جب چنگیز خان کی پیدائش ہوئی ہوگی تو اسکے والدین نے ایک جشن منایا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر انکے والدین اور اس جشن میں شریک کسی بھی فرد کو اس بات کا رتی برابر بھی اندازہ ہوتا کہ یہ چنگیز خان جب بڑا ہوگا تو کیا، کیا کارنامے انجام دیگا تو شائد وہ اسکو اسی دن مار دیتے ۔۔۔۔۔۔۔
ہم مسلمانوں میں بھی ایک شخص گذرا ہے حجاج بن یوسف کے نام سے اسکے کارنامے تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اسکا بھی اگر کسی کو پتہ ہوتا تو وہ بھی مار دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ جب کے اسکے خاندان میں تو بڑے بڑے عرب شرفاء شامل تھے اور دین اسلام کے لئے انکی خدمات اور قربانیاں بھی بڑی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب انسان بلکہ جب کسی مسلمان کے گھر کوئی پیدا ہوتا ہے تو ایک جشن ہوتا ہے اسلامی اور سنت کیمطابق کان میں اذان اور اقامت کہی جاتی ہے
پھر عقیقہ ہوتا ہے اور اپنی اسططاعت کیمطابق لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جس میں سب ہی خوشی خوشی شرکت کرتے ہیں ۔۔۔
کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے تو کوئی انجینئر تو کوئی مفکر ہوتا ہے تو کوئی اسکالر تو کوئی رئیس امرہوی جیسا انسان ہوتا ہے سب شریک ہوتے ہیں سب دعا دیتے ہیں ۔۔۔ کہ اللہ پاک عمر دراز کرے ۔۔۔ نیک اور صالح بنائے نصیب اچھا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین اپنے شب و روز اپنی اولاد کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ والدین کی اپنی اولاد کے لیے قربانیوں کا کوئی شمار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچہ بھی آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا ہے ابتدائی دونوں میں جب تک والدین کے زیر اثر ہوتا ہے تو بہت ہی شریف اور نیک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بچپن سے لڑکپن کی طرف آجاتا ہے کچھ کچھ اپنی من مانیاں کرنے لگتا ہے والدین سمجھاتے ہیں کہ بیٹا یہ آپکے لئے صحیح نہیں ہے اسے آپکا بھی نقصان ہوگا اور دوسرے بھی پریشان ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر
بچے کے سمجھ میں نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے اماں باوا میرے تو دشمن ہی ہو گئے اور اسی دوران بچہ لڑکپن کو پھلانگتا ہوا جوانی دیوانی میں داخل ہو جاتا ہے
بہت ہی زورآور طریقے سے اور بہت سے اسیے لوگوں کیساتھ مل جاتا ہے کہ جنسے ملنے پر اسکے وہ تمام لوگ جو اس عقیقے میں شامل تھے اسکو سجمھاتے ہیں کہ دیکھوا بیٹا یہ روش ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ صرف تمھاری زات کا مسئلہ نہیں ہے یہ پورئ قوم کا مسئلہ ہے ۔۔۔۔ کہ جو لوگ اپنی قابلیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے وہ اب ۔۔۔۔ کانا ۔۔۔ کمانڈو ۔۔۔ ٹنڈے ۔۔۔ ٹی ٹی ۔۔۔۔ اور لنگڑے کے ناموں سے جانے جا رہے ۔۔۔۔۔
جن لوگوں کے ھاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا انکے ہاتھ میں اسلحہ آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ میرٹ میں اول ہوتے تھے اب وہ لوگ لوٹ مار اور بھتہ خوری میں اول آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اور اصل بات تو یہ ہے بیٹا کہ کسی اور کو نہیں اپنے ہی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اپنے ہی شہر کو جلا رہے ہیں ۔۔۔۔
شرفاء کی ایک جماعت اس بچے جو کہ اب جوان اور بااثر ہوگیا ہے اسکو سمجھاتے ہیں کہ اس وقت لوگ اور خاص کر نوجوان طبقہ اپنے والدین سے زیادہ آپ کی مان رہے ہیں ۔۔۔۔۔
تو جو اس ٹائم کچھ شریف لوگ ریئس امرہوی جیسے انہوں نے مشورہ دیا اس بچے کو کہ ابھی بھی وقت ہے اگر اس وقت کی جنریشن کو تعمیری کاموں میں لگا دیا جائے تو بغیر کسی خون خرابے کہ انقلاب آجائے ۔۔۔ مگر
صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تو ہر نشہ ہی حرام اور خطرناک ہے مگر جو سب سے خطرناک ہے وہ ہے جہالت اور طاقت کا نشہ اور اس میں بھی سب سے خطرناک ہے پڑھے لکھے جاہل کا جہالت کے نشے میں چور ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا خمیازہ 2 نسلیں تو بھگت چکیں اور پتہ ہیں کتنوں نے اسکو بھگتانا ہے
اصل بات یہ ہے کہ کسی کی پیدایئش میں کسی ولی اللہ کی شرکت اس شخص کے مستقبل میں ایک اچھا انسان بنے کی دلیل نہیں جب تک کہ وہ انسان خود اسکی کوشش نہ کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کیساتھ جمے رہنے کی دعا نہ کرے
اللہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
5 comments:
ہممم
رئیس امروہی یاد آرہے ہیں۔ بیچارے بھلے آدمی تھے لیکن۔۔۔۔
ایک چور کبھی نہیں چاہے گا اس کا بیٹا بھی چور ہی بنے۔ مگر کیا کریں کہ چور کے گھر عموماً چور ہی پیدا ہوتا ہے ولی اللہ نہیں
چھنو آنٹی کی اتنی بزتی؟ یہ کچھ زیادہ نہیں کر دی تم نے؟
zardari k bap ko pata hota k yeh bara ho k "yeh" ga to wo .....
ولی کی شرکت بیشک نیک شگون ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہوسکتی - - مگر بلوغت کے بعد " ولی " کے الفاظ سننا تک گوارا نہ کرنا - یہ المیہ ہے اصل میں - طاقت تو چلو عام نہیں مگر جہالت تو عام ہو چکی - الزام انفرادی شخصیات پر بھی لگاۓ جا سکتے ہیں اور مجموئی طور پر مخصوص گروہ پر بھی -
Post a Comment