Wednesday, November 21, 2012

سمت کا تعین .....

یار آج تو میں غالب کے تمام خطوط اور اشعار کو ازبر کر کے آیا ہوں ... ان شاءاللہ آج کا پرچہ تو بہت ہی بہترین ہو گا اور میرے نمبر بھی اچھے ہی آئینگے .... یہ بات آج کا پیپر شروع ہونے سے پہلے اپنے دوستو سے کی .. تو ایک دوست نے پہلے تو حیرت سے دیکھا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا .. کافی دیر بعد جب اسکے حواس بحال ہوئے تو اس سے ہسنے کی وجہ پوچھی .... کہنے لگا ابے احمقوں کے سردار آج اردو کا نہیں حساب کر پرچہ ہے... اور تو اردو کی تیاری کر کے آگیا ... ابے صفر بھی نہیں ملے گا تجھکو ... چاہے غالب کیا دنیا کے ہر اردو شاعر کے بارے تو مفصل لکھ دے ........

ایک اور مثال بلکل آسان اور سیدھی سی صرف یاد دہانی کے لئے......
ایک شخص جس کو لاہور جانا ہے اور وہ ایک ایسی گاڑی میں سفر کر رہا ہے جو کوئٹہ جا رہی ہے بہت ہی تیز رفتاری کیساتھ تو چاہے کتنا بھی زور لگا لے لاہور قیامت تک نہیں پہنچے گا جب تک اپنا رخ اس سمت کی جانب نا کرلے جو لاہور کیطرف ہے ......

یہ باتیں اس لئے کی ہیں ... کہ ایک وہ شخص جو دین اسلام پر ہے چاہے اسکا عمل تھوڑا ہی کیوں نا ہو ان شاءاللہ کامیاب ضرور ہوگا اور ایک ایسا شخص جو دین کو سرے سے مانتا ہی نہیں مگر اسکے عمل سے انسانیت کو فائدہ بھی بہت پہنچ رہا ہو .. تو اسکو اسکے اس عمل کا بدلہ اس عارضی دنیا میں تو ضرور مل جائے گا جیسا کہ نظر بھی آرہا ہے مگر.. اگر وہ چاہتا ہے کہ ہمشیہ کے لئے کامیاب ہو تو اسکو اس دین کو جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچایا ہے لازم قبول کرنا پڑے گا ...

اور بحثیت مسلمان ہم کو یہ زیب بھی نہیں دیتا کہ ہم کسی انکار کرنے والے کا موازنہ کسی اللہ کے ماننے والے سے کریں ... کیونکہ یہ کبھی برابر ہو ہی نہیں سکتے....

اور ایسا کرنے کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آج ہمارے دلوں میں اللہ کہ وہ بڑائی عظمت اور کبیرائی نہیں رہی ہے...

اللہ ہم سب کے قلوب میں اپنی عظمت اور بڑائی راسخ کر کے غیر کا یقین نکال دے

Saturday, November 17, 2012

واقعی ہم اب وہ نہیں رہے

ہاں واقعی ہم اب وہ نہیں رہے جو بحثیت مسلمان ہم کو ہونا چاہیےتھا اور رہیں بھی کیسے .. کیونکہ کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں اس ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جس میں وہ رہ رہا ہوتا ہے.. اسی لئے اگر تمام انبیاء علیہ صلوۃ سلام کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو کم و بیش تمام انبیاء نے بکریاں چرائیں ہیں اور بکریاں چروانے کا مقصد یہی تھا کہ انکے اندر مسکنت پیدا ہو ... یہ بھی سنا ہے کہ شیر کی صرف کھال کے اپر بیٹھنے سے انسان کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے. یہ بات صرف اس لئے لکھی ہے کہ ہم کو اندازہ ہو سکے کہ انسان کی زندگی میں ماحول کے کیا اثرات ہوتے ہیں...

