Saturday, November 17, 2012

واقعی ہم اب وہ نہیں رہے

ہاں واقعی ہم اب وہ نہیں رہے جو بحثیت مسلمان ہم کو ہونا چاہیےتھا اور رہیں بھی کیسے .. کیونکہ کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں اس ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہوتا ہے.. اسی لئے اگر تمام انبیاء علیہ صلوۃ سلام کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو کم و بیش تمام انبیاء نے بکریاں چرائیں ہیں اور بکریاں چروانے کا مقصد یہی تھا کہ انکے اندر مسکنت پیدا ہو ... یہ بھی سنا ہے کہ شیر کی صرف کھال کے اپر بیٹھنے سے انسان کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے. یہ بات صرف اس لئے لکھی ہے کہ ہم کو اندازہ ہو سکے کہ انسان کی زندگی میں ماحول کے کیا اثرات ہوتے ہیں...

ویسے تو یہ بات بحیثیت مسلمان ہر شخص جانتا ہے کہ آج جو مسلمانوں کا پوری دنیا میں حال ہے اسکا کوئی اور نہیں خود ہم مسلمان ہی ذمہ دار ہیں. مسلمان اس پری طرح سے پریشان اور مجبور ہے کہ اسکا کوئی پرسان حال نہیں.. کبھی افغانستان میں, کبھی فلسطین میں, کبھی کشمیر میں تو کبھی خود اپنے ہی گھر میں, اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اللہ پاک نعوزبااللہ یہ سب نہیں دیکھ رہا اور اگر دیکھ رہا ہے تو پھر اپنے ماننے والو کی مدد کیوں نہیں کر رہا..

اصل میں اللہ پاک نے اپنی مدد کو ایمان کے ایک مخصوص لیول کیساتھ مشروط کیا ہوا ہے .... اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں اللہ تو بس ہماری مدد فرما دے باقی ہم کرینگے تو وہی جو ہمارا دل چاہے گا . تو اس طرح اللہ پاک کی مدد تو نہیں البتہ وہی ہوگا جو اس وقت ہو رہا.

اور اس بات میں کوئی شک اور کوئی ابہام نہیں میرا یقین ہے کہ جس دن ہمارا ایمان و عمل اس معیار کو چھو لینگے جو اللہ پاک کو مطلوب ہے ... تو اللہ کی پاک کی مدد آج بھی بلکل اسی طرح سے ہمارے ساتھ ہوگی جس طرح سے اللہ پاک نے ابراہیم علیہ سلام کی آگ میں مدد کی تھی, موسی علیہ سلام کی نیل میں سے گذرنے میں مدد کی تھی اور جس طرح عبدالمطلب کی مدد کی تھی ابابیل بھیج کر اور یہ سب تو اللہ کہ مخلوق ہیں واللہ اس بات میں بھی کوئی تردد نہیں کہ اللہ پاک ہماری آج بھی اسی طرح مدد کرینگے جس طرح سے کفار مکہ کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت فرمائی تھی.

مگر اسکے لئے شرط وہی ہے کے پہلے ہم کو اللہ کی ماننی پڑے گی بلکل اسی طرح جس طرح ماننے کا حق.

تو یہ بات تو بہت ہی واضح ہے کہ آج ہم بذات خود مسلمان ان حالات کے ذمہ دار ہیں اس کے لئے کسی اور کو قصور وار ٹھرانا سراسر زیادتی ہے ہم اور ہمارے اعمال خود اللہ کے مدد راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو اغیار سے کس بات کی شکایت.

بات آسان ہے بس اللہ پاک ہم سبکو یہ بات سمجھا دے ... کہ ہم اللہ کو بلکل اسی طرح ماننے جس طرح اللہ کو ماننے کا حق ہے ... اس یقین کیساتھ کہ اللہ جب ساتھ ہوگا تو چاہے سامنے کوئی بھی ہمارا کچھ بھی نہیں کر سکے گا. اور اللہ پاک نے خود بھی فرمایا ہے جسکا مفہوم ہے کہ .. غالب تم ہی رہو گے اگر تم پورے ایمان والے ہو

اللہ پاک ہم سبکو یہ بات سمجھ کر اس پر عمل کرنے والا بنا دے

آمین

3 comments:

افتخار راجہ said...

بات تو کڑوی ہے مگر بات سچی اور کھری ہے،

م بلال م said...

بہت خوب جی۔ زبردست، آپ نے ایک اہم بات پر بڑی خوبصورتی سے بات کی ہے۔ میں آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو۔

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

Anonymous said...

اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
آپ نے نہائت عمدہ طریقے سے ایک آسان سی بات بیان کردی ہے ۔ جو آج کے مسلمان کو سمجھنے میں دقت ہے۔