھی تحریر ہے ۔۔ بس عمل کی ضرورت ہے ۔۔

عمران اقبال said...

مولبی صاحب۔۔۔
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔۔۔
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔۔۔

بلاامتیاز said...

اتنی اچھی تحریر میں بھی ایک تاریخ کا زکر کر دیا تو نے۔۔
تجھے تاریخیں بھولتی کیوں نی ہیں

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بہت خوب۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

پر انکا کیا کریں جو اردو بلاگنگ پہ کہیں نہ کیہں کسی نہ کسی حوالے سے مسلمانوں کو درکنار بس نام لیا اسلام پسندوں کو رگڑا دینے سے باز نہیں آتے۔

ادہر ایک بلاگ ہے جس میں وہی کہانی ہے۔ چماروں کی بہو والی۔ کہ۔ پھتو آئی تے گن گمائی۔ اور سارا زور اس بات پہ پے کہ ایک ہم ہی سمجھدار تھے باقی سارے مولوی تھے اور مولوی ہونے کی وجہ سے جھانویں تھے۔

یہ جو پھتو ہوتی ہیں نا خدا ان سے بچائے۔ انکا بغض اسلام سے نہیں جاتا۔

ضیاء الحسن خان said...

ڈفر ـــــــــ سمجنے والے کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے

ٰیاسر ــــــــــــــــــ یہی تو پرابلم ہے اجکل تو بغیر مطلب کے دعا بھی نہیں کرتے

وقار ـــــــــــــــــــ دل کی بات کو بلا آخر زباں پر لانا ہی ہوگا ورنہ آپ تو جانتے ہی ہیں روشن خیالی کی چڑیل کو

استاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :))))

حجاب ــــــــــــــ جی ٹھیک کہا آپ نے صرف اور صرف عمل کی ضرورت ہے اللہ ہم سبکو باعمل مسلمان بنا دے آمین

عمران ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں صحیح بات ہے پر اخلاص بھی تو چاہیے

شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرم تمکو مگر نہیں آتی

جاوید صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکل ٹھیک فرمایا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آصل میں، یہ ہی سبب بنا تھا ابلیس کا راندے درگاہ ہونے کا اور یہ میں ہی آتی ہے چھری کے نیچے ایک ہمارے بزرگ تھے مولانا عمر پالنپوری صاحب اللہ انکو جنت میں اعلی مقام دے فرماتے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسی کرنی وہسی بھرنی نہ مانے تو کے دیکھ جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے نا مانے تو مر کے دیکھ ۔۔۔۔ جلد یا بدیر سب کچھ سمجھ آہی جائے گا ان شاءاللہ

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

یہ جو آخری تبصرہ ہے۔ جس میں مسجد سے جوتے چرانے کا ذکر ہے۔ اسکا آپ کی تحریر سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور اسے آپ کے بلاگ پہ میں نے نہیں تحریر کیا۔ یہ تبصرہ تانیہ رحمان سسٹر کے بلاگ پہ اشعار ازراہ تفنن لکھے تھے کیونکہ ان کے موضوع کی مناسبت سے تعلق رکھتے تھے جن میں یوکے میں عام مسلمانوں کے بارے لکھا گیا تھا کہ وہ جوتوں کو قطاروں میں نہیں رکھتے تو میں نے اسلئیے یہ اشعار بیجھے تھے کہ پاکستان میں مساجد میں جوتوں کی نسبت یو کے کے مسلمانوں میں کچھ شعور پیدا ہوچلا ہے کہ چلو نماز کے بعد جوتے تو ہوتے ہیں۔

مگر کسی نے غلیظ حرکت کرتے ہوئے میرے نام سے وہی اشعار یہاں پوسٹ کئیے ہیں۔ جو مناسب بات نہیں۔

ضیاء الحسن خان said...

جاوید بھائی شک تو مجھے بھی تھا مگر آپکے نام سے تھا کمنٹ تو اس لئے چھاپ دیا خیر اب ڈیلیٹ کر دیتا ہوں