ویسے تو یہ بات بحیثیت مسلمان ہر شخص جانتا ہے کہ آج جو مسلمانوں کا پوری دنیا میں حال ہے اسکا کوئی اور نہیں خود ہم مسلمان ہی ذمہ دار ہیں. مسلمان اس پری طرح سے پریشان اور مجبور ہے کہ اسکا کوئی پرسان حال نہیں.. کبھی افغانستان میں, کبھی فلسطین میں, کبھی کشمیر میں تو کبھی خود اپنے ہی گھر میں, اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اللہ پاک نعوزبااللہ یہ سب نہیں دیکھ رہا اور اگر دیکھ رہا ہے تو پھر اپنے ماننے والو کی مدد کیوں نہیں کر رہا..

اصل میں اللہ پاک نے اپنی مدد کو ایمان کے ایک مخصوص لیول کیساتھ مشروط کیا ہوا ہے .... اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں اللہ تو بس ہماری مدد فرما دے باقی ہم کرینگے تو وہی جو ہمارا دل چاہے گا . تو اس طرح اللہ پاک کی مدد تو نہیں البتہ وہی ہوگا جو اس وقت ہو رہا.

اور اس بات میں کوئی شک اور کوئی ابہام نہیں میرا یقین ہے کہ جس دن ہمارا ایمان و عمل اس معیار کو چھو لینگے جو اللہ پاک کو مطلوب ہے ... تو اللہ کی پاک کی مدد آج بھی بلکل اسی طرح سے ہمارے ساتھ ہوگی جس طرح سے اللہ پاک نے ابراہیم علیہ سلام کی آگ میں مدد کی تھی, موسی علیہ سلام کی نیل میں سے گذرنے میں مدد کی تھی اور جس طرح عبدالمطلب کی مدد کی تھی ابابیل بھیج کر اور یہ سب تو اللہ کہ مخلوق ہیں واللہ اس بات میں بھی کوئی تردد نہیں کہ اللہ پاک ہماری آج بھی اسی طرح مدد کرینگے جس طرح سے کفار مکہ کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت فرمائی تھی.

مگر اسکے لئے شرط وہی ہے کے پہلے ہم کو اللہ کی ماننی پڑے گی بلکل اسی طرح جس طرح ماننے کا حق.

تو یہ بات تو بہت ہی واضح ہے کہ آج ہم بذات خود مسلمان ان حالات کے ذمہ دار ہیں اس کے لئے کسی اور کو قصور وار ٹھرانا سراسر زیادتی ہے ہم اور ہمارے اعمال خود اللہ کے مدد راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو اغیار سے کس بات کی شکایت.

بات آسان ہے بس اللہ پاک ہم سبکو یہ بات سمجھا دے ... کہ ہم اللہ کو بلکل اسی طرح ماننے جس طرح اللہ کو ماننے کا حق ہے ... اس یقین کیساتھ کہ اللہ جب ساتھ ہوگا تو چاہے سامنے کوئی بھی ہمارا کچھ بھی نہیں کر سکے گا. اور اللہ پاک نے خود بھی فرمایا ہے جسکا مفہوم ہے کہ .. غالب تم ہی رہو گے اگر تم پورے ایمان والے ہو

اللہ پاک ہم سبکو یہ بات سمجھ کر اس پر عمل کرنے والا بنا دے

آمین

Saturday, August 25, 2012

مقاصد اردو بلاگنگ...

اردو بلاگنگ کے جتنے چاچے مامے ہیں ان سے آج ایک سوال ہے کہ اردو بلاگنگ کا مقصد کیا ہے...
کیا اردو بلاگنگ کا مقصد صرف ایک دوسرے کی بینڈ بجانا ہے یا پھر صرف دوسروں کی پیروڈی کرنا ہے..

اگر کسی انسان کو اللہ نے کوئی صلاحییت دی ہے تو اسکو مثبت راستے پر استعمال کریں اور خاص کر اس وقت جب آپ کو خود یہ پتہ ہو کہ ایک جم غفیر ہوتا ہے جو آپکی بلاگ پوسٹ کا شدد سے انتظار کررہا ہوتا ہے.. تو کیوں نہ اس بات کا فائدہ اٹھا کر کچھ ایسا تعمیری اور تربیتی لکھا جائے کہ اس سے پڑھنے والا اثر لے , قاری کی سوچ تبدیل ہو اگر وہ منفی زہن رکھتا ہو تو مثبت ہوجائے, اگر قاری آپکی تحریر صرف پڑھتا ہے اور اس پر اسکا کوئی اثر نہیں تو ایسے لکھنے والوں کو دینا , چول چوہدری, کپی, رولیکس والا بابا اور نا جانے کیا کیا کہتی ہے یہ لوگ ویسے ہی کثیر تعداد میں موجود ہیں اپنے آپ کو اس میں شامل کر کے مزید چولوں کا اضافہ نہ کریں....

