Tuesday, May 8, 2012

اس ایک تھپڑ کی مار

یہ بات ہے سن 1987......
اسکول کے گراونڈ میں اسمبلی ہو رہی ہے اور تمام مستقبل ہونہار معار باآوازبلند پاکستان کا ترانہ پڑھ رہے ہیں... وہاں سے فارغ ہو کر کلاسوں میں جا پہنچے اور پڑھنا اور اپنے استاد محترم سے علم کی روشنی سے قلوب کو منور کرنا شروع کیا.
ابھی کوئی دوسرا پریڈ ہی سٹارٹ ہوا تھا کی باہر کوریڈور میں کچھ ہلچل سے مچی اور ہمارے ھیڈماسٹر صاحب کی زوردار آوازیں آنا شروع ہوئی تو ہمارے استاد جی بھی پاہر کیجانب گئے دیکھنے کے لیے کہ ماجرا ہے....

ھیڈماسٹر صاحب دسویں جماعت کے کسی لڑکے کو ڈانٹ رہے تھے اور حسب روائت کان کے نیچے بجا بھی رہے تھے...
اوہ ہو یہ تو نعیم ہے یار اسکا تو روز کا ہے یہی وطیرہ ابھی مار کھا رہا ہے اور ہاف ٹیم میں پھر گول ہو جائے گا اسکول سے اور وڈیو گیم کی دکان پر چھٹی کے ٹائم تک گیم کھیلے گا یہ ساری باتیں ہم لوگ کر رہے تھے اور کلاس کی کھڑکی سے اچک اچک کر دیکھ بھی رہے تھے........

اچانک کلاس کے بچوں کی چیخ نکل گئی ایسے کہ کسی کو اچانک بچھو نطر آگیا ہو... پیچھے کھڑے لڑکے جن کی رسائی کھڑکی تک نہیں ہو رہی تھی تجسس بھری آواز میں پوچھا کہ کیا ہوا کیوں چیخے تم لوگ................
تو ایک لڑکے نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا ... تھپڑ .... منہ پر تھپڑ ماردیا ...... نعیم نے ھیڈ ماسٹر کے منہ پر تھپڑ ماردیا ..... سب کے سامنے سارے استادوں کے سامنے ... سارے بچوں کے سامنے.... سارے چپڑاسیوں کے سامنے... اوہ سارے بچے دم سادھ کے اپنی سیٹوں پر آکت بیٹھ گئے.... باہر سے آوازیں بھی اب آنا بند ہوگئی تھیں....

تھوڑی دیر بعد استاد جی کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ ابھی جو کچھ ہوا وہ تو اپنے لوگوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا...
پھر کہا....... ھیڈماسٹر صاحب نے نعیم کو اسکول سے نکال دیا ہے ..... اسکے بعد انہوں نے دوبارہ پڑھائی سٹارٹ کردی

سن 2002 ..... ہندرہ سال کے بعد میں آفس سئ واپس آرہا تھا کہ کسی نے آواز دی ..... ہیلو بھائی کہاں ہو کبھی ہم سے بھی مل لیا کرو .... میں نے گھوم کے دیکھا تو سامنے ملگجے کپڑوں میں ملبوس ایک انتہائی کمزور اور لاگر بندہ کھڑا ہے ... کہنے لگا ہاں یار اب کہاں پہچانوں گے عرصہ بھی تو بہت ہوگیا ..... میں وہی ہوں نعیم جو تمھارے ساتھ جامعہ ملیہ اسکول میں پڑھتا تھا ..... میں نے فورا کہا اسے کہا ارے ہاں تم وہی ہو نہ جس نے ھیڈ ماسٹر صاحب کو مارا تھا ......

اس ٹائم زوربازو تھا جوانی تھی ماردیا... مگر اس ایک تھپڑ کی مار میں آج تک جھیل رہا ہوں.....
میں نے پوچھا کیا ہوا اسکے بعد تم نے کون سے اسکول میں داخلہ لیا کہنے لگا ..... مجھے اسکول میں داخلہ تو مل گیا مگر اسکے بعد میں کسی بھی کتاب کا ایک حروف بھی یاد نہیں کر سکا بلکہ اسے پہلے جو مجھے آتا تھا میں وہ بھی بھول گیا میرا دل و دماغ ایسا ہوگیا جیسے کسی سلیٹ پر لکھ کر مٹا دیا جاتا ہے......

اس ایک تھپڑ کے بدلے زندگی نے اتنے تپھڑ مارے ہیں اور ایسے مارے ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا.....

یہ سارا قصہ اس لئے یاد آگیا کہ کل کے کسی اخبار میں پڑھا کہ کچھ لڑکوں نے نقل سے روکنے پر استاد کی پٹائی کردی..... استاد تو شائد معاف کر دے... مگر اسکا جو مکافات عمل ہے وہ ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتا..

یہ بات سمجھ سے بلاتر ہے کہ کوئی اسطرح کا سوچتا بھی کیسے ہے کہ استاد کو مار دیا جائے... بقینا یہ گھر والوں کی طرف سے تربیت میں کچھ کمی یا پھر بلاوجہ اور ناجائز سپورٹ کا نیتجہ ہوتا ہے .... جسکا انجام اور کسی کو نہیں اپکی اپنی اولاد کو تادم حیات بھگتنا پڑتا ہے...

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ابا نے ہمارے استاد کو کہا تھا کہ ..... آج سے یہ ہمارا بچہ آپکے حوالے کچھ بھی غلط کرے تو چمڑی آپکی اور اگر باقی کچھ بچا تو ہم لے جائیں گے.......
اللہ ہم سب کو اپنے استادوں کی قدر اور حقیقی عزت کرنے والا بنا دے کہ اللہ نے بھی استاد کا درجہ بہت بلند رکھا ہے کہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو کسی بھی انسان کو زندگی کو گذارنے کا طریقہ بتاتی ہے.......

اللہ ہم سب کو عمل کرنے والا بنا دے .... آمین

13 comments:

sameed tehami said...

bikul sahi farmaya aap ne... ghr walo ki tarbiaat ka bohot ziada dakhal hota hai is chez mai....

خورشید آزاد said...

اساتذہ کے ساتھ کسی بھی کسی کی بدتمیزی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دوسری طرف مار پٹائی کے ذریعے تعلیم دینا بھی اتنا ہی غلط ہے۔

Anonymous said...

میں معذرت کے ساتھ اختلاف کروں گا، تربیت میں والدین کا حصہ بہت کم ہوتا ہے، اصل تربیت ہمارا معاشرہ کرتا ہے
اس ایک لفظ معاشرے میں تمام افراد شامل ہیں جس میں والدین، رشتہ دار، پڑوسی، دکاندار، عزیز، دوست، ہم جماعت، استاد، اشیا و خدمات خریدنے والے، خدمات فروخت کرنے والے اورس سب سے بڑھ کر حکومتی ادارے اور ادارہ نشرواشاعت-
اگر ہمیں دن رات ان تمام لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے تو ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس میں والدین کا حصہ بہت کم ہے-

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت عمدہ اور سبق آموز واقعہ ہے۔ ہم جب اسکول میں تھے تو اپنے اساتذہ سے نالاں رہتے تھے کہ وہ سختی بہت کرتے ہیں لیکن آج ان کے حق میں دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔

مہ وش جاوید said...

بہت عمدہ شیئرنگ ہے۔ شکریہ

انکل ٹام said...

لیکن حضرت اگر آپ اسی کہانی کو دوسرے رُخ سے دیکھیں تو یہ بھی ہے کہ جب وہ شخص ایسے سکول کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا اور بھاگ جاتا تھا تو ضرور اُسکے ساتھ کوئی مسئلہ تھا ۔ کسی بھی قسم کا اور پاکستان میں استادوں کے پاس ہر مسئلے کا حل مار کُٹائی ہوتا ہے واہ واہ کیا اُستاد کا مقصد بچے کا مارنا ہے اُسکی ہر غلطی پر ؟؟؟ کیا بچے کو اُسکی غلطی پر مارا جائے تو اُسکو سمجھ آجاتی ہے کہ یہ میری غلطی ہے اور اسے ایسے نجات پانی ہے ؟؟؟

اُس بچے کی بھی بس ہو گئی کہ آج بہت ہو گیا بہت مار کھا لی ۔۔۔ اگر آپ کسی کے ساتھ ہر دفعہ ایک ہی قسم کا سلوک روا رکھیں گے خاص طور پر مار کُٹائی تو وہ ایک دن اُسکی برداشت سے باہر ہو جائے گا ۔۔۔

مجھے استاد کے احترام سے انکار نہیں لیکن معاشرے میں ہونے والی خامیوں پر بھی توجہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔

Behna Ji said...

