Sunday, June 12, 2011

استانی، مائی ورک اور پیٹھ پہ تھپکی۔

ہمارا ایک دوست اپنی والدہ کے انتقال کے بعد یتیم ہوگیا اور اسکی والدہ مرتے، مرتے ایک عدد ہر جگہ سینگ پھنسانے والی چیز اسکے حوالے کر گئیں ایسے میں ایک محلے کی آنٹی نے اس سینگ پھنسانے والی چیز کو اپنی زیر تربیت(جامہ نہیں )رکھ رکھا لیا۔ ساتھ ساتھ اسے وہ پڑھا بھی رہی ہیں کہ اسکی والدہ نے اس شعبہ پہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اس سینگ پھنسانے والی چیز نے استانی محترمہ سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس ایسی یہ کیا تکنیک ہے جس سے آپ سامنے والے کو دیوار سے لگا دیتی ہیں۔ بلخصوص احکام اسلام میں تو کوئی آپ کے نقطہ نظر کو کاٹ ہی نہیں سکتا۔ سبکو چپی لگ جاتی ہے(اگر چہ اسکی یہ چپی آپکو پاگل اور نفسیاتی مریض سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہے) استانی نے پہلے تو کنواریوں کی طرح نخرے دکھائے (کیونکہ اصل زندگی میں انکو نخروں کا موقعہ نی ملا۔ جسکے سامنے نخرہ کیا وہ پلٹ کر واپس نی آیا )اور کہا:کیا ہم نے یوں ہی پھرا یا ہے اپنا دماغ؟! عرصہ ہائے دراز لگا تب جاکے پھرا ۔ سینگ پھنسانے والی چیز خوشامد کرتے کرتے جب تھک گیا تو اس نے ترپ کا یکا بن کے آخری چال چلی اور استاد کے تجویز کردہ نسخہ(نسخہ نی بے دوا ) کی پیش کش کی جس کو سنتے ہی وہ "ٹھنڈی" ہوگئیں (استاد کیسی دوا بتائی ہے وہ تو ٹھنڈا کر دیتی ہے) اور فرمانے لگیں:سامنے والے نے جو بات یا آیت پیش کی ہے اسکو لیکر بیٹھ جاؤ۔ اور عقلی طور پہ جو بعید سے بعید اعتراض یا اعتراضات اس پہ ہو سکتے ہوں وہ سب کر ڈالو ۔ سامنے والے کی خود ہی چپی لگ جائے گی۔ "اصول کافی حد تک میں سمجھ گیا ہوں بس ایک آدھ مثال اگر آپ دے دیتیں تو میں تو میں بصیرت کے درجہ پہ فائز ہوجاتا"۔ "مثال چاہیئے؟ لو مثال بھی لو ۔ یہ دیکھو میں نے ایک ڈاکٹر کو کیسے دیوار سے لگایا ہے جس نے ایک آیت پیش پیش کی تھی


۔"آپ نے میری اس بات کا جواب نہیں دیا کہ ایک واقعہ ہوتا ہے جس میں ایک جاہل مرد موجود ہے جو کسی گائوں سے شہر میں نووارد ہے اور ایک عورت ہے جو اسی شہر میں رہتی ہے پڑھی لکھی ہے ، تمام فہم و فراست رکھتی ہے، جدید علوم سے واقف ہے. وہ ایک بہتر گواہ ہوگی یا وہ جاہل مرد جو اس شہر کی گلیوں سے نا آشنا"۔

جاؤ گھر جا کے اس ضابطہ پہ خوب مشق کرو۔

اب وہ سینگ پھنسانے والی چیز ٹھری نری جاہل ۔۔۔۔۔ الف سے لام لا لٹو نہیں پتہ اسکو وہ سیدھے پمارے دوست کے پاس آیا اور آنٹی کی دی ہوئی مشق کو انجام تک پہچانے کی دوخواست کی پہلے تو ہمارے دوست نے منع کیا کہ ، نہ کر اوے کہ اگر میں نے اسکا جواب لکھ دیا تو آنٹی نے تجھے دیوار کے ساتھ لگا کے وہ کرنا ہے کہ وہاں وہاں تیرے زخم آئیں گے کہ کسی کو دکھا کہ ہمدردی بھی نہیں لے سکے گا۔۔۔۔۔ لیکن نہیں بھئی سینگ پھنسانے والی چیز کوئی آخری ڈھیت مانا ہی نہیں تو پھر ہمارے دوست کہا چل جیسی تیری مرضی ۔۔۔۔۔

ہمارا دوست نیٹ پہ بیٹھا اور مشقی میٹر کیلئے گوگل بگھوان کو عرضی دی۔ انہوں نے جواب میں مندرجہ ذیل "مواد"باہر پھینکا