تو میری ان تمام اردو بلاگرز خواتین اور حضرات سے جنکے قاری لاتعدد ہیں اپنے ہنر کو خوب سے خوب اور بہتر سے بہتر طریقے سے استعمال کر کے لوگوں کی فلاح کے لئے لکھیں...

اور قارئین اردو بلاگرز سے بھی یہی التماس ہے کہ کسی بھی تحریر کو صرف اس لئے نہیں پڑھیں کہ یہ آپکے کسی عزیز دوست نے لکھی ہے بلکہ اچھی تحریر پڑھنے کا مقصد ہی یہ ہونا چاہیے بلکہ یہ نیت ہونی چاہیے کہ جو بھی اچھی بات پڑھیں گے اس پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرینگے ..

Saturday, July 21, 2012

دس بلاگرز

بلکل اسی طرح جتنے ٹی وی چینل ہیں انکی ہی مقدار کے برابر ایوارڈ ہوتے ہیں ... اور کچھ ایسا ہی سلسلہ ہمارے اردو بلگرز میں بھی سٹارٹ ہو گیا ہے جتنے بلاگرز اتنے ہی ایوارڈ ...

تو آج میں بھی آپ سب کی خدمت میں اردو کے 10 بہترین بلاگرز پیش کرنا چاہتا ہوں.... اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ اپنے پسندیدہ بلاگرز کی ایک نئی فہرست بنا کر ایوارڈ کے بندر کو بانٹ دیں.....

اچھا جی پہلے طریقہ کار کو وضع کر دوں کے بلاگرز کو کس طریقے سے منتخب کیا گیا ہے....

بہت ہی آسان فارمولہ ہے ...

1- پہلے اپنے 10 پسندیدہ بلاگرز منتخب کریں

2- ہر بلاگرز کے نام کی 10, 10 پرچیاں بنائیں

3- اور اب باری باری ہر بلاگر کے نام کے دس پرچیاں ھاتھ میں لے کر خوب ہلائیں اور انکو اچھال کر زمین پر ڈال دیں...

4- پھر اگر آپکے اپنے دس بچے ہیں تو ٹھیک اگر کچھ کمی ہے تو آس پڑوس کے بچوں کو بلا کر 10 کی گنتی پوری کریں....

5- اسکے بعد وہ بلاگرز جو پہلے ہی سے ہم سیٹ کرچکے ہیں نمبر 01 سے 10 نمبری تک اسی ترتیب سے پرچیاں اچھالیں اور ایک جگہ نوٹ کرتے جائیں کے کون نمبر 01 اہے اور کون نمبر 10 ہے

.... اب ہم آپکو بتائیں گے کہ وہ کون سے دس بلاگرز ہیں جنکو ہماری نظر نے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا ہے...

ویسے تو کسی بھی خاتون بلاگر کو ہم پہلا نمبر دے سکتے تھے لیکن جینڈر ڈسکریمینیشن بھی کوئی شئے ہے تو ... درج ذیل میں فہرست ملاحظہ ہو...

01-محسن شفیق حجازی... یہ اردو بلاگر نہیں ہیں مگر اگر انسے درخواست کی جائے تو بن سکتے ہیں ...

02‏شبیہہ فاطم پاکستانی

03- زینب واحدی بٹ

04- عطا محمد تبسم

05-منظر نامہ جو خود ایوارڈ بانٹتے کیا وقت آگیا کہ انکو بھی ایوارڈ مل گیا

06-محترم ہر دلعزیز طارق عزیز

07-جاہل اور سنکی

08- وقار اعظم

09- آزاد

10- ابو شامل

میرے حساب سے یہ دس بہترین بلاگرز ہیں... ہر ایک اپنے لکھنے میں ایک منفرد انداز رکھتا ہے... اور چونکہ یہ میرے پسندیدہ بلاگرز ہیں تو کسی کو کوئی اعتراض تو ہونا نہیں چاہیے ...

