Monday, January 13, 2020

خاموش دوست

خاموش دوست

  *جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے , جیسے باپ کو ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں . یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا* 

    *کبھی  کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں , " اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی , بچت کی ہوتی , کچھ بنایا ہوتا* 
      *تو آج ہم بھی ... فلاں کی طرح عالیشان گھر , گاڑی میں گھوم رہے ہوتے "*  
    *" کہاں ہو ? کب آؤ گے ? زیادہ دیر نہ کرنا " جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں* 

    *" سویٹر تو پہنا ہے کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے "  انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں* 

    *اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں  , گھر ,گاڑی ,پلاٹ , بینک بیلنس , کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر* 
    *خود سُرخرو ہو جاتے ہیں "  ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے , کاروبار کرتے "* 
    *اس میں شک نہیں* 
    *اولاد کے لئے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں , جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے , اس ليے کہ ہمارے سامنے , وقت کی ضرورت ہوتی ہے , دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوتا ہے* 
    *جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں , جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے* 

    *بہت سی اولادیں , وقتی محرومیوں کا  پہلا  ذمّہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ,ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتی ہیں* 

    *وقت گزر جاتا ہے , اچھا بھی برا بھی , اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک  جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گِرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے*      
    
     *جوانی , پڑھائی , نوکری , شادی , اولاد اور پھر وہی اسٹیج ، وہی کردار , جو نِبھاتے ہوئے , ہر لمحہ , اپنے باپ کا  چہرہ آنکھوں کے سامنے آ آ کر , باپ کی  ہر سوچ , احساس , فکر , پریشانی , شرمندگی اور اذیّت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے* 

    *باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی , کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے*  
    *اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے ,پرانوں کو فخر سے پہننا , کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر*  
    *کبھی کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونے کی وجہ* 
    *کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتّی بجھا کر لیٹ جانا* 

    *نظریں جھکائے , انتہائی محویت سے , ڈوب کر قران کی تلاوت کرنا ,  سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن بہت دیر بعد* 

    *جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر , دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں* 
    *جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں , پًوچھ ہی لیں " بیٹا  آپ کے ہاں  گرم پانی آتا ہے ؟ "* 

    *جب قہر کی گرمی میں رُوم کولر کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے , وہ " کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی "* 

    *جوان اولاد کے مستقبل , شادیوں کی فکر , ہزار تانے بانے جوڑتا باپ , تھک ہار کر اللّه اور اس کی پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے* 
    *تب یاد آتا ہے , ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف , ایک ایک آیت پر , رُک رْک کر , بچوں کی سلامتی , خوشی , بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہوگا* 

    *ہر نماز کے بعد , اُٹھے کپکپاتے ہاتھ ,اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہونگے , ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو , نمناک آنکھوں سے اللّه کی پناہ میں دیتا ہوگا*  

    *سرِ شام کبھی کبھی , کمرے کی بتّی بُجھا کر , اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کِیا ؟*  

    *اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے , اتنی دیر سے کہ ہم اسے چْھونے , محسوس کرنے , اسکی ہر تلخی , اذیت , فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں* 

     *یہ ایک عجیب احساس ہے , جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے* 
    *لیکن یہ حقیقتیں جن پر بروقت عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولادیں ہیں* 

    *اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں
 باپ کا چھونا , پیار کرنا , دل سے لگانا , یہ تو بچپن کی باتیں ہیں* 

    *باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں* 
    *پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں , ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے ؟* 
    *پیار کے لئے اس کے ہونٹ تڑپے ہونگے* 
    *اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہوگا*

    *ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی* 
    *ہر خوائش , ہر دعا , ہر تمنا , اولاد سے شروع ہو کر , اولاد پر ہی , ختم ہو جاتی ہے*  

    *لیکن کم ہی باپ ہونگے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں*  
    *یہ ایک چُھپا ,میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے* 
    *اولاد کے  ليے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش , آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے , اور* 
    *یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے*  
    *جب ہم باپ بنتے ہیں . بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں*  
    *تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے*  

    *اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے , وقت پر دیکھ لے* 
    *تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا*