Thursday, January 20, 2011

جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے اپنا روپ اور نام تک بدل لیتا ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی جنگل میں ایک بارہ سنگھا رہتا تھا۔ وہ جنگل میں آزادانہ گھومتا پھرتا تھا۔ جنگل کے بعض قطعے ایسے تھے جہاں اسے گھاس وافر مقدار میں میسر تھی۔ وہ ان قطعوں سے خوب گھاس چرتا اور پورے جنگل میں بول و براز کرتا پھرتا۔

اس کی یہ بے باکی بعض جانوروں کو پسند نہ آئی۔ انھوں نے حسد کے مارے بارہ سنگھے کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں جانوروں نے باہمی مشاورت سےشہر کےمنجھے ہوئے شکاریوں سے رابطہ کیا۔ جب شکاری بارہ سنگھے کا شکار کرنے جنگل پہنچے تو انہیں جانوروں نے بارہ سنگھے کی تمام خصلتوں سے آگاہ کیا اور ان پر واضح کیا کہ کیوں اس سے چھٹکارہ پانا ناگزیر ہو چکا ہے۔

شکاریوں نے بارہ سنگھے کو پھانسنے کیلیے جنگل میں جگہ جگہ پھندے لگا دیے۔ بارہ سنگھا چونکہ یہ سب مشاہدہ کر رہا تھا لہٰذا محتاط ہو گیا اور کسی پھندے میں نہیں آیا۔ تنگ آکر شکاریوں نے دو سو سالہ پرانا طریقہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن کسی خرگوش کی مخبری پر شکاریوں نے بارہ سنگھےکو آن لیا اور اس کے پیچھے شکاری کتے چھوڑ دیے۔ بارہ سنگھا اپنی پوری رفتار سے بھاگا۔ چونکہ اس کی رفتار کتوں سے تیز تھی لہٰذا کتے اور شکاری کافی پیچھے رہ گئے۔ بھاگتے بھاگتے اچانک سامنے جھاڑیاں آ گئیں۔ شکاری یہ دیکھ کر خوش ہو گئے کہ بارہ سنگھے کے سینگ اب جھاڑیوں میں پھنس جائیں گے اور ہم اس کا شکار کر لیں گے مگر بارہ سنگھے کو اپنے پردادا کا انجام معلوم تھا جو ان جھاڑیوں میں اپنے سینگ پھنسا کر کتوں کا شکار بن گیا تھا۔ بارہ سنگھے نے ہائی جمپ کیا اور جھاڑیوں کے اوپر سے گزر گیا اور جنگل میں روپوش ہو گیا۔ شکاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

دن گزرتے گئے۔ شکاریوں اور بارہ سنگھے کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ ایک دن لومڑی نے بارہ سنگھے کو بھیس بدلنے کا مشورہ دیا تاکہ شکاریوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔

وہ دن اور آج کا دن، شکاری اب تک بارہ سنگھے کا شکار کرنے کیلیے سرگرداں ہیں مگر بارہ سنگھا اب بہت چالاک ہو چکا ہے۔ جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے اپنا روپ اور نام تک بدل لیتا ہے۔

24 comments:

DuFFeR - ڈفر said...

نا اہل شکاری
اور کتے کونسے؟
:D

جعفر said...

لومڑی؟
بارہ سنگھا
شکاری
جھاڑیاں؟
میری یادداشت واپس آگئی۔۔ یور آنر
ڈھن ڈھنناننن۔۔۔

Anonymous said...

پس ثابت ہوا کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی

Anonymous said...

جنگ ابھی جاری ہے

فيصل چوہدری said...

ھا ھا ھا ھاھا ایک بارہ سنگھا اور جی چا لیس شکاری کُتے ۔:

فيصل چوہدری said...

ایک بارہ سنگھا ؂ چا لیس شکاری کُتے ۔:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

@ جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے اپنا روپ اور نام تک بدل لیتا ہے۔

پھر تو یہ بارہ سنگھا تو نہائت منافق ہے۔

مکتبہ حجاز said...

وجود بارہ ہے سے ہے تصویر بلاگستان میں رنگ

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

بارہ سنگھے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔

abdulqadoos said...

پچر ابھی باقی ہے میرے دوست

محمد وقاراعظم said...
This comment has been removed by a blog administrator.
وقاراعظم said...

او یارو کوئی بارا سنگھا میرے نام سے اپنے والد گرامی کا بیان ادھر چھاپ گیا ہے۔

افتخار اجمل بھوپال said...

آپ لوگ بار سينگھے کو اُس کے حال پر کيوں نيں چھوڑ ديتے ؟
بار بار اُس کا ذکر کر کے اُس کی اہميت کيوں بڑھا رہے ہيں ؟

جماعتی said...

جماعتی کسی تعارف کا محتاج نہیں ھوتا، اسکا سیاہ دل، غلیظ زبان اور دوغلی چالیں ھی اسکی اصلیت کا پردا چاک کردیتی ھیں۔

ضیاء الحسن خان said...

تمام لوگوں کا بلاگ پر آکے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا بہت بہت شکریہ .................

@ڈفر..... وہ جو ابھی تک نہیں پہنچ سکے

@استاد......... آہو

@سعد ...... فتح بارہ سنگھا تک یہ جنگ جاری رہے گی

@فیصل ....... جی چالیس کتے ....... اور باقی موتی چن رہے

@گوندل صاحب ................ یہی تو اصل خوبی ہے جی اسکی جو کوٹ کوٹ کے بھری ہے

@قاسم ......................... اور بلاگ ٹریفک بڑھانے کا ہے اک بہانہ بھی

@یاسر ..... اصل میں تو اسکے اباؤں کو تلاش کرنا ہے

@وقار بھائی ........................... آپ بھی لسٹ میں آگئے

@اجمل صاحب .... انشاءاللہ کوشش ضرور کریں گے

جماعتی said...