اور میری طرف سے ان تمام بلاگرز کو شبھ شبھ مبارکباد .... بلاگستان زندہ ہی باد

اور اگر کسی بلاگر کو نمبر پت اعتراض ہو تو بتا دے نمبر تبدیل کرنے کی سہولت ہے اور بچے بھی اپنے ہی ہیں جب دل چاہے گا نئی پرچیاں نکال دی جائیں گی ...

باقی میری طرف سے کچھ بلاگرز سے معذرت بھی ہے ...... :ڈ

Tuesday, June 26, 2012

واہ رے ٹیڑھی پسلی

وہ میرا دوست تھا .. کیونکہ اب میں کم سے کم اسکو اپنا دوست تو نہیں کہہ سکتا ....

ابے بھائی کون تھیں یہ خاتون جن کو تو اتنے برے انداز سے پرا بھلا حتی کے گالیاں بھی دے رہا تھا .... اچھا ... واقعی ... نہیں یار مذاق نا کر اسطرح کی گالیاں تو ہم کسی خاتون فقیر بلکہ کسی وحشیا کو بھی سرعام اس طرح نہیں دے سکتے ....

جی ہاں ہمارے ایک سابقہ دوست جن سے اتفاق سے دوستی ہوگئی تھی اپنی دادی یعنی کے اپنے ابا کی سگی اماں کو گالیاں دے رہے تھے.

وجہ پوچھی تو پتہ چلا کے انکی دادی نے انکی اماں پر بہت ظلم ڈھائے اور انکے ابا نے انکی اماں کی حمایت میں اپنی اماں کو گالیاں نہیں دیں اس لئے یہ اپنی اماں کا بدلہ اپنے ابا کی اماں سے لے رہے ہیں.....

20 سال بعد .... زرا ڈھنگ تو دیکھو آج کل کی اولاد کے بیوی کے کہنے میں آکر اپنی اماں سے ہی بدزبانی اور بدتمیزی کر رہا ہے کوئی اسکو سمجھاتا کیوں نہیں ہے ... ماں ہوں میں اسکی اگر ایک بددعا دے دی تو دنا بھی خراب اور آخرت بھی........
یہ بات اماں جی آپنے اس وقت کیوں نا سوچی تھی جب آپ اپنے مجازی خدا سے ہر وقت اس بات پر ہی جھگڑتی رہتی تھیں کہ تم اپنی اماں کو کھری کھری کیوں نہیں سناتے ہو....

واہ رے ٹیڑھی پسلی کی پیداوار کوئی کل بھی سیدھی ہے کہ نہیں

بس ثابت یہی ہوا کہ اس میں تربیت کا شدید فقدان ہے اور بچوں کو بڑوں کے معاملے میں بولنے دینے کا رجحان بھی.

Tuesday, May 8, 2012

اس ایک تھپڑ کی مار

یہ بات ہے سن 1987......
اسکول کے گراونڈ میں اسمبلی ہو رہی ہے اور تمام مستقبل ہونہار معار باآوازبلند پاکستان کا ترانہ پڑھ رہے ہیں... وہاں سے فارغ ہو کر کلاسوں میں جا پہنچے اور پڑھنا اور اپنے استاد محترم سے علم کی روشنی سے قلوب کو منور کرنا شروع کیا.
ابھی کوئی دوسرا پریڈ ہی سٹارٹ ہوا تھا کی باہر کوریڈور میں کچھ ہلچل سے مچی اور ہمارے ھیڈماسٹر صاحب کی زوردار آوازیں آنا شروع ہوئی تو ہمارے استاد جی بھی پاہر کیجانب گئے دیکھنے کے لیے کہ ماجرا ہے....

