Saturday, February 26, 2011

جس کا دل چاہے حیا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ایک بزرگ ہیں ۔۔۔۔ عمر انکی تقریباً 80 سال تو ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 20 سال کی عمر سے دین کی محنت کو بلا کسی غرض کے کر رہے ہیں ہاں غرض ہے تو صرف اتنی کہ کس طرح سارے کے سارے مسلمان اللہ کی ماننے والے ہو جایئں اور اپنی ساری زندگی اس طرح سے گذاریں جس طرح سے گذرانے کا حکم ہے۔

یہ کوئی آج سے 10 سال پہلے کئ بات ہے بیان فرمارہے تھے اور جب عموعی مجمے میں بات ہوتی ہے تو ایسی عام اور سادہ زبان میں ہوتی ہے کے ہر کسی کے بآسانی سے سمجھ میں آجائے کیونکہ ہر طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں اس قسم کی نشستوں میں ہوتے ہیں۔

اسی بیان میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے انکی سمجھ میں یہ عام اور سیدھی باتیں نہیں آیئں کہ ہانچ وقت کی نماز پڑھو، اللہ کا زکر کرو ، دوسرے مسلمان کا اکرام کرو سارے کے سارے اعمال کرنے کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہونی چاہئے اور جتنا علم اللہ پاک نے عطا کیا ہے اسکو دوسروں تک پہنچاو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اتنی سادہ سی باتیں ہیں کہ جنکو سمجھنا اور سمجھ کر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں بس اللہ پاک کا ہقین ہو اور آخرت کا ۔۔۔۔

بہرحال ڈاکٹر صاحب بیان کے بعد بزرگ صاحب کے باس گئے اور ان سے عرض کی کہ حضرت آپنے ابھی جو بیان فرمایا وہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے تو ان بزرگ نے ان سے تعارف کرا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے فخر سے بتایا کہ میں فلاں شعبے میں ڈاکٹریٹ ہوں ہعنی پی ایچ ڈی ۔۔۔۔۔ بزرگ نے انکی تعلیمی قابلیت تو سراہا اور آخر میں فرماہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ جب کبھی ایسی محفل میں بیٹھو جہاں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بات ہو رہی ہو تو اپنی معلومات کے پاجامے کو اتار کے بیٹھا کرو اپنے دل کے پبالے کو خالی کر کے بیٹھا کرو اس طرح بیٹھا کرو کہ تم کو کچھ نہیں آتا اور کچھ نہیں پتہ ورنہ اگر یہ سوچ کر اور یہ زہن میں رکھ کر بیٹھے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے اور مجھے سب پتہ ہے تو اتنی سی بھی بات سمجھ نہیں آئے گی کہ

نماز میں کل 14 فرض ہیں اور ان میں سے ایک فرض ہے ستر کا ڈھکا ہوا ہونا اگر ستر ڈھکی ہوئی نہ ہو تو نماز نہیں ہوگی اور اور عورتوں کے بال انکی ستر کا حصہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ستر کے کھلے ہونے کا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سب کو پتہ ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔

تو اب جس کی مرضی ننگا بابانگ دھل گھومے یا جس کا دل چاہے حیا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ پیغام تو تمام نبیوں کا مشترکہ ہے کہ ۔۔۔۔ جب تم حیا نہ کرو تو جو دل چاہے وہ کرو۔

Saturday, February 19, 2011

در شاباش روشن خیال

دنیا میں 3 قسم کے لوگ ہوتے ہیں اول وہ جو کہتے ہیں ھمکو کسی سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ اپنی لائف میں مست رہتے ہیں دوئم وہ جو کہتے ہیں یار اپنی تو خیر ہے مگر اپنے دوسرے بھائی کا بھلا ہو جائے یہ والی قسم اپ آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جا رہی ہے اور تیسری قسم وہ ہوتی ہے جس میں اتنی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے جیسے بارش کے بعد پتنگوں کی تعداد میں ہوتا ہے تیسری قسم کے حامل افراد کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں

1 - نہ جیو اور نہ جینے دو

2- اگر کوئی خوش قسمتی سے جینے لگے یا جینے کی کوشش کرنے لگے وہیں سے اسکو دھکا دے دو۔

3- کسی کو کبھی کسی حال میں خوش نہیں دیکھو

4 - اور سب سے بڑی خوبی کے کوئی اگر انکے عمل کو ذرا سا بھی غلط کہے تو اس کے اپر فوراً ذہنی پسماندگی کا لیبل لگا دو

اصل میں آج صبح میں ہماری ایک فیس بکی فرینڈ ہیں محترمہ پاپردہ پٹھان صاحبہ انکے بلاگ پر گیا وہاں انکی تحاریر پڑھیں بہت ہی شائستہ اور مہذب الفاظات میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہوا ہے اپنے خیالات تو اپنے دسروں کی خیالات کی ترجمانی بھی کی ہوئی

انکی تحاریر میں ایک تحرہر کسی دوست کی طرف سے الوداعی تحریر بھی ہے جس میں انکے دوست نے اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے بلاگنگ اور نیٹ سرفنگ سے معذرت کی ہے اس تحریر کے تبصروں میں لوگوں نے انکے اس اقدام کو ان لوگوں نے بہت سراہا جو گھر اور گھر میں بسنے والے لوگوں کی اہمیت سے واقف ہیں اور ان لوگوں نے اس فعل کو غیر اہم اور دقیانوس قرار دیا جو دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے انکے لئے انکا اپنا آپ ہی سب کچھ ہوتا ہے

اصل میں ذندگی میں ترجیحات وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی رہتی ہیں لڑکوں کی ترجیحات شادی سے پہلے کچھ اور، اور شادی کے بعد کچھ اور بلکل اسی طرح لڑکیوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے

اور اصل میں تو جینا ہے ہی دوسروں کے لئے اپنے لئے تو بارہ سنگھا بھی جیتا ہے

پتہ نہیں بات کہاں سے کہاں چلی جائے گی اور نا جانے کتنے روشن خیال لوگ پتہ نہیں کیا کیا کہیں گے مگر بات صرف اتنی سے ہے کہ جس چیز کا پابند کیا گیا ہے اسکو خوش اسلوبی سے کرنے کی کوشش کی جائے اپنی سائنس نہیں لڑائی جائے اور اگر خود کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو جو کوئی دوسرا اچھا کر رہا ہے تو اسکے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے جایئں ۔۔۔