Tuesday, May 26, 2015

یقین!!

ہماری بہت ہی محترم چھوٹی بہن عائشہ بنت نفیس کی ایک پُر اثر تحریر آپ قارئین کی نظر اپنئ آراء سے ضرور نوازیں اور عائشہ ٹوئیٹر پر @AyeshaBNafees کے نام سے موجود ہیں

اسکی ہنسی بہت خوبصورت تھی۔ شفاف اور دلکش۔ چمکتی آنکھوں کے ساتھ جب اس کے تیکھے نقوش میں دو گڑھوں کا اضافہ ہوتا تو اس لمحے کوئی بھی لڑکی
اسے اپنا دل دے بیٹھتی۔ اور اس وہ اسکی گھبرائی بوکھلائی دلیل سن کر دل کھول کر ہنس رہا تھا۔
"تو کیا تمہیں اس کی محبت کا یقین نہیں؟"- عمار آدھے گھنٹے سے اسے راحیل کی غیرسنجیدگی سے ڈرا کر تفریح کر رہا تھا۔ اس نے مزید چھیڑنے کے لئے پوچھا۔ "کیا تمہارے لئے یہ تسلی کافی نہیں کہ وہ جہاں بھی جائے گا، گھر لوٹ کر تمہارے پاس ہی آئے گا؟"
ثمرہ کی مبہم مسکراہٹ اچانک سے گہری ہو گئی۔
"آپ نے کبھی مذہب کو پڑھا ہے؟"
"مطلب؟ قرآن شریف پڑھا ہے۔ روزوں میں پورا قرآن ختم کرتا ہوں۔" اس کا فخریہ انداز اور سنجیدگی دیکھ کر ثمرہ کا ایک لمحے کو زور سے ہنسنے کا دل چاہا۔ لیکن اس نے اپنا سوال دہرایا۔
"مذہب ۔ میرا مطلب ہے comparative religion کو سٹڈی کیا ہے؟"
"نہیں۔ کیوں!؟"
"آپ اور میں پیدائشی مسلمان ہیں ۔ اندھا یقین ہے ہمارا قرآن پر۔ لیکن ھمارے دل پھر بھی بےچین رہتے ہیں اور ہم اپنی عبادات سے بھی دور ہیں اور اپنے رب سے بھی۔ مذہب ہمارے ارد گرد ہوا کی طرح موجود ہے اور ہمیں اسکی قدر نہیں ۔ اس کے برعکس وہ شخص جو سوچ سمجھ کر اپنا مذہب اپناتا ہے، اسے اُسکی پوری قدر ہوتی ہے۔ وہ اس کے دل میں اتر کر اس کا سکون بن جاتا ہے۔ عجیب سی بات ہے لیکن اکثر ہم religiously converted لوگوں کے چہروں سے ان کے سکون اور یقین کو پڑھ سکتے ہیں ۔ وہ ہوا میں صرف سانس نہیں لیتے۔ وہ اپنے عقیدے کی پختگی اور اسکی خوشی گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں۔ محبت بھی ایسی ہی چیز ہے۔ خود سے محبت کے ہونے کا یقین کر لو، تو ہوا کی طرح موجود تو رہتی ہے، مگر بے رنگ اور بےبو۔ اپنی محبت کی conviction اگر دیکھ لو تو پھر دل میں ہی نہیں، سینے میں اتر کر روح تک سرشار کر دیتی ہے۔ مجھے اس سے محبت ہے عمار ۔ کیا وہ مجھے یہ conviction دے سکتا ہے؟ "

باتیں کروڑوں کی اور دوکان پکوڑوں

باتیں کروڑوں کی اور دوکان پکوڑوں کی جس نے بھی یہ محاورہ بنایا ہے کوئی کمال کا ہی حقیقت پسند انسان ہوگا یا پھر اسکا واسطی ایسے لوگوں سے ہی پڑا ہوگا کے جنکی زندگی صرف باتیں کرتی ہی گذری ہوگی خیر یہاں آج ایسا کوئی خاص موضوع نہیں ہے سوائے اسکے کے یہ جو آجکل بلاگنگ بلاگنگ کا شور مچا ہوا ہے اور ہر شخص اپنی حیثیت، تجربے اور مشاہدے کے مطابق جو بھی معاشرے میں اچھائی یا برائی نظر آرہی ہے اسکو لکھ رہا اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کے اب بھی لوگوں میں اچھائی اور برائی محسوس کرنے کی صلاحیت باقی۔۔۔۔۔۔

اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب جہاں کچھ دوست لوگ بلاگنگ کو سوائے ایک اندھے کنوئیں کو کچھ نہیں سمجھتے ہیں وہیں ہمارے ملک، یہاں ہمارے ملک اس لئے کہا ہے کے کسی اور ملک میں ایسا کوئی واقعہ دیکھنے کا میرا کوئی تجربہ نہیں، تو ہمارے ملک کا آج کے دور کا سب سے اہم میڈیا جس کو الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے اور انکے ذیلی ادارے جو لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات دے کر اپنے پاس ملازمت دیتے ہیں کے وہ انکے ادارے کے لئے کچھ لکھیں گے، اس ہی میڈیا کے بڑے بڑے مشہور صحافی اور اینکرز ان چھوٹے چھوٹے اردو بلاگرز کی تحاریر کو بغیر کسی اجازت کے اپنے کالمز میں چھاپتے رہے ہیں اور چھاپ رہے ہیں اور اگر کوئی نشاندہی کردے تو بجائے اسکے کہ اس پر شرمندہ ہوں آگے سے تاویلیں دینا شروع کردیتے ہیں کے یہ تو ہمارے پاس برسوں سے لکھی ہوئی رکھی تھی۔۔۔