ھیڈماسٹر صاحب دسویں جماعت کے کسی لڑکے کو ڈانٹ رہے تھے اور حسب روائت کان کے نیچے بجا بھی رہے تھے...
اوہ ہو یہ تو نعیم ہے یار اسکا تو روز کا ہے یہی وطیرہ ابھی مار کھا رہا ہے اور ہاف ٹیم میں پھر گول ہو جائے گا اسکول سے اور وڈیو گیم کی دکان پر چھٹی کے ٹائم تک گیم کھیلے گا یہ ساری باتیں ہم لوگ کر رہے تھے اور کلاس کی کھڑکی سے اچک اچک کر دیکھ بھی رہے تھے........

اچانک کلاس کے بچوں کی چیخ نکل گئی ایسے کہ کسی کو اچانک بچھو نطر آگیا ہو... پیچھے کھڑے لڑکے جن کی رسائی کھڑکی تک نہیں ہو رہی تھی تجسس بھری آواز میں پوچھا کہ کیا ہوا کیوں چیخے تم لوگ................
تو ایک لڑکے نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا ... تھپڑ .... منہ پر تھپڑ ماردیا ...... نعیم نے ھیڈ ماسٹر کے منہ پر تھپڑ ماردیا ..... سب کے سامنے سارے استادوں کے سامنے ... سارے بچوں کے سامنے.... سارے چپڑاسیوں کے سامنے... اوہ سارے بچے دم سادھ کے اپنی سیٹوں پر آکت بیٹھ گئے.... باہر سے آوازیں بھی اب آنا بند ہوگئی تھیں....

تھوڑی دیر بعد استاد جی کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ ابھی جو کچھ ہوا وہ تو اپنے لوگوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا...
پھر کہا....... ھیڈماسٹر صاحب نے نعیم کو اسکول سے نکال دیا ہے ..... اسکے بعد انہوں نے دوبارہ پڑھائی سٹارٹ کردی

سن 2002 ..... ہندرہ سال کے بعد میں آفس سئ واپس آرہا تھا کہ کسی نے آواز دی ..... ہیلو بھائی کہاں ہو کبھی ہم سے بھی مل لیا کرو .... میں نے گھوم کے دیکھا تو سامنے ملگجے کپڑوں میں ملبوس ایک انتہائی کمزور اور لاگر بندہ کھڑا ہے ... کہنے لگا ہاں یار اب کہاں پہچانوں گے عرصہ بھی تو بہت ہوگیا ..... میں وہی ہوں نعیم جو تمھارے ساتھ جامعہ ملیہ اسکول میں پڑھتا تھا ..... میں نے فورا کہا اسے کہا ارے ہاں تم وہی ہو نہ جس نے ھیڈ ماسٹر صاحب کو مارا تھا ......

اس ٹائم زوربازو تھا جوانی تھی ماردیا... مگر اس ایک تھپڑ کی مار میں آج تک جھیل رہا ہوں.....
میں نے پوچھا کیا ہوا اسکے بعد تم نے کون سے اسکول میں داخلہ لیا کہنے لگا ..... مجھے اسکول میں داخلہ تو مل گیا مگر اسکے بعد میں کسی بھی کتاب کا ایک حروف بھی یاد نہیں کر سکا بلکہ اسے پہلے جو مجھے آتا تھا میں وہ بھی بھول گیا میرا دل و دماغ ایسا ہوگیا جیسے کسی سلیٹ پر لکھ کر مٹا دیا جاتا ہے......

اس ایک تھپڑ کے بدلے زندگی نے اتنے تپھڑ مارے ہیں اور ایسے مارے ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا.....

یہ سارا قصہ اس لئے یاد آگیا کہ کل کے کسی اخبار میں پڑھا کہ کچھ لڑکوں نے نقل سے روکنے پر استاد کی پٹائی کردی..... استاد تو شائد معاف کر دے... مگر اسکا جو مکافات عمل ہے وہ ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتا..

یہ بات سمجھ سے بلاتر ہے کہ کوئی اسطرح کا سوچتا بھی کیسے ہے کہ استاد کو مار دیا جائے... بقینا یہ گھر والوں کی طرف سے تربیت میں کچھ کمی یا پھر بلاوجہ اور ناجائز سپورٹ کا نیتجہ ہوتا ہے .... جسکا انجام اور کسی کو نہیں اپکی اپنی اولاد کو تادم حیات بھگتنا پڑتا ہے...