۔"دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے
بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا"۔

اور ساتھ ہی یہ جواب لکھ کر سینگ پھنسانے والی چیز کے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔۔

فرض کیجئے کہ ایک پڑھے لکھے جوڑے کی شادی اس شق کے ساتھ ہوتی ہے۔ دونوں بڑی محبت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں ۔لوگ بھی اس جوڑے پہ رشک کرتے ہیں۔ شادی کے بعد شوہر بیوی کو ملازمت کا نہ صرف اختیار دیتا ہے بلکہ اپنے سے بھی اچھی ملازمت اس کیلئے تلاش لیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد شوہر مزید کوشش کر کے بیوی کیلئے بیرون ملک بھی ایک ملازمت تلاش لیتا ہے۔ بیوی بیرون ملک چلی جاتی ہے۔ اپنی عمدہ کار گذاری کی وجہ سے اسے اس سے بھی اچھی ملازمت دوسری جگہ مل جاتی ہے۔شوہر سے بھی رابطہ میں رہتی ہے۔ ادھر میاں بھی اپنے لئے باہر کی ملازمت تلاش کرتا ہے، دوران تلاش وہ ٹارگیٹ کلنگ کی زد میں آتا ہے اور اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھتا ہے۔ رہی سہی نوکری بھی چلی جاتی ہے۔ بیوی ضروری کاموں کی وجہ سے وطن نہیں آپاتی البتہ شوہر کا سرمایہ ختم ہوجانے کے بعد علاج کا تھوڑا خرچہ اٹھاتی ہے۔ سوئے اتفاق یہ کہ ایک بار میاں اپنا منھ دھوتا ہے اور بجائے پانی کی بوتل اٹھانے کے تیزاب کی بوتل اٹھا تا ہے۔ گرمی زیادہ ہونی کی وجہ سے چھینٹے نہیں مارتا بلکہ بوتل چہرے پہ انڈیلتا ہے ۔علاج بسیار کے بعد جان تو بچ جاتی ہے مگر چہرہ مکروہ ہوجاتا ہے۔ بیوی ضروری کام نپٹا کر وطن آتی ہے ۔ شوہر کی یہ حالت دیکھ کر اسکی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ کچھ دن تو برداشت کرتی ہے پر ایک دن شوہر سے کہہ دیتی ہے کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ کیوں؟ ان احوال میں تم مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے۔ لیکن یہ تو میرے ساتھ حادثہ ایسا ہوگیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ میں نہیں جانتی۔میں نے تمہارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا تھا۔ تمہارے لئے یہاں بھی ملازمت تلاش کی تھی اور باہر بھی۔ اسکا کچھ تو خیال کرو۔ دیکھو میں نے تمہارے چہرے کے علاج میں اتنا پیسا خرچ کیا ہے کہ اتنا تم نے ابھی تک کمایا بھی نہیں ہوگا۔ تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک کیا ہے اس پہ میں شکریہ ادا کرتی ہوں لیکن میں اس وقت تمہاری تلاش کی ہوئی ملازمت پہ نہیں ہوں میں تو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے اپنا ایک الگ جہان بنا چکی ہوں۔ لیکن میرا کچھ تو سوچو، میرا آگے کیا ہوگا میرے تو رشتہ دار بھی نہیں ہیں۔ یہ سر دردی تمہاری ہے۔ تو اب تم کیا چاہتی ہو؟میں شق اٹھارہ میں دیا ہوا حق استعمال کرنا چاہتی ہوں

سوال یہ ہے کہ جب تک میٹھا میٹھا رہا بیوی ہپ ہپ کرتی رہی جونہی کڑوا شروع ہوا بیوی نے تھو تھو کرنا شروع کر دیا



جب وہ سینگ پھنسانے والی چیز اپنا کام استانی کو دکھانے کیلئے لے گئے تاکہ پیٹھ پہ "یو آر اے سمارٹ بوئے کے تعریفی جملہ کے ساتھ شاباشی کی تھپکی لیں۔ انہوں نے کام ملاحظہ کیا۔ بعد ملاحظہ کے حکم دیا کہ ہاٹھ اٹھاؤ۔ اٹھا لئے۔ "دیوار سے لگ جاؤ"۔ لگ گئے۔ انہوں نے "دیوار سے لگانے" کے بعد تھپکی لی اور پیٹھ پہ جو بجائی ہے ( اور صرف تھپکی ہی نہیں بیلن چکلا جھاڑو گلاس۔ و علی ہذا القیاس) تو سینگ پھنسانے والے بیٹھنے اور سونے کے لائق نہیں رہے دو دن سے گھوڑے کی طرح کھڑے کھڑے سورہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ پیٹھ پہ وہ والی تھپکی کے بجائے یہ والی تھپکی کیوں پڑی؟

10 comments:

عمران اقبال said...

یعنی محلے کی آنٹی کسی حال میں خوش نہیں۔۔۔ پتا نہیں کیا سوچ کر پیدا ہوئی ہے۔۔۔

عبدالقدوس said...

یار یہ کیا مرغوں کی لڑائیاں شروع کردی ہیں تم سب نے مل کر
:D

bdtmz said...

اوئے چھوڑ یار لعنت بھیج۔ اس عورت پر جس قدر افسوس مجھے اس کی حالیہ پوسٹ اور مکھی مچھر کے بلاگ پر اس کے کمنٹ پڑھ کر ہوا اتنا کبھی کسی پر نہیں ہوا۔ میں اس کو اس سے بہتر سوچ اور بہتر انسان سمجھتا تھی خیر یہ تب سمجھے گی جب اس کی بیٹی بڑی ہو کر یہ سب پڑھ کر کہے گی

mama you were such an idiot

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

اردو بلاگستان نے ایک عدد بارہ سنگھا پالا ہوا ہے۔یا پھر بڈھا ٹھرکی۔
جب لکھنے کو کچھ نہیں ملتا تو ان کی خصوصیات لکھ کر ذرا ہلاگلا کر لیتے ہیں۔
مسئلہ آجاتا ہے۔چاچی ھندہ کا اگر اپنی قابلیت کو مثبت طور پہ استعمالے تو میرے خیال میں بلاگستان کی سب سے قابل عزت ہستی ہو سکتی ہے۔اور اردو بلاگستان میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔اردو بلاگستان کئی تعمیری کام کر سکتا ہے۔
ایک بارہ سنگھے جیسے بے وقوف کی حمایت کیلئے اسس حد تک اپنے آپ کو گرا دینا۔۔۔۔۔۔صد افسوس ہی کہا جا سکتا ہے۔
بارہ سنگھے کی ہر طرف سے دھنائی ہوتی ہے۔اس کا تبصرہ بلاگ والا شائع نہیں کرتا تو یہ پاگل ہر بلاگ پراپنا تبصرہ کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیتا ہے۔پھر بھی کوئی شائع نہ کرے تو ماڈریشن لگائی ہوئی چاچی ھندہ کے پاس پہونچ جاتا ہے اور چاچی خو شی خوشی شائع کرکے اردو بلاگستان کا گند جمع کرنا شروع کر دیتی ہے۔
اور اردو بلاگستان تعمیری کام کیا کرے اس گند سے گندا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ساری دنیا کو ان کی تحاریر میں تعصب نظر آتا اور ان کا کہنا ہے کہ ہم تو معصوم اور تعصب سے پاک ہیں۔

Anonymous said...

ثابت يه هوا كه دینے میں عقل پرست جیسے حقیقی زندگی سے دور احتمالات نکال کر سوالات کھڑے کرتے ہیں ایسے ہی شق اٹھارہ یا انکی پسند کے کسی اور قانون کو سامنے رکھ کر مذہب پرست بھی دور کے اھتمالات نکال رہے ہیں۔ مذہب پرستوں کا فعل اگر قابل مذمت اور قابل مرمت ہے تو عقل پرستوں کا فعل بھی قابل مذمت گردانا جانا چاہئے
محمد سعید پالن پوری

Anonymous said...

۔۔۔۔۔۔ "دین میں"۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھا جائے

UncleTom said...

اسکے بعد بارہ سنگھا کے ساتھ کیا ہوا ، کیا کوی نیا سبق ملا ؟؟؟ یا استانی نے پڑھانے سے معذرت کر لی ؟

بلاگستان said...

ت مولوی صاحب بہت گهٹیا اور تنگ نظر تحریر هے

مجاہد حسین said...

یہ جتنے زہنی مریض ہیں یہ سب اپنے باپوں کے یا استادوں کے مظالم کا شکار لوگ ہیں،
ایسے مردوں کی بیویاں بھی ذہنی مریضائیں بن جاتی ہیں ،جو بچوں کے لیئے مرے پر سو درے ثابت ہوتے ہیں!

Anonymous said...

اہمیت آپا کا نیا فرمان سامنے آہا ہے۔

آجکا لطیفہ

آپ جس گروہ کی سرداری کرتے ہیں اسکا مسئلہ ہے۔ آپ سمیت ان سب لوگوں کو اس طبقے کے لوگوں کا کوئ تجربہ نہیں ہے جس سے میں تعلق رکھتی ہوں۔ اس لئے آپکو یہ سب بے بنیاد باتیں کرنی پڑتی ہیں۔