Monday, February 6, 2012
منانا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔۔!!!!
ہمارے ایک دوست ہیں طارق عزیز صاحب انہوں نے یہ واقعات سنائے اور کم و بیش پورے پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس کی ایک جھلک یہاں ملاحظہ فرمائیں!!!!!!
گیارہ ربیع الاول کی رات کو میں اپنی بائیک پر ریگل سنیما چوک سے بائیں (سٹیٹ بنک کی ) طرف مڑنے لگا تو آگے ساری ٹریفک بند ملی۔ ویگن گاڑیوں والے واپس موڑ کر متبادل راستوں سے نکلنے لگے، ان میں ایک ایمبولینس بھی شامل تھی، جو شاید میو ہسپتال جانے والے راستے کی تلاش میں تھی۔ معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی کا کوئی جلوس آرھا ہے جسکی وجہ سے راستے بند ہیں۔ خیر میں اطراف سے جگہ بناتے ہوئے کریم بخش اینڈ سنز کے سامنے سے نکل کر دائیں طرف والی سروس روڈ سے ہوتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ شاید ادھر سے کوئی راستہ مل جائے۔ میں آگے بڑھتا ہوا، سٹیٹ بنک کے سامنے تک جا پہنچا، جہاں ٹریفک وارڈن نے دو ایک موٹر سائیکلوں اور بائیسائیکل والوں کو ھاتھ کے اشارے سے روکا ہوا تھا کہ جب تک جلوس نہیں گذر جاتا انتظار کرو۔ تھوڑی دیر میں ہائیکورٹ کی جانب سے دو گھوڑ سوار برامد ہوئے، ان کے پیچھے چار گھوڑوں والی ایک بگھی میں پچھلی سیٹ پر ایک پیر صاحب چمکدار کلف لگا لٹھے کا سوٹ، واسکٹ اور بھاری سی پگڑی تن زیب کیے اک شان بے نیازی سے ہاتھ میں تسبیح گھماتے ہوئے براجمان تھے، برابر مین دو چھوٹے بچے جنھوں نے دولہا جیسی شیروانیاں اور کُلّے پہں رکھے تھے بھی بیٹھے ہوئے تھے، مجھے لگا کہ جیسے کسی فلم کا منظر ہو جس میں بادشاہ سلامت کی شاھی سواری مع شہزادہ گان گذر رہی ہے، ین کے پیچھے دو مُریدین باقاعدہ مورچھل ہلا رہے تھے۔ بگھی کے پیچھے مریدین کا مشعل بردار قافلہ جھومتا ہوا آرہا تھا۔ مزید 20-25 منٹ کی زحمت برداشت کر نے کے بعد رستہ کھولا گیا اور میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔ میں سارے راستہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیسا مذھبی رہنما اور جلوس ہے جسکی وجہ سے اللہ کی کتنی مخلوق کو شدید ذہنی و جسمانی کوفت اُٹھانا پڑ رہی ہے، اور جو ایمبولینس راستہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس مڑ گئی کیا پتہ اسکے مریض کو کتنی تکلیف کا سامنا اُٹھانا پڑا ہوگا، کتنے لوگ ہونگے جو کسی مجبوری کی وجہ سے جلدی کسی مقام پر جانا چاہ رہے ہونگے مگر بارہ ربیع الاول سے قبل ہی غیر متوقع طور پر انھیں رستہ بند ہونے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔
ساتھ والے محلے کے ایک دوست بتا رہے تھے،میرے آس پاس کےمحلوں کے فارغ لڑکے سارہ دن رسوں سے راستے روک کر آنے جانے والوں سے زبردستی چندہ وصول کر رہے تھے، رات گئے تک یہ مشغلہ جاری رہتا، میں گذرتے ہوئے کچھ ایک کو نماز کی دعوت دی کہ بھائی جو برے لڑکے ہیں وہ سب آو پہلے نماز پڑھ لو پھر آکر باقی کا کام کر لینا،تب تک یہ چھوٹے لڑکے پہرہ دیں گے۔ بولے لو جی یہ جو ہم دین کا کام کر ہے ہیں یہ کیا ثواب کا کام نہیں، ہم اگر یہ چھوڑ کر چلے گئے تو چھوٹے لڑکے پتہ نہیں کتنے پیسے اپنی جیب میں ڈال لیں گے۔میں نماز سے فارغ ہو کر گھر کی جانب آرہا تھا، میں نے پوچھا کہ کتنا جمع کر چکے، اور کتنا کرو گے? بولے تقریبا" آٹھ ہزار ہونے کو ہے بس کل آخری دن ہے ہم نے لازما" 12 ہزار کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ پوچھا 12 ہزار کیوں? بولے لو جناب ساری گلی آخر تک سجانی ہے، لائٹین جھنڈیاں وغیرہ کا حساب لگایا ہے، وہ تقریبا" 10 ہزرا کی آئیں گی، اور 2000 کا ہم سب لڑکے جنھوں نے اتنی محنت کی ہے وہ عید میلاد النبی والے دن پنڈارہ بنا کر کھائیں گے، 11-12 کی درمیانی رات سب لڑکے شام سے ہی سجاوٹ میں لگے ہوئے تھے اور رات بھر جاگ کر کام مکمل کیا، میں فجر کی نماز کے لیے نکلا تو دیکھا کے تقریبا" سارے ہی لڑکے شب بیداری کی مشقت سے تھک کر بنائے گئے سٹیج پر بے سُدھ سو رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے، تو کیا دُنیاوی رسوم کے لیے نماز چھوڑ کر نبی پاک کی آنکھوں کو تھنڈک پہنچا رہے ہیں? کل قیامت کو جب اللہ پاک نماز کا ھساب لے گا تو کیا یہ عذر پیش کریں گے کے چندہ جمع کرنے اور سجاوٹ لگانے، پھر جشن منانے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی ?
میں ساتھ والے محلے میں ایک دوست کی طرف گیا واپسی پر چھوٹی گلی کے اندر سے آنے کی بجائے مین روڈ کی طرف سے نکل آیا کہ چلو ذرا رونق ہی دیکھتا چلوں۔ ایک طرف گلی میں لوگوں کا ہجوم دیکھا تو آگے بڑھ کر دیکھا تو کچھ نوجوانوں نے (جنھون نے چہروں پر سبز پینٹ کیے ہوئے تھے، سٹیج پر بڑے سائز کے ڈیک لگا کر ڈسکو پرفارم کر رہے تھے، لوگ تالیاں بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے جس سے پرفارمرز کے جوش میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ میں پاس کھڑے ایسے ہی بہروُپ میں کھڑے ایک نوجوان سے کہا کہ آج کے اس مقدس دن میں آپ لوگ انڈین گانوں پر پرفارم کر کے کیا خدمت انجام دے رہے ہیں? مسجد میں جائیں نماز پڑھیں، دورد شریف کی تسبیحات پڑہیں۔ نوجوان نے غصہ سے کہا، بھائی صاحب نعت کو انڈین گانا کہہ کر مذاق تو نہ اڑائیں، ہم اتنے بھی گئے گذرے نہیں کہ عید میلادالنبی والے دن انڈین گانے بجائیں، میں ذرا غور سے سُنا تو واقعی الفاط تو کچھ مدحت نما ہی تھے مگر ان کی ادائیگی اورڈسکو طرز کی میوزک بیٹ کی وجہ سے وہ کوئی انڈین ڈسکو گانا ہی محسوس ہو رہا تھا۔ میں پیچھے کی جانب مڑا ہی تھا کے ساتھ کھڑا ایک باریش آدمی ماتھے پر تیوری ڈالتے ہوئے کہنے لگا کیا بات ہے?۔ میں نے کہا کچھ نہیں بس ذرا بچے کو سمجھا رہا تھا کہ آج کے دن ناچ گانے کی محفلون کی بجائے اللہ اللہ کیا جائے تو بہتر ہوگا ، وہ صاحب تنک کر بولے، جناب یہ بچے اپنے سٹائل میں حضور پاک کی آمد کا جشن منا رہے ہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہو رہی ہے، کہیں آپ ‘ وہابی" تو نہیں?۔ ۔ "کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا"
میں اور میری مسسز حسب معمول رات کا کھانا کھا کر باہر والک کے لیے نکلے، آج بارہ ربیع الاول عید میلادالنبی کی وجہ سے سبھی راتے روشن منور تھے، بڑا اچھا لگ رہا تھا کہ کافی عرصہ بعد بجلی مسلسل آرہی ہے اور چھوٹے چھوٹے قمقموں کی سجاوٹ سے گلیاں محلے جگمگا رہے تھے، ہم اپنے روٹین کے راستے سے ہوتے ہوئے اگلے موڑ کی طرف جا رہے تھے، جہاں ایسے موقعوں پر کوئی رش نہیں ہوتا، مگر آج خلاف توقع اگلے چوک سے پہلے ہی راستے میں رش نظر آیا، حالانکہ سجاوٹیں وغیرہ تو گلیوں میں تھیں اور بڑا روڈ کھلا ہوا ہی تھا مگر اس چوک سے پہلے گلی سے باہر آکر چند ایک باریش بزرگوں نے مائیک ہاتھوں مین لیے لوگوں کو جمع کر کے نعرے لگوانے شروع کیے ہوئے تھے روڈ کی دونوں طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش لگ گیا، میں نے بیگم کو ایک طرف کھڑا ہونے کو کہا اور ایک باریش نوجوان کو کہا کہ بھائی آپ ذرا آگے ہو کر مائیک والے صاحب سے کہیں کے یہ کام اگر آپ گلی کے اندر جہاں سجاوٹ کی ہوئی ہے وہان جا کر یہ نعرے لگوا لیں تو لوگوں کے گذرنے کا راستہ تو بلاک نہین ہوگا۔ نوجوان نے خفگی سے گھورتے ہوئے کہا ، جناب آج عید میلاد النبی کا دن ہے آپ لوگوں کو کس نے کہا تھا کہ آج باہر نکلو، ہم نے کوئی روز روز تو جشں منانا نہین ہوتا، اس پر بھی آپ لوگ ہمیں روک ٹوک شروع کر دیتے ہیں، اور دوبارہ مولانا صاحب کے نعرے :غلام ہیں غلام ہین"کے جواب میں "رسول کے غلام ہیں" کا جواب دینے لگا۔ میں اسکا جواب سن کر کچھ کہے بغیر بیگم کو ساتھ لیے واپس مڑ گیا، پیچھے سے آواز آ رھی تھی" غلامیئ رسول میں موت بھی قبول ہے، جو ہو نہ عشق مصطفیٰ تو زندگی فضول ہے۔، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں والے جن کے ساتھ خواتین بھی تھیں وہ بھی مایوس ہو کر واپس ٹرن کر رہے تھے جنیھں اب "عاشقان رسول" کی وجہ سے لمبا رستہ کاٹ اس چوک کی طرف جانا تھا، جس سے چند قدم پہلے غلامان رسول نعرے لگانے میں مصروف تھے۔ واقعی " جو ہو نہ عشق مصطفیٰ تو زندگی فضول ہے"۔ - حاجی صاحب نے اپنی گلی برقی قمقموں سے بھری ہوئی تھی جس مین 100 واٹ ک بلبوں کی کافی تعداد بھی جگ مگ کر رہی تھی، میں نے گذرتے ہوئے حاجی صاحب سے کہا واہ جناب بڑی رونق لگائی ہوئی ہے آپ نے، بولے: بس جناب عشق نبی پاک کا تقاضہ بھی نبھانا ضروری ہے نا، میں آن کی پشت کی جانب دیکھا جہاں سے لایئٹوں کی تاریں نکل رہی تھیں، چھوٹی تاریں تو ھاجی صاحب نے اپنے گھر سے اکسٹینشن لے کر لگائی ہوئی تھیں جبکہ بڑے 100 وات کے بلبوں کی تاریں بجلی کے میٹر سے پہلے "کنڈی" میں لگائی ہوئی تھیں۔ میں تعجب سے پوچھا حاجی صاحب یہ کیا، یہ تاریں تو سرکاری تار میں پھنسا کر ڈائیرکٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ بولے : لو جناب ہم نے کوئی ذاتی تقریب کے لیے تھوڑی یہ بجلی کے بلب روشن کیے ہوئے ہیں، عید میلادالنبی کی سجاوٹ کے لیے تو پھر "کنڈی" ہی لگانی پڑتی ہے نہ ۔ میں نے دل میں سوچا کہ واہ، نبی پاک کی ذات کو خراج تحسین اور وہ بھی چوری کی بجلی سے????? اور گھر کی جانب چل دیا۔
Tuesday, January 10, 2012
تلافی نہیں!!!
اس کو آج کل کا ایک نہایت ہی سنگین المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے انتقال پر خوش ہونا۔
اور کسی بھی ایک فرد کے کردہ گناہ کو بنیاد بنا کر اسے متعلق اور منسلک ہر فرد کو اسکا شریک کرنا بھی نہات ہی افسوسناک عمل ہے۔
اور یہ دونوں ہی باتیں انتہائی خطرناک ہیں جن کا ادراک ابھی تو ہمکو نہیں ہوتا مگر اس دن جس دن ماں اپنے جگر کے گوشوں کو بھی بھول جائے گی تو اس دن ہمارا یہ عمل بھی ہمارے لئے انتہائی مشکل کا باعث بنے گا۔
اس لئے کسی ایک فرد کے گناہ کو بنیاد بنا کر ساری قوم کو مورد الزام نہیں ٹھرانا چاہیے
میں نے عبد الوہاب صاجب سے خود سنا ہے کہ اگر کسی فرد نے یہ کہا کہ تمام پنجابی برے ہیں یا فلاں قوم پوری کی پوری ایسی ہے تو روز محشر اس قوم کے ایک، ایک فرد سے اپنے اس کہے کی جس میں وہ پوری قوم مبتلا نہیں تھی اسکی معافی نہیں مانگے گا تب تک خلاصی نہیں ہوگی۔
تو اللہ ہم سبکو کو اپنی حفظ امان میں رکھے اور ہر اس عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمارے لئے اس دنیا میں اور اسکے بعد آنے والی دنیا میں پریشانی کا سبب نا بنے
آمین
اور کسی بھی ایک فرد کے کردہ گناہ کو بنیاد بنا کر اسے متعلق اور منسلک ہر فرد کو اسکا شریک کرنا بھی نہات ہی افسوسناک عمل ہے۔
اور یہ دونوں ہی باتیں انتہائی خطرناک ہیں جن کا ادراک ابھی تو ہمکو نہیں ہوتا مگر اس دن جس دن ماں اپنے جگر کے گوشوں کو بھی بھول جائے گی تو اس دن ہمارا یہ عمل بھی ہمارے لئے انتہائی مشکل کا باعث بنے گا۔
اس لئے کسی ایک فرد کے گناہ کو بنیاد بنا کر ساری قوم کو مورد الزام نہیں ٹھرانا چاہیے
میں نے عبد الوہاب صاجب سے خود سنا ہے کہ اگر کسی فرد نے یہ کہا کہ تمام پنجابی برے ہیں یا فلاں قوم پوری کی پوری ایسی ہے تو روز محشر اس قوم کے ایک، ایک فرد سے اپنے اس کہے کی جس میں وہ پوری قوم مبتلا نہیں تھی اسکی معافی نہیں مانگے گا تب تک خلاصی نہیں ہوگی۔
تو اللہ ہم سبکو کو اپنی حفظ امان میں رکھے اور ہر اس عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمارے لئے اس دنیا میں اور اسکے بعد آنے والی دنیا میں پریشانی کا سبب نا بنے
آمین
Wednesday, January 4, 2012
ٹیگ در ٹیگ پوسٹ
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی نے مجھے بھی ٹیگ کیا اور جہاں تک میری یاداشت کام کر رہی 2009 سے مستقل بلاگ پڑھ رہا ہوں پہلے میری نظر سے ایسی کوئی ٹیگنگ پوسٹ نہیں گذری خیر اچھی بات روایت ہے جاری رہنا چاہیے
مجھے تو ٹیگ کیا ہے حجاب نے
م- 2012ء میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
اپنی اماں اور اھلیہ کیساتھ حج ان شاءاللہ تعالی
۔ 2012ء میں کس واقعے کا انتظار ہے؟
مسلمانوں میں اتحاد ہونے کا انتظار ہے
3۔ 2011ء کی کوئی ایک کام یابی؟
اللہ کا شکر ہے بغیر کسی نقصان کے سال گذر گیا :)
4۔ 2011ء کی کوئی ایک ناکامی؟
کوئی نہیں
5۔ 2011ء کی کوئی ایک ایسی بات جو بہت یادگار یا دل چسپ پو؟
4 اگست 2011 کو اللہ نے بیٹی دی
6۔ سال کے آغاز پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟
افففففف ٹینشن آفس کی
7۔ کوئی چیز یا کام جو 2012ء میں سیکھنا چاہتے ہوں؟
زندگی کیسے صراط مستقیم پر آجائے
یہ تو تھے میرے جوابات اب میں ٹیگ کرتا ہوں کچھ ساتھی بلا گرز کو
اور میں ٹیگ کرتا ہوں اپنے ساتھی بلاکرز کو ڈفر
تانیہ بی بی
عادل بھیا
اہنا اوے لالا
خراسانی صاحب
اب تمام کے تمام لوگ جوابات دے دییں
اور سب آخر میں سب شبہیہ کی بکواس
مجھے تو ٹیگ کیا ہے حجاب نے
م- 2012ء میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
اپنی اماں اور اھلیہ کیساتھ حج ان شاءاللہ تعالی
۔ 2012ء میں کس واقعے کا انتظار ہے؟
مسلمانوں میں اتحاد ہونے کا انتظار ہے
3۔ 2011ء کی کوئی ایک کام یابی؟
اللہ کا شکر ہے بغیر کسی نقصان کے سال گذر گیا :)
4۔ 2011ء کی کوئی ایک ناکامی؟
کوئی نہیں
5۔ 2011ء کی کوئی ایک ایسی بات جو بہت یادگار یا دل چسپ پو؟
4 اگست 2011 کو اللہ نے بیٹی دی
6۔ سال کے آغاز پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟
افففففف ٹینشن آفس کی
7۔ کوئی چیز یا کام جو 2012ء میں سیکھنا چاہتے ہوں؟
زندگی کیسے صراط مستقیم پر آجائے
یہ تو تھے میرے جوابات اب میں ٹیگ کرتا ہوں کچھ ساتھی بلا گرز کو
اور میں ٹیگ کرتا ہوں اپنے ساتھی بلاکرز کو ڈفر
تانیہ بی بی
عادل بھیا
اہنا اوے لالا
خراسانی صاحب
اب تمام کے تمام لوگ جوابات دے دییں
اور سب آخر میں سب شبہیہ کی بکواس
Monday, January 2, 2012
2 جنوری
میں نے اسکو پہلی مرتبہ 2001 میں پاکستان کی ایک فرم میں بطور آیچ آر اسسٹنٹ کے دیکھا تھا اس وقت کچھ خاص دھیان بھی نہیں دیا تھا کیونکہ اس وقت میں دفتر کا کام بہت دل لگا کر کیا کرتا تھا ۔۔۔۔ اور چونکہ وہ ایچ آر میں تھی اور اپنا ٹریک ریکارڈ ماشاءاللہ سے آج تک اتنا شاندار ہے کہ وقت ہر آفس پہنچنا تو کبھی سیکھا ہی نہیں اس لیے ایچ آر والوں سے تو آلویز 36 کا آنکڑا رہتا ہے ۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ میں کمپنی چھوڑ کے 2002 دبئی چلا گیا اور جو اسکو پہلے مرتبہ دیکھا تھا وہ دبئی کی رنگنیاں دیکھ کر دل اور دماغ سے ایسے صاف ہوئی جیسے کچھ تھا ہی نہیں اور اس وقت تک واقعتاً کچھ نہیں تھا۔
دبئی میں 2 سال گذار کر واپس پاکستان آگیا اور جاب کی تلاش شروع کی جہاں پہلے جاب کرتا تھا وہاں بھی گیا تو پتہ چلا وہاں فی الحال کوئی آسامی خالی نہیں ۔ وہیں پر ایک دوست نے کسی دوسری فرم کا بتایا تو میں وہاں چلا گیا۔
یہ آفس ڈیفنس میں واقع ہے وہاں پہنچ کر جس پہلی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو دینا کے گول ہونے کا ہقین آگیا جی ہاں یہاں بھی وہی ایچ آر والی موجود تھی بس فرق صرف اتنا تھا کی پہلے والی کمپنی میں وہ اسسٹنٹ تھیں اور یہاں پر انکے اسسٹنٹ ۔
بس اب بہت دیٹیل میں نہیں جاونگا، جولائی 2004 کو پہلی مرتبہ میں نے اپنی ایچ آر منیجر کو پرپوز کیا اور 2 جنوری 2005 کو وہ میری زندگی میں شامل ہوگئ۔ آج ہماری شادی کی سالگرہ ہے اس بات کو ماشاءاللہ سے سات سال ہوچکے ہیں اس دوران پہت سی جنگیں اور امن معاہدے ہوئے اور اللہ کا شکر ہے بہت اچھی گذر رہی ہے اور ان شاءاللہ آگے بھی اچھی بری جیسی بھی گذرے گی اکھٹا ہی گذرے گی ساتھ میں اپنے بچوں کے۔