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ابا نے ہمارے استاد کو کہا تھا کہ ..... آج سے یہ ہمارا بچہ آپکے حوالے کچھ بھی غلط کرے تو چمڑی آپکی اور اگر باقی کچھ بچا تو ہم لے جائیں گے.......
اللہ ہم سب کو اپنے استادوں کی قدر اور حقیقی عزت کرنے والا بنا دے کہ اللہ نے بھی استاد کا درجہ بہت بلند رکھا ہے کہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو کسی بھی انسان کو زندگی کو گذارنے کا طریقہ بتاتی ہے.......

اللہ ہم سب کو عمل کرنے والا بنا دے .... آمین

Saturday, April 21, 2012

دل کا لگانا ......

انسان اگر صرف اپنے تخلیق ہونے کے مراحل کو ہی صرف یاد رکھ لے تو ساری زندگی بغیر کسی پریشانی کے گذار سکتا ہے........

مسئلہ شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جب انسان خالق کو چھوڑ کے مخلوق سے امیدیں لگا لیتا ہے.........

اس بار جب میں آخری مرتبہ مکہ مکرمۃ گیا تو میں نے وہاں بہت سی دعائیں مانگی مگر ایک دعا جو بکثرت مانگی وہ یہ تھی کہ "یا اللہ میرا دل اپنی جانب موڑ دے" اور اپنے سوا کوئی دوسرا دکھا ہی نہیں کہ جس سے دل لگاوں یا پھر کوئی امید لگاوں تیرے علاوہ کسی سے بھی........

اور اس بار ان شاءاللہ یہی امید ہے کہ اللہ میری یہ دعا ضرور قبول کرے گا آمین....

یہ بہت ہی ضروری ہے ہر چیز, ہر بات کی انتہا کو حاصل کرنے کے لئے کہ آپ اپنے اصل کے کتنے قریب ہو اور آج کا ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم نے اپنے اصل کو چھوڑا ہوا ہے اور پتہ نہیں کن لایعنی چیزوں میں مگن ہیں

اللہ پاک ہم سب کا دل اپنی جانب موڑ دے اور جب تک زندگی باقی ہے اس وقت تک صرف اور صرف اپنا ہی محتاج رکھے کسی مخلوق کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا نہ کروائے......

آمین ثم آمین

Monday, February 6, 2012

منانا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔۔!!!!


ہمارے ایک دوست ہیں طارق عزیز صاحب انہوں نے یہ واقعات سنائے اور کم و بیش پورے پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس کی ایک جھلک یہاں ملاحظہ فرمائیں!!!!!!
گیارہ ربیع الاول کی رات کو میں اپنی بائیک پر ریگل سنیما چوک سے بائیں (سٹیٹ بنک کی ) طرف مڑنے لگا تو آگے ساری ٹریفک بند ملی۔ ویگن گاڑیوں والے واپس موڑ کر متبادل راستوں سے نکلنے لگے، ان میں ایک ایمبولینس بھی شامل تھی، جو شاید میو ہسپتال جانے والے راستے کی تلاش میں تھی۔ معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی کا کوئی جلوس آرھا ہے جسکی وجہ سے راستے بند ہیں۔ خیر میں اطراف سے جگہ بناتے ہوئے کریم بخش اینڈ سنز کے سامنے سے نکل کر دائیں طرف والی سروس روڈ سے ہوتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ شاید ادھر سے کوئی راستہ مل جائے۔ میں آگے بڑھتا ہوا، سٹیٹ بنک کے سامنے تک جا پہنچا، جہاں ٹریفک وارڈن نے دو ایک موٹر سائیکلوں اور بائیسائیکل والوں کو ھاتھ کے اشارے سے روکا ہوا تھا کہ جب تک جلوس نہیں گذر جاتا انتظار کرو۔ تھوڑی دیر میں ہائیکورٹ کی جانب سے دو گھوڑ سوار برامد ہوئے، ان کے پیچھے چار گھوڑوں والی ایک بگھی میں پچھلی سیٹ پر ایک پیر صاحب چمکدار کلف لگا لٹھے کا سوٹ، واسکٹ اور بھاری سی پگڑی تن زیب کیے اک شان بے نیازی سے ہاتھ میں تسبیح گھماتے ہوئے براجمان تھے، برابر مین دو چھوٹے بچے جنھوں نے دولہا جیسی شیروانیاں اور کُلّے پہں رکھے تھے بھی بیٹھے ہوئے تھے، مجھے لگا کہ جیسے کسی فلم کا منظر ہو جس میں بادشاہ سلامت کی شاھی سواری مع شہزادہ گان گذر رہی ہے، ین کے پیچھے دو مُریدین باقاعدہ مورچھل ہلا رہے تھے۔ بگھی کے پیچھے مریدین کا مشعل بردار قافلہ جھومتا ہوا آرہا تھا۔ مزید 20-25 منٹ کی زحمت برداشت کر نے کے بعد رستہ کھولا گیا اور میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔ میں سارے راستہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیسا مذھبی رہنما اور جلوس ہے جسکی وجہ سے اللہ کی کتنی مخلوق کو شدید ذہنی و جسمانی کوفت اُٹھانا پڑ رہی ہے، اور جو ایمبولینس راستہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس مڑ گئی کیا پتہ اسکے مریض کو کتنی تکلیف کا سامنا اُٹھانا پڑا ہوگا، کتنے لوگ ہونگے جو کسی مجبوری کی وجہ سے جلدی کسی مقام پر جانا چاہ رہے ہونگے مگر بارہ ربیع الاول سے قبل ہی غیر متوقع طور پر انھیں رستہ بند ہونے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔
ساتھ والے محلے کے ایک دوست بتا رہے تھے،میرے آس پاس کےمحلوں کے فارغ لڑکے سارہ دن رسوں سے راستے روک کر آنے جانے والوں سے زبردستی چندہ وصول کر رہے تھے، رات گئے تک یہ مشغلہ جاری رہتا، میں گذرتے ہوئے کچھ ایک کو نماز کی دعوت دی کہ بھائی جو برے لڑکے ہیں وہ سب آو پہلے نماز پڑھ لو پھر آکر باقی کا کام کر لینا،تب تک یہ چھوٹے لڑکے پہرہ دیں گے۔ بولے لو جی یہ جو ہم دین کا کام کر ہے ہیں یہ کیا ثواب کا کام نہیں، ہم اگر یہ چھوڑ کر چلے گئے تو چھوٹے لڑکے پتہ نہیں کتنے پیسے اپنی جیب میں ڈال لیں گے۔میں نماز سے فارغ ہو کر گھر کی جانب آرہا تھا، میں نے پوچھا کہ کتنا جمع کر چکے، اور کتنا کرو گے? بولے تقریبا" آٹھ ہزار ہونے کو ہے بس کل آخری دن ہے ہم نے لازما" 12 ہزار کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ پوچھا 12 ہزار کیوں? بولے لو جناب ساری گلی آخر تک سجانی ہے، لائٹین جھنڈیاں وغیرہ کا حساب لگایا ہے، وہ تقریبا" 10 ہزرا کی آئیں گی، اور 2000 کا ہم سب لڑکے جنھوں نے اتنی محنت کی ہے وہ عید میلاد النبی والے دن پنڈارہ بنا کر کھائیں گے، 11-12 کی درمیانی رات سب لڑکے شام سے ہی سجاوٹ میں لگے ہوئے تھے اور رات بھر جاگ کر کام مکمل کیا، میں فجر کی نماز کے لیے نکلا تو دیکھا کے تقریبا" سارے ہی لڑکے شب بیداری کی مشقت سے تھک کر بنائے گئے سٹیج پر بے سُدھ سو رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے، تو کیا دُنیاوی رسوم کے لیے نماز چھوڑ کر نبی پاک کی آنکھوں کو تھنڈک پہنچا رہے ہیں? کل قیامت کو جب اللہ پاک نماز کا ھساب لے