السلام علیکم
یہ درست ہے کہ وقت کا ساتھ استادوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے- مگر بچوں کے ساتھ اس میں استاد کا بھی قصور ہے کہ اب پہلے جیسے اپنے سبجیکٹ پر اتھارٹی اور اپنے پیشے سے مخلص استاد بھِی نہیں ملتے-
نعیم جیسے لڑکوں کو پڑھانا واقعی مشکل کام ہے کہ انکا دل پڑھائ سے اچاٹ ہو جاتا ہے- اور وہ مار کھا کھا کر ڈھیٹ بھی ہو جاتے ہیں -
زبردستی کرنے کی بجائے انکو شروع ہی میں سکول سے اٹھا کر زندگی کا کوئ اور ٹکنیکل رخ دکھایا جا سکتا ہے-

Anonymous said...

بعض اساتذہ کی حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔ وہ استاد نہیں، استاد لوگ ہوتے ہیں۔ لاہور کے ایک مشہور پرایوٹ کالج میں طبیعات کے استاد صاحب بدنام ہیں طلبا کو اکیڈمی میں پڑھنے پر مجبور کرنے کیلیے۔ انہیں دو سال میں ایک دفعہ لازما "کُٹ" پڑتی ہے طلبا سے۔ باز پھر بھی نہی آتے۔

افتخار اجمل بھوپال said...

اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ مادر پدر آزاد یا جنگلی بن چکا ہے ۔ اقدار کی جگہ حرص لے چکی ہے ۔ قابلیت علمی کی بجائے مکاری سمجھی جانے لگی ہے ۔ سکول ہو دفتر ہو بازار ہو یا گھر ہو سب جگہ ایک ہی حال ہے صرف چند استثنٰی ہیں ۔ یوسف رضا گیلانی توہینِ عدالت مقدمہ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کی اضافی تحریر پڑھیئے ۔ اگر نہ ملے تو چند دن انتظار کیجئے ۔ میں اپنے بلاگ پر شائع کروں گا اِن شاء اللہ

DuFFeR - ڈفر said...

مولبی میں تو اس بات پہ حیران ہوں کہ تیرے بلاگ پہ فیمیلیں بھی آنا شروع ہو گئیں
اور میرا تو فرسٹ ہینڈ ایکسپیرئنس ھے ان رونوں کا۔ توبہ تلہ کرنے میں لگا وا آج تک پتہ نی قبول ھویا یا نہیں

Anonymous said...

Mere khayal main aaj kal har koi itna miu zoor hugya hai k usatd ki kiya kisi bhi rishtey ki izat nhi hai ab
us main chahey koi bhi baat hu

عادل بھیا said...

ضیاء بھیا عمدہ شیئرنگ ہے ماشاءاللہ۔ بلاشبہ ہم معاشرے میں اُستاد کے مقام کو بھلا چکے ہیں۔ آپکے نتیجے سے متفق ہوں لیکن بھیا اگر غور کریں تو اب اُستاد بھی ویسے نہیں رہے۔۔۔ مُجھے افسوس ہے کہ موجودہ دور کے اُستاد برائے نام رہ گئے اور درحقیقت کاروباری ہیں جنکا مقصد پیسے کا حصول ہے نہ کہ علم اور تربیت کا فروغ۔۔۔

میں عموماً اپنے ایک اُستاد کی بات کا ذکر کرتا ہوں وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہماری اُساتذہ اور مولوی ہیں۔۔۔ اگر یہ دو طبقے اچھے ہوں تو معاشرہ کبھی مفلوج نہیں ہوسکتا

عادل بھیا said...
This comment has been removed by the author.