مگر ایک بات ہے زندگی کے بہترین دن جو تھے وہ جولائی 2004 سے لیکر جنوری 2005 تک کے تھے اسکے بعد سے زندگی مزید سے مزید پہترین ہوگئ اور اس بات کو کہتے ہوئے مجھے فخر ہے کے مجھے ایک انتہائی مخلص غمگسار اور چاہنے والی شریک حیات ملی اللہ اسکو ہمہشہ خوش رکھے
پھر کچھ ایسا ہوا کہ میں کمپنی چھوڑ کے 2002 دبئی چلا گیا اور جو اسکو پہلے مرتبہ دیکھا تھا وہ دبئی کی رنگنیاں دیکھ کر دل اور دماغ سے ایسے صاف ہوئی جیسے کچھ تھا ہی نہیں اور اس وقت تک واقعتاً کچھ نہیں تھا۔
دبئی میں 2 سال گذار کر واپس پاکستان آگیا اور جاب کی تلاش شروع کی جہاں پہلے جاب کرتا تھا وہاں بھی گیا تو پتہ چلا وہاں فی الحال کوئی آسامی خالی نہیں ۔ وہیں پر ایک دوست نے کسی دوسری فرم کا بتایا تو میں وہاں چلا گیا۔
یہ آفس ڈیفنس میں واقع ہے وہاں پہنچ کر جس پہلی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو دینا کے گول ہونے کا ہقین آگیا جی ہاں یہاں بھی وہی ایچ آر والی موجود تھی بس فرق صرف اتنا تھا کی پہلے والی کمپنی میں وہ اسسٹنٹ تھیں اور یہاں پر انکے اسسٹنٹ ۔
بس اب بہت دیٹیل میں نہیں جاونگا، جولائی 2004 کو پہلی مرتبہ میں نے اپنی ایچ آر منیجر کو پرپوز کیا اور 2 جنوری 2005 کو وہ میری زندگی میں شامل ہوگئ۔ آج ہماری شادی کی سالگرہ ہے اس بات کو ماشاءاللہ سے سات سال ہوچکے ہیں اس دوران پہت سی جنگیں اور امن معاہدے ہوئے اور اللہ کا شکر ہے بہت اچھی گذر رہی ہے اور ان شاءاللہ آگے بھی اچھی بری جیسی بھی گذرے گی اکھٹا ہی گذرے گی ساتھ میں اپنے بچوں کے۔
مگر ایک بات ہے زندگی کے بہترین دن جو تھے وہ جولائی 2004 سے لیکر جنوری 2005 تک کے تھے اسکے بعد سے زندگی مزید سے مزید پہترین ہوگئ اور اس بات کو کہتے ہوئے مجھے فخر ہے کے مجھے ایک انتہائی مخلص غمگسار اور چاہنے والی شریک حیات ملی اللہ اسکو ہمہشہ خوش رکھے
Tuesday, October 11, 2011
المیہ ہے یہ تو
المیہ ہے یہ تو ۔۔۔۔۔۔ اس دور کا سب سے بڑا المیہ جس میں، میں خود بھرپور طریقے سے مبتلا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح سمجھنا ۔۔۔
آپ کسی بھی صحیح بات کو غلط سمجھیں گے تو اور غلط کو صحیح تو پھر کسی بھی انسان کا اور اس معاشرے کا ٹھیک ہونا نا ممکن ہی ہے ۔
بات یہ ہے کہ کل مجھے میرے ایک جانے والے نے کنیڈا سے فون کیا اور کہا کہ تم ایسا کرو یہاں آجاو بڑا سکون ہے بہت آزادی ہے بہت ڈویلویپمنٹ ہے ترقی کی راہیں بہت ہیں ۔۔ میں نے ان سے کہا کے یار یہ سب تو یہاں بھی بہت ہے ۔۔۔
تو مجھ سے کہا گیا ۔۔۔۔ ارے یار کہاں پھنسے ہوئے ہو یہ بھی کوئی آزادی ہے مرد الگ اور مستورات الگ :(
مطلب یہ اخذ ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔ اصل آزادی یہ ہے کہ آپ کا جو دل چاہے کریں اور اسپر کوئی روک ٹوک نا ہو ۔
تو بھائی میں باز آیا ایسی آزادی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :(
آپ کسی بھی صحیح بات کو غلط سمجھیں گے تو اور غلط کو صحیح تو پھر کسی بھی انسان کا اور اس معاشرے کا ٹھیک ہونا نا ممکن ہی ہے ۔
بات یہ ہے کہ کل مجھے میرے ایک جانے والے نے کنیڈا سے فون کیا اور کہا کہ تم ایسا کرو یہاں آجاو بڑا سکون ہے بہت آزادی ہے بہت ڈویلویپمنٹ ہے ترقی کی راہیں بہت ہیں ۔۔ میں نے ان سے کہا کے یار یہ سب تو یہاں بھی بہت ہے ۔۔۔
تو مجھ سے کہا گیا ۔۔۔۔ ارے یار کہاں پھنسے ہوئے ہو یہ بھی کوئی آزادی ہے مرد الگ اور مستورات الگ :(
مطلب یہ اخذ ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔ اصل آزادی یہ ہے کہ آپ کا جو دل چاہے کریں اور اسپر کوئی روک ٹوک نا ہو ۔
تو بھائی میں باز آیا ایسی آزادی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :(
Sunday, September 11, 2011
ُپیدائش میں ولی کی شرکت
جب چنگیز خان کی پیدائش ہوئی ہوگی تو اسکے والدین نے ایک جشن منایا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر انکے والدین اور اس جشن میں شریک کسی بھی فرد کو اس بات کا رتی برابر بھی اندازہ ہوتا کہ یہ چنگیز خان جب بڑا ہوگا تو کیا، کیا کارنامے انجام دیگا تو شائد وہ اسکو اسی دن مار دیتے ۔۔۔۔۔۔۔
ہم مسلمانوں میں بھی ایک شخص گذرا ہے حجاج بن یوسف کے نام سے اسکے کارنامے تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اسکا بھی اگر کسی کو پتہ ہوتا تو وہ بھی مار دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ جب کے اسکے خاندان میں تو بڑے بڑے عرب شرفاء شامل تھے اور دین اسلام کے لئے انکی خدمات اور قربانیاں بھی بڑی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب انسان بلکہ جب کسی مسلمان کے گھر کوئی پیدا ہوتا ہے تو ایک جشن ہوتا ہے اسلامی اور سنت کیمطابق کان میں اذان اور اقامت کہی جاتی ہے
پھر عقیقہ ہوتا ہے اور اپنی اسططاعت کیمطابق لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جس میں سب ہی خوشی خوشی شرکت کرتے ہیں ۔۔۔
کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے تو کوئی انجینئر تو کوئی مفکر ہوتا ہے تو کوئی اسکالر تو کوئی رئیس امرہوی جیسا انسان ہوتا ہے سب شریک ہوتے ہیں سب دعا دیتے ہیں ۔۔۔ کہ اللہ پاک عمر دراز کرے ۔۔۔ نیک اور صالح بنائے نصیب اچھا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین اپنے شب و روز اپنی اولاد کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ والدین کی اپنی اولاد کے لیے قربانیوں کا کوئی شمار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچہ بھی آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا ہے ابتدائی دونوں میں جب تک والدین کے زیر اثر ہوتا ہے تو بہت ہی شریف اور نیک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بچپن سے لڑکپن کی طرف آجاتا ہے کچھ کچھ اپنی من مانیاں کرنے لگتا ہے والدین سمجھاتے ہیں کہ بیٹا یہ آپکے لئے صحیح نہیں ہے اسے آپکا بھی نقصان ہوگا اور دوسرے بھی پریشان ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر
بچے کے سمجھ میں نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے اماں باوا میرے تو دشمن ہی ہو گئے اور اسی دوران بچہ لڑکپن کو پھلانگتا ہوا جوانی دیوانی میں داخل ہو جاتا ہے
بہت ہی زورآور طریقے سے اور بہت سے اسیے لوگوں کیساتھ مل جاتا ہے کہ جنسے ملنے پر اسکے وہ تمام لوگ جو اس عقیقے میں شامل تھے اسکو سجمھاتے ہیں کہ دیکھوا بیٹا یہ روش ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ صرف تمھاری زات کا مسئلہ نہیں ہے یہ پورئ قوم کا مسئلہ ہے ۔۔۔۔ کہ جو لوگ اپنی قابلیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے وہ اب ۔۔۔۔ کانا ۔۔۔ کمانڈو ۔۔۔ ٹنڈے ۔۔۔ ٹی ٹی ۔۔۔۔ اور لنگڑے کے ناموں سے جانے جا رہے ۔۔۔۔۔
جن لوگوں کے ھاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا انکے ہاتھ میں اسلحہ آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ میرٹ میں اول ہوتے تھے اب وہ لوگ لوٹ مار اور بھتہ خوری میں اول آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اور اصل بات تو یہ ہے بیٹا کہ کسی اور کو نہیں اپنے ہی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اپنے ہی شہر کو جلا رہے ہیں ۔۔۔۔
شرفاء کی ایک جماعت اس بچے جو کہ اب جوان اور بااثر ہوگیا ہے اسکو سمجھاتے ہیں کہ اس وقت لوگ اور خاص کر نوجوان طبقہ اپنے والدین سے زیادہ آپ کی مان رہے ہیں ۔۔۔۔۔
تو جو اس ٹائم کچھ شریف لوگ ریئس امرہوی جیسے انہوں نے مشورہ دیا اس بچے کو کہ ابھی بھی وقت ہے اگر اس وقت کی جنریشن کو تعمیری کاموں میں لگا دیا جائے تو بغیر کسی خون خرابے کہ انقلاب آجائے ۔۔۔ مگر
صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تو ہر نشہ ہی حرام اور خطرناک ہے مگر جو سب سے خطرناک ہے وہ ہے جہالت اور طاقت کا نشہ اور اس میں بھی سب سے خطرناک ہے پڑھے لکھے جاہل کا جہالت کے نشے میں چور ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا خمیازہ 2 نسلیں تو بھگت چکیں اور پتہ ہیں کتنوں نے اسکو بھگتانا ہے
اصل بات یہ ہے کہ کسی کی پیدایئش میں کسی ولی اللہ کی شرکت اس شخص کے مستقبل میں ایک اچھا انسان بنے کی دلیل نہیں جب تک کہ وہ انسان خود اسکی کوشش نہ کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کیساتھ جمے رہنے کی دعا نہ کرے
اللہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
ہم مسلمانوں میں بھی ایک شخص گذرا ہے حجاج بن یوسف کے نام سے اسکے کارنامے تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اسکا بھی اگر کسی کو پتہ ہوتا تو وہ بھی مار دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ جب کے اسکے خاندان میں تو بڑے بڑے عرب شرفاء شامل تھے اور دین اسلام کے لئے انکی خدمات اور قربانیاں بھی بڑی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب انسان بلکہ جب کسی مسلمان کے گھر کوئی پیدا ہوتا ہے تو ایک جشن ہوتا ہے اسلامی اور سنت کیمطابق کان میں اذان اور اقامت کہی جاتی ہے
پھر عقیقہ ہوتا ہے اور اپنی اسططاعت کیمطابق لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جس میں سب ہی خوشی خوشی شرکت کرتے ہیں ۔۔۔
کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے تو کوئی انجینئر تو کوئی مفکر ہوتا ہے تو کوئی اسکالر تو کوئی رئیس امرہوی جیسا انسان ہوتا ہے سب شریک ہوتے ہیں سب دعا دیتے ہیں ۔۔۔ کہ اللہ پاک عمر دراز کرے ۔۔۔ نیک اور صالح بنائے نصیب اچھا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین اپنے شب و روز اپنی اولاد کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ والدین کی اپنی اولاد کے لیے قربانیوں کا کوئی شمار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچہ بھی آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا ہے ابتدائی دونوں میں جب تک والدین کے زیر اثر ہوتا ہے تو بہت ہی شریف اور نیک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بچپن سے لڑکپن کی طرف آجاتا ہے کچھ کچھ اپنی من مانیاں کرنے لگتا ہے والدین سمجھاتے ہیں کہ بیٹا یہ آپکے لئے صحیح نہیں ہے اسے آپکا بھی نقصان ہوگا اور دوسرے بھی پریشان ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر
بچے کے سمجھ میں نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے اماں باوا میرے تو دشمن ہی ہو گئے اور اسی دوران بچہ لڑکپن کو پھلانگتا ہوا جوانی دیوانی میں داخل ہو جاتا ہے
بہت ہی زورآور طریقے سے اور بہت سے اسیے لوگوں کیساتھ مل جاتا ہے کہ جنسے ملنے پر اسکے وہ تمام لوگ جو اس عقیقے میں شامل تھے اسکو سجمھاتے ہیں کہ دیکھوا بیٹا یہ روش ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ صرف تمھاری زات کا مسئلہ نہیں ہے یہ پورئ قوم کا مسئلہ ہے ۔۔۔۔ کہ جو لوگ اپنی قابلیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے وہ اب ۔۔۔۔ کانا ۔۔۔ کمانڈو ۔۔۔ ٹنڈے ۔۔۔ ٹی ٹی ۔۔۔۔ اور لنگڑے کے ناموں سے جانے جا رہے ۔۔۔۔۔
جن لوگوں کے ھاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا انکے ہاتھ میں اسلحہ آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ میرٹ میں اول ہوتے تھے اب وہ لوگ لوٹ مار اور بھتہ خوری میں اول آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اور اصل بات تو یہ ہے بیٹا کہ کسی اور کو نہیں اپنے ہی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اپنے ہی شہر کو جلا رہے ہیں ۔۔۔۔
شرفاء کی ایک جماعت اس بچے جو کہ اب جوان اور بااثر ہوگیا ہے اسکو سمجھاتے ہیں کہ اس وقت لوگ اور خاص کر نوجوان طبقہ اپنے والدین سے زیادہ آپ کی مان رہے ہیں ۔۔۔۔۔
تو جو اس ٹائم کچھ شریف لوگ ریئس امرہوی جیسے انہوں نے مشورہ دیا اس بچے کو کہ ابھی بھی وقت ہے اگر اس وقت کی جنریشن کو تعمیری کاموں میں لگا دیا جائے تو بغیر کسی خون خرابے کہ انقلاب آجائے ۔۔۔ مگر
صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تو ہر نشہ ہی حرام اور خطرناک ہے مگر جو سب سے خطرناک ہے وہ ہے جہالت اور طاقت کا نشہ اور اس میں بھی سب سے خطرناک ہے پڑھے لکھے جاہل کا جہالت کے نشے میں چور ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا خمیازہ 2 نسلیں تو بھگت چکیں اور پتہ ہیں کتنوں نے اسکو بھگتانا ہے
اصل بات یہ ہے کہ کسی کی پیدایئش میں کسی ولی اللہ کی شرکت اس شخص کے مستقبل میں ایک اچھا انسان بنے کی دلیل نہیں جب تک کہ وہ انسان خود اسکی کوشش نہ کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کیساتھ جمے رہنے کی دعا نہ کرے
اللہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
Tuesday, August 16, 2011
چھنو آنٹی کا کلب بلاگستان
بلاگستان کو جنگستان بنانے والی آنکھوں میں نشہ لئَے چھنو آنٹی کا ذکر تو بہت ہوچکا اب زرا انکے قلبی تعلق والے کلب کا بھی ذکر ہو ہی جائے بلاگستان پہلے امن کا گہوارہ تھا ایک دن اس بلاگستانی محلے میں ایک خارش زدہ کتا داخل ہوا اس کا کام ہر وقت بھونکنا تھا بلاگستان کا ہر بلاگی اس کو دھتکارتا تھا مگر چھنو آنٹی اس کو بہت پسند کرتی تھی ہر طرف کی دھتکار سے تنگ آکر اس نے چھنو آنٹی کے قدموں میں پناہ لی آنٹی کو ایک ہمراز غمگسار مل گیا ، کتا جب بھونک کے تھک جاتا تو چھنو آنٹی کے قدموں میں جا بیٹھتا اور قدموں میں سر رکھ کر سارے شکوے کہہ سناتا کہ کس نے اس پر کیا ستم ڈھائے، چھنو آنٹی اس زبان کی ماہر تھی سب کچھ سن کے تسلی دیتے ہوئے کہتی فکر نہ کر پیارے جب تک میں ہوں پنی ہر بلاگ پوسٹ تجھ پہ وار دوں گی پھر پیار سے اس کی ٹیڑھی دُم کو جھٹکا دیتی بلکل اس طرح جیسے لکڑی کی کاٹھی والے گھوڑے پہ ہتھوڑا مارا جاتا تھا تو وہ دُم دبا کے بھاگتا تھا لیکن یہ بلاگی کتا مالکن کے پیار سے شرما کے مالکن کے قدموں میں منہ چھپا لیتا اور سوچتا اس ظلمی بلاگستان میں کوئی تو ہے جو میرا اپنا ہے مالکن کا دستِ شفقت اس لاغر کو ایک نئی توانائی بخشتا تھا کتا اپنے مالک کے لیئے وفادار لیکن پاکبازوں کے لیئے نجس ہے اس لیئے اے ایمان والو ! کتے کا سوچ کے 313 مرتبہ لاحول پڑھ کے پھونک مارا کرو غیبی پھونک ضرور اثر کرے گی اس لیئے کہ کتا جس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اس کا مالک بھی نظر نہیں آتا مگر اس کی باتیں کتوں پر اثر کرتی ہیں کتے کو ذلیل و خوار کرنے کی ترکیبوں پہ باقی باتیں پھر ہوں گی اس وقت لاحول پڑھتے ہی کتا مالکن کے پاس چلا گیا ہے اس پوسٹ کی شکایت لگانے رب راکھا ۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)