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کے اردو بلاگنگ سے وابسطہ لوگ چاہے کوئی بھی ہوں اور انکے آپس میں کیسے بھی تعلقات ہوں سرد و گرم یہ تو ویسے بھی زندگی کی نشانی ہے مگر کم سے کم ان میں اتنی صلاحیتیں تو موجود ہیں کہ اللہ نے جو ان کو عقل و فہم دیا ہے اسکو استعمال کرتے ہیں اور بغیر کسی لالچ اور بغیر کسی مشہوری کی خواہش کے جو دیکھتے ہیں وہ لکھ دیتے ہیں اور ایسے تمام لوگوں سے بہت ہی بہتر ہیں جو پیسے بھی لیتے ہیں انکی مشہوری پر لاکھوں روہے بھی خرچ ہوتے ہیں اور لکھنے کے لئے انکو صرف دوسرے کے بلاگز کی اسٹالکنگ کرنی پڑتی ہے اور پرانی کوئی اچھی تحریر اپنے نام سے چھاپ دیتے ہیں۔

اب اس بات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس شخض کو اتنا بھی علم و فہم، نہیں کے وہ کس طرح معاشرے کی برائی اور اچھائی عوام الناس کو دکھا سکے اس سے یہ کیسے امید لگائی جاسکتی ہے کے وہ معاشرے کو برائی سے بچا سکے گا،،،،

پتہ نہیں بات کہاں سے کہاں نکلے جارہی ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کے اردو بلاگرز کو پڑھیں یہاں بہت اچھے اچھے لکھنے والے ملیں گے اور ہر موضوع پر انکو صرف اس وجہ سے کنوئیں کا ڈڈو نہ کہیں کے یہ اپنی قومی زبان میں لکھتے ہیں اور قومی زبان کے فروغ کے لئے بغیر کسی لالچ کے انتھک محنت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ انکی نہ دوکانیں انچی ہیں اور نہ ہی یہ بڑے بڑے نام نہاد صحافیوں اور چینلیز کی طرح صرف باتیں کروڑوں کی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

والسلام

Saturday, May 16, 2015

ہم، تم اور فاصلے۔۔۔۔۔۔۔۔ گردشوں کے سفر میں یہی مستقل ٹھہرے


محبت۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم، تم اور فاصلے۔۔۔۔۔۔۔۔
گردشوں کے سفر میں یہی مستقل ٹھہرے۔


نواز شریف کی کرپشن کی تاریخ بیان کرتے کرتے میری تحریر کا موضوع اچانک محبت جیسا لطیف جذبہ ہوگیا۔۔۔۔۔ شاید لوگوں کو حیرت ہو گی کیونکہ کہاں ٹویٹر کی سخت الفاظ استعمال کرتی ہوئی تلخ ، بدتمیز اور بدزبان لڑکی اور کہاں محبت کا لفظ۔
اس لڑکی کے تو محبت کبھی قریب سے بھی نہ گزری ہوگی۔ لیکن جو لوگ میرے قریب ہیں یا تھے، چاہے وہ تحریکی ہوں، پٹواری ہوں یا نام نہاد نیوٹرل، میری وہ سائڈ جانتے ہیں جو محبت سے لبریز ہے۔
میرے دل سے صرف محبت کی ترسیل ہوتی ہے۔ میرے اندر سیاست کو لے کر جو تلخیاں بھری ہیں وہ میری پاکستان سے بےپناہ محبت کی وجہ سے ہی اتنی شدید ہیں۔ میرا دل محبت کے سوا کچھ اور کرنا اور سوچنا جانتا ہی نہیں۔

میں نے اس موضوع پر اپنے احساسات قلمبند کرنے کا فیصلہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کیا۔ شاید یہ تحریر آپکو بے ربط لگے اور اسکا مقصد بھی سمجھ میں نہ آئے۔ اس تحریر کا مقصد تو مجھے خود بھی سمجھ میں نہیں آیا لیکن آج شاید پیمانہ چھلک گیا ہے، شاید میں catharsis کرنا چاہتی ہوں۔ شاید دل کا بوجھ ہلکا ہوسکے یا شاید کوئی اسکو پڑھ کر نصیحت ہی حاصل کرلے۔

ایک عزیز دوست سے باتوں کے دوران گفتگو کا رخ غیر ارادی طور پر محبت کی طرف مڑ گیا۔ ایسا میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک مرد نے مجھے محبت کا مفہوم ایک مرد کے perspective سے بتایا۔

سن کر دھچکا لگا۔ محبت کے خوبصورت جذبے کی یہ تشریح میرے لیئے ناقابلِ فہم تھی۔
'عورت کا دل ایک ہوتا ہے، مرد کے کئی دل ہوتے ہیں۔'
دوست کے کہے اس ایک جملے نے مجھے ہر بات سمجھا دی۔ میرے دماغ میں زویا کیے لکھے بلاگ کا ایک ایک لفظ گونجنے لگا۔
میرے اس دوست نے مرد کے دل اور محبت کو کیسے بیان کیا میں انہی کے الفاظ میں بتانے کی کوشش کرتی ہوں۔
'مرد فطرتاً ٹھرکی ہوتے ہیں۔ انکا دل مچلا ہی رہتا ہے۔'
بات اگرچہ تلخ ہے لیکن عورت اور مرد کی نفسیات میں بہت فرق ہے۔ جب دل اور دماغ ایک ہی طرح فنکشن کرتے ہیں تو نفسیات فرق کیوں؟
'سچ تو یہ ہے کہ مردوں کو 'بہک' جانے کے بہانے چاہیئے ہوتے ہیں۔' یہ میرے نہیں ایک مرد دوست کے الفاظ ہیں۔
'خالص محبت صرف عورت کا ظرف ہے، مرد شاذ و نادر. ہاں محبت کے نام پر بیوقوف بنانے کے مرد ماہر۔۔۔۔ ایک ڈھونڈو ہزار دستیاب ہیں۔'
شاید ہر لڑکی کو ڈی ایم میں 'تم میری آخری محبت ہو' کاپی پیسٹ کرکے بھیجا جاتا ہے۔

مرد کی نفسانی خواہشات زیادہ ہیں۔ یہ قاعدہ کس نے بنایا ہے؟ عورت چاہے جانے اور سراہے جانے کی خواہش میں مردوں کی چالبازی کا شکار ہوتی ہے جسے وہ اپنی دانست میں محبت سمجھ رہی ہوتی ہے۔ مرد دل بھر جانے پر اپنا راستہ پکڑتے ہیں اور عورت اسے محبت میں دھوکہ سمجھ کر سوگ مناتی رہ جاتی ہے حالانکہ مرد نے اس سے محبت کی ہی نہیں ہوتی۔ مردوں کے پاس ہزار جال، ہزار ترکیبیں۔ لڑکیاں معصوم مردوں کی دُکھی داستانیں سن کر آبدیدہ ہوجاتی اور انکی محبت میں غوطے لگانے لگتی ہیں۔ یہ نہیں سمجھتیں کہ یہ ناخدا نہیں ہیں، ڈوب جانے دینگے۔
مرد کے وعدے، قسمیں کسی رومانوی ناول یا دیسی فلموں میں تو سچے ہوتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں خال خال۔
اور محبت جب ہوتی ہے تو بےحد ہوتی ہے۔ اس میں توازن رکھنے کا کہنے والے محبت کا مفہوم جانتے ہی نہیں۔ مردوں نے اس جذبے کو جھوٹ اور دھوکہ دہی سے داغدار کردیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج یہ لفظ اپنا اعتبار کھو رہا ہے حالانکہ کہتے ہیں کہ محبت آفاقی جذبہ ہے۔
میں feminist نہیں ہوں لیکن دل تو بہرحال عورت کا ہی ہے۔
میرا مقصد کسی خاص شخص یا گروپ کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انصافی ابھی بچے ہیں۔ زندگی کی تلخیوں کا ابھی اندازہ نہیں ہے۔ عام نوجوانوں کی طرح فلمی محبتیں کرتے ہیں۔ دوستوں کیساتھ سکرین شاٹس وغیرہ شئیر کرنا بہرحال گھٹیا حرکت ہے چاہے کسی بھی عمر میں کی جائے۔ پٹواری البتہ گھاگ مرد ہیں۔ انہیں اپنی ٹھرک لفاظی کر کے 'عشق' کی صورت پیش کرنے میں زیادہ دقّت پیش نہیں آتی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ انکی اس حرکت سے لڑکی کی نفسیات ہمیشہ کیلئے ڈسٹرب ہوجاتی ہے۔ وہ ہمیشہ کیلئے insecurities کا شکار ہوجاتی ہے۔ زندگیاں برباد کرتے ہوئے وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ انکی بہن، بیٹی، ماں بھی عورت ہیں اور اسی عورت کی پسلی سے وہ اس دنیا میں لائے گئے ہیں۔
مرد لڑکی کو کیا سمجھتے ہیں یہ تفصیلات ایک مرد کی زبانی سن کر تکلیف تو بہت ہوئی لیکن محبت پر میرا پختہ ایمان اور مضبوط ہو گیا۔ محبت اگر خالص ہو تو عبادت ورنہ ٹائم پاس کیلئے ڈی ایمی محبتیں تو ہر وقت دستیاب ہیں۔

دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت___
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے

یہ بلاگ لکھا ہے محترمہ ZAF صاحبہ نے وہ ایک مہمان لکھاری ہیں انکو ٹوئیٹر پر @MaonBillii کے نام سے تلاس کیا جاسکتا ہے