یہ بات ہے سن 1987......
اسکول کے گراونڈ میں اسمبلی ہو رہی ہے اور تمام مستقبل ہونہار معار باآوازبلند پاکستان کا ترانہ پڑھ رہے ہیں... وہاں سے فارغ ہو کر کلاسوں میں جا پہنچے اور پڑھنا اور اپنے استاد محترم سے علم کی روشنی سے قلوب کو منور کرنا شروع کیا.
ابھی کوئی دوسرا پریڈ ہی سٹارٹ ہوا تھا کی باہر کوریڈور میں کچھ ہلچل سے مچی اور ہمارے ھیڈماسٹر صاحب کی زوردار آوازیں آنا شروع ہوئی تو ہمارے استاد جی بھی پاہر کیجانب گئے دیکھنے کے لیے کہ ماجرا ہے....
ھیڈماسٹر صاحب دسویں جماعت کے کسی لڑکے کو ڈانٹ رہے تھے اور حسب روائت کان کے نیچے بجا بھی رہے تھے...
اوہ ہو یہ تو نعیم ہے یار اسکا تو روز کا ہے یہی وطیرہ ابھی مار کھا رہا ہے اور ہاف ٹیم میں پھر گول ہو جائے گا اسکول سے اور وڈیو گیم کی دکان پر چھٹی کے ٹائم تک گیم کھیلے گا یہ ساری باتیں ہم لوگ کر رہے تھے اور کلاس کی کھڑکی سے اچک اچک کر دیکھ بھی رہے تھے........
اچانک کلاس کے بچوں کی چیخ نکل گئی ایسے کہ کسی کو اچانک بچھو نطر آگیا ہو... پیچھے کھڑے لڑکے جن کی رسائی کھڑکی تک نہیں ہو رہی تھی تجسس بھری آواز میں پوچھا کہ کیا ہوا کیوں چیخے تم لوگ................
تو ایک لڑکے نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا ... تھپڑ .... منہ پر تھپڑ ماردیا ...... نعیم نے ھیڈ ماسٹر کے منہ پر تھپڑ ماردیا ..... سب کے سامنے سارے استادوں کے سامنے ... سارے بچوں کے سامنے.... سارے چپڑاسیوں کے سامنے... اوہ سارے بچے دم سادھ کے اپنی سیٹوں پر آکت بیٹھ گئے.... باہر سے آوازیں بھی اب آنا بند ہوگئی تھیں....
تھوڑی دیر بعد استاد جی کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ ابھی جو کچھ ہوا وہ تو اپنے لوگوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا...
پھر کہا....... ھیڈماسٹر صاحب نے نعیم کو اسکول سے نکال دیا ہے ..... اسکے بعد انہوں نے دوبارہ پڑھائی سٹارٹ کردی
سن 2002 ..... ہندرہ سال کے بعد میں آفس سئ واپس آرہا تھا کہ کسی نے آواز دی ..... ہیلو بھائی کہاں ہو کبھی ہم سے بھی مل لیا کرو .... میں نے گھوم کے دیکھا تو سامنے ملگجے کپڑوں میں ملبوس ایک انتہائی کمزور اور لاگر بندہ کھڑا ہے ... کہنے لگا ہاں یار اب کہاں پہچانوں گے عرصہ بھی تو بہت ہوگیا ..... میں وہی ہوں نعیم جو تمھارے ساتھ جامعہ ملیہ اسکول میں پڑھتا تھا ..... میں نے فورا کہا اسے کہا ارے ہاں تم وہی ہو نہ جس نے ھیڈ ماسٹر صاحب کو مارا تھا ......
اس ٹائم زوربازو تھا جوانی تھی ماردیا... مگر اس ایک تھپڑ کی مار میں آج تک جھیل رہا ہوں.....
میں نے پوچھا کیا ہوا اسکے بعد تم نے کون سے اسکول میں داخلہ لیا کہنے لگا ..... مجھے اسکول میں داخلہ تو مل گیا مگر اسکے بعد میں کسی بھی کتاب کا ایک حروف بھی یاد نہیں کر سکا بلکہ اسے پہلے جو مجھے آتا تھا میں وہ بھی بھول گیا میرا دل و دماغ ایسا ہوگیا جیسے کسی سلیٹ پر لکھ کر مٹا دیا جاتا ہے......
اس ایک تھپڑ کے بدلے زندگی نے اتنے تپھڑ مارے ہیں اور ایسے مارے ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا.....
یہ سارا قصہ اس لئے یاد آگیا کہ کل کے کسی اخبار میں پڑھا کہ کچھ لڑکوں نے نقل سے روکنے پر استاد کی پٹائی کردی..... استاد تو شائد معاف کر دے... مگر اسکا جو مکافات عمل ہے وہ ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتا..
یہ بات سمجھ سے بلاتر ہے کہ کوئی اسطرح کا سوچتا بھی کیسے ہے کہ استاد کو مار دیا جائے... بقینا یہ گھر والوں کی طرف سے تربیت میں کچھ کمی یا پھر بلاوجہ اور ناجائز سپورٹ کا نیتجہ ہوتا ہے .... جسکا انجام اور کسی کو نہیں اپکی اپنی اولاد کو تادم حیات بھگتنا پڑتا ہے...
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ابا نے ہمارے استاد کو کہا تھا کہ ..... آج سے یہ ہمارا بچہ آپکے حوالے کچھ بھی غلط کرے تو چمڑی آپکی اور اگر باقی کچھ بچا تو ہم لے جائیں گے.......
اللہ ہم سب کو اپنے استادوں کی قدر اور حقیقی عزت کرنے والا بنا دے کہ اللہ نے بھی استاد کا درجہ بہت بلند رکھا ہے کہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو کسی بھی انسان کو زندگی کو گذارنے کا طریقہ بتاتی ہے.......
اللہ ہم سب کو عمل کرنے والا بنا دے .... آمین