کسی جنگل میں ایک شیر حکومت کرتا تھا، بہادر شیر نا صرف اپنی عوام کی حفاظت کرتا تھا بلکہ انکے بیچ انصاف بھی قائم رکھتا تھا، انکے تمام حقوق کا خیال رکھتا تھا، رعایا نہ صرف اپنے بادشاہ سے خوش تھی بلکہ آس پاس کی جنگلوں میں بھی اس بہادر شیر کی بڑی عزّت تھی۔ اسکی یہ شھرت اور عزّت پڑوس کے جنگلوں کے لومڑیوں، بھیڑیوں اور گیدڑوں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ پڑوس کے جنگلوں میں میلوں تک کوئی شیر نا تھا، اور ظالم اور چالباز لومڑیوں، پھیڑیوں اور گیدڑوں نے آپس میں اتّحاد کر کے جنگل کے تمام جانوروں کو اپنا غلام بنایا ھوا تھا، اور یہ چاھتے تھے کہ اس جنگل میں بھی شیر کی جگہ ان کی حکومت ھو! اپنی حکومت کرنے اور عوام کو غلام بنانے کی ناپاک خواھشات کے تحت دن رات سازیشیں تیّار کرتے رھتے تھے۔ ایک دن ان چالباز لومڑیوں، بھیڑیوں اور گیدڑوں نے شیر کے جنگل سے کچھ بندروں کو اپنا ھمنوا بنالیا۔ بندروں نے اس جنگل کے چوھوں اور سانپوں کے ساتھ مل کر شیر کے خلاف سازش تیار کی اور مل کر شیر کے پاس گئے کہ اب حکمرانی کا حق کسی دوسرے جانور کو ملنا چاھیئے۔ شیر اپنی انصاف پسند طبیعت کی وجہ سے مان گیا کہ جب رعایا ھی کوئی دوسرا حکمران چاھتی ھے تو ٹھیک ھے۔ چناچہ اس نے فیصلہ تمام جانوروں پر چھوڑدیا اور سازشی جانوروں نے "بندر" کو اپنا بادشاہ بنالیا!

چوںکہ رعایا کی حفاظت اور دیکھ بھال بادشاہ کی زمّہ داری ھوتی ھے، چناجہ بندر کو حفاظت کی زمّہ داری سونپی گئی۔ بندر سارا دن درختوں پر لٹکتا رھتا تھا اور جنگل کے جو بھی پھل یا وسائل تھے اپنی فطرت کے مطابق برباد کرتا رھتا تھا۔

جماعتی said...

جماعت اسلامی نامی گروہ کی غیرت کا یہ عالم ھے کے سوشل نیٹورکنگ ویب سائیٹس پر "خواتین" کے نام سے ڈمی اور فیک آئی ڈیز بنائی ھوئی ھیں، اور دن رات پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ھیں! واہ جماعتی واہ کیا یہی ھے تیرا اسلام?:-)

ضیاء الحسن خان said...

جماعتی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی چھوڑیں وہ کیا کر رہے ۔۔۔ اپنی سنایئں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ کیا، کیا 25 سالوں مٰیں؟؟؟

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

پچیس سالوں میں غریب مزدور کو راہ چلتے اڑایا۔بوری بند لاشیں دیں۔اور کیا چاھئے آُ پ لوگوں کو؟
ہر ماہ بھائی کو ایم کیو ایم فنڈ لندن بھیجتے ہیں۔آخر مہنگے ملک میں رہنا آسان ہے کیا؟
یہ بھی تو ہم لوگ ہی کر رہے ہیں۔
کچھ نہ کچھ ہمارے شکر گذار بنو۔
ناشکرے لوگ جاہل اجڈ گنوار گدھے۔

وقاراعظم said...

ان میں مرزا جی کے گرگے بھی تو ہیں جن کا دورانیہ 60 سال سے اوپر بنتا ہے۔۔۔

خالد حمید said...

ھا ھا ھا ھا ھا ھا یک نا شُد دو شُد ۔۔۔۔۔۔۔ تین شُد
لگتا کسی نے دُوم پہ پیر رکھا ھے ۔

Anonymous said...

بہت اعلیٰ جناب ،
میں تو یہ سمجھا تھا کہ بارہ سنگھا کی صرف چارعدد ٹانگیں اور بارہ عدد سینگ ہوتے ہیں اب پتا چلا کہ اسکے پاس ایک عدد دماغ بھی ہوتا ہے. آپکا یہ مضمون بارہ سنگھا کے شکار کے شوقین شکاریوں کے لئے ایک رہنما مضمون ہے.

افتخار راجہ said...

بارہ سنگے کا نام بھی لکھ دیتے تو اچھا ہوتا، ویسے ہمارے ملک مین بارہ سنگا آپ موٹے بھائی کالے بھائی کے کہہ سکتے ہو، بھلے شکاریوں کے سو جتن کئے مگر قابو نہیں آیا، پھر جنگل میں ایک سے زیادہ بارہ سنگے بھی پائے گئے ہیں جیسے مولبی قادری، عمران خان، نواز شریف اور رحمان ملک، مولبی پھجا، البتہ ذرداری کتوں کی مد میں لکھا جائے گا

Hakam Shah said...

اگر بارہ سنگھا امریکہ یا برطانیہ کی ڈبل نیشنلٹی حاصل کرلے تو اور بھی زیادہ محفوظ رہ سکتا ہے ۔