Tuesday, May 10, 2011

جو یہاں کرو تو حرام اور وہاں ہوا تو حلال

یہ بھی صرف ایک خبر ہے اور صرف یہ جانے کے لئے کہ ھیتھرو پر کتنے فیصد روشن خیال اور ترقی پسند لوگ ہوتے ہیں اور کس ملک کے شہر میں موجود ہے یہ پوائی اڈاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے فیصد تاریک خیال بستے ہیں ان روشن خیالوں کے درمیان

اور ایک بات اور برائے مہربانی اعداد و شمار مصدقہ ہونے چاہیے نیز یہ بھی اگر معلوم چل جائے کہ اسکی آخر وجہ کیا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور آخر میں ایک بات یہ کہ اگر اسطرح کبھی بھی کہیں بھی مردوں کا کنوارہ پن جانچا ہے انہوں نے تو وہ حوالہ بھی مل جاتا تو مشکل آسان ہو جاتی بہت سے لوگوں کی

انیس سو ستر کے عشرے میں برطانیہ کے ويزا ضابطوں کے تحت جنوبی ایشیائی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کرنے کے بارے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ویزا دینے کے لیے لڑکیوں کی دوشیزگی کی جانچ کا معاملہ جتنا سمجھا جا رہا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔

فروری 1979 میں کنوارے پن یا دوشیزگی کی جانچ کے بارے میں انکشاف اور ہنگامہ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ حکومت نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس طرح کے ایک دو معاملے ہوئے تھے لیکن آسٹریلیائی محققوں کے ہاتھ بعض ایسی فائلیں آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کم ازکم 80 بھارتی خواتین کو برطانیہ آنے کے لیے اس ہتک آمیز عمل سے گزرنا پڑا تھا۔

اس انکشاف کے بعد اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت معافی مانگے۔

برطانوی قانون کے تحت تیس برس گزرنے کے بعد اس طرح کی فائلوں کی کاپی نکالنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اسی کے تحت آسٹریلیائی محققوں نے کئی محکموں سے دستاویزات حاصل کی ہیں۔

ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک سے شادی کر کے برطانیہ میں جا کر بسنے والی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کے ایک دو نہین بلکہ متعدد واقعات ہوئے تھے اور یہ جانچ سرکاری پالیسی کا حصہ تھی۔

لندن سے چھپنے والے اخبار ''گارڈین '' میں خبر شائع ہو نے کے بعد فروری 1979 میں برطانوی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے جانچ کے عمل پر پابندی لگا دی تھی۔

ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے شعبۂ قانون کے محقق اے ون سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت برطانوی حکومت نے بس ایک دو ایسے واقعات کی بات تسلیم کی تھی لیکن یہ سچ نہیں تھا۔

سمتھ نے کہا ’برطانیہ کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزیراعظم کے دفتر سے ہم نے جو کاغذات حاصل کیے ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ 1970 کے عشرے میں بھارت میں دلی اور مُمبئی میں 80 خواتین کی جانچ ہوئی تھی۔ ’ہمارے پاس پاکستان اور بنگنہ دیش کے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جتنا سمجھا جا رہا تھا یہ معاملہ اس سے کافی بڑا ہے‘۔

فروری 1979 میں اس معاملے کے سامنے آنے پر جوائنٹ کاؤنسل آن ویلفیر آف مائگرینٹس نے اس کی کافی مخالفت کی تھی۔

1960 میں قائم کیے گئے اس ادارے کی قانونی معاملات کی سربراہ حنا ماجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی شرمناک معاملہ ہے اور جس کے لیے حکومت کو معافی مانگنی چاہیے ۔

وہ کہتی ہیں ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جنوبی ایشیائی خواتین سے ہونے والی ان ذیادتیوں پر معافی مانگے کیونکہ یہ ایک شرمناک اور نفرت انگیز عمل تھا۔ اس بات کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کیونکہ یہ عمل خواتین، مائگرینٹس اور انسانی حقوق کے تئیں اہانت کے جزبات کا عکاس تھا‘۔

آسٹریلیائی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی نوجوان لڑکیوں کے کنوارے پن کی میڈیکل جانچ کے واقعات دلی اور مُمبئی میں واقع ویزا دفاتر میں اور کئی بار برطانیہ پہنچنے پر ہیتھرو ائر پورٹ پر بھی پیش آئے تھے۔

11 comments:

Anonymous said...

مدینہ کا سفر کر یائے پر ذہن اور سوا اب بھی وہیں اٹکی ہوئی
قاسم

جہالستان سے جاہل اور سنکی ۔ said...

گوری حوروں کی پروڈکشن پر پابندی اور سانولی حوروں میں ویسٹ کا انٹرسٹ ۔ شائد سانولوں کیلئے ویسٹرن سرٹیفائد سانولی حوروں والے بگ بزنس کی بات ہو رہی ہے جی ۔

عمران اقبال said...

مولبی صاحب۔۔۔ کیوں دل جلوں کی مزید جلانے کا ارادہ ہے۔۔۔؟ لیکن نہیں جی۔۔۔ اب جلن کیسی۔۔۔ اب تو ان کے آقا و مولا یہ کام کر رہے ہیں تو ٹینشن کیسی انہیں۔۔۔ اب سب کچھ جائز ہو جائے گا۔۔۔ نا جائز رہے گا تو صرف یہ کہ آپ جیسے مولبی نے چٹخارے لینے کے لیے اپنے بلاگ پر یہ خبر چھاپ دی۔۔۔ ہا ہا ہا

عمران اقبال said...

ویسے مجھے اس طرح کے پراسیس کا کچھ علم نہیں تھا اور نا ہی اب بھی یہ سمجھ آئے ہے کہ اس پراسیس کی ضرورت کیا ہے۔۔۔ جو بھی وہ۔۔۔ ادھر جا کر تو "ورجینیٹی"" کھونے کا 85٪ چانس تو ہو ہی جاتے ہیں۔۔۔ پھر کیا ٹینشن کے شروع ہی میں چیک کریں۔۔۔؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔۔

DuFFeR - ڈفر said...

مولبی صاحب یہ پوائی اڈہ کیا ہوتا ہے؟
پوری پوری روشنی ڈالیں پہلے تو اس پہ

افتخار اجمل بھوپال said...

جناب ميں نے آپ کے بلاگ پر آنے کی جب جسارت کی تو مجھے وارننگ دی گئی کہ يہان بالغ لوگوں کيلئے مواد ہے ۔ ميرے پاس بالغ ہونے کا ثبوت تو تھا نہيں پھر بھی ميں نے کہہ ديا کہ ميں بالغ ہوں

جعفر said...

مولبی تیری املا بھی تانیہ بی بی کی املا کی طرح روز بروز 'نکھرتی' جارہی ہے
اب یہ پتہ نہیں کہ تو نے پوائی اڈہ جان بوجھ کے لکھا ہے یا ؟؟؟

UncleTom said...

اب اگر میں ادھر کوی تبصرہ کروں گا تو اعتراض ہو گا کہ ۲۱ سال کا نابالغ کیوں تبصرے کرتا ہے ایسی پوسٹس پر ، باقی جو میں کہنا چاہتا تھا عمران بھای کہہ چکے ۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

ہم تبصرہ کریں گے اور ڈنکے کی چوٹ پہ کریں گے کہ دنیا بھر کے بے غیرتوں نے پاکستان کے بے غیرت ترین نام نہاد روشن خیالوں کو پاکستانی معاشرے کو اپنے تئیں روشن خیال کرنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔ جو روشن خیالی تو نام کی ہے مگرایک مادر پدر آزاد معاشرے کی تگ و دور ضرور ہے۔

ان میں اکثریت ان مدل کلاسی اہمیت کے ماروں کی ہے جو لنڈے سے جینز خرید کر پہنتے ہیں اور خواب امریکہ اور برطانیہ یا یوروپ کے دیگر یعنی اپنی مغربی آقاؤں کے دم چھلے بننے کے دیکھے ہیں ۔ وائے حسرت ناکام۔

واللہ ہمیں مسئلہ کسی بھی روشن خیال سے نہیں مگر پاکستان میں زبردستی جدیدت کا روازانہ ٹیکہ لگانے والوں سے پاکستانی مسلم معاشرے کو درپیش خطرات سے مسئلہ ہے۔ اگر ایک دفعہ پاکستان کا رہا سہا بچاکچھا خاندانی نظام بگڑا تو اندھی غربت پاکستان میں ہر شئے کو نگل لے گی۔ اگر غربت سے افلاس کا سفر پاکستان میں رفتار نہیں پکڑ سکا تو محض اسمیں پاکستانی معاشرے کی وہ روایات ہیں جنہیں روشن خیال بوسیدہ اور دقیانوسی قرار دے کر پاکستانی رہے سہے معاشرتی ڈھانچے کی ریوڑیاں اور چھوارے کھرے کر لینا چاہتے ہیں۔

جن لوگوں نے تھائی لینڈ وغیرہ دیکھ رکھا وہ بخوبی جانتے ہیں ۔ کہ پاکستان میں نام نہاد روشن خیال کیونکر معاشرتی اقدار کے در پے۔

ویسے اسان نام نہاد روشن خیالوں اور ان کے آقا دونوں میں ایک قدر بہت مشترک ہے کہ دونوں اپنے ناجائز مفادات کے لئیے دھونس اور زبردستی سے باز نہیں آتے ۔

جب پاکستان کی ان مڈل کلاسئیے نام نہاد روشن خیالوں کو پتہ نہیں کہ جس دن قوم کا مزاج بگڑا تو آقا تک پہنچ نہ ہونے کی صورت میں ان مسکینوں کا انجام کیا ہوگا؟۔

یہ ملک پاکستانیوں کا ہے۔ اور ایسے لکڑ بھگوں کی دمیں کاٹتنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ کہ قوم کو اپنی شناخت اپنی پہچان کے لئیے کہیں سے تو آغاز کرنا ہے۔

وقاراعظم said...

سائیں میں تو کچھ نہیں کہوں گا کہ بارا سنگھا ابھی تک پہنچا ہی نہیں۔ صف دشمناں کو خبر کرو۔۔۔۔۔ ;)

ویسے ایک بات دل میں ضرور آرہی ہے، وہ یہ کہ ان انگریزوں کو کیا سمایا کہ جنوبی ایشیا والوں کا کنوارپن کا ٹیسٹ کرنا شروع کردیا؟ انکے طرف اگر یہ ٹیسٹ ہونے لگے تو 99% رزلٹ پوزیٹیوو آئے گا۔
:D

درویش خُراسانی said...

نا ہی اب بھی یہ سمجھ آئے ہے کہ اس پراسیس کی ضرورت کیا ہے۔۔۔ جو بھی وہ۔۔۔ ادھر جا کر تو "ورجینیٹی"" کھونے کا 85٪ چانس تو ہو ہی جاتے ہیں۔۔۔ پھر کیا ٹینشن کے شروع ہی میں چیک کریں۔۔۔؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔۔



عمران بھائی کیا ہی خوب کہا ہے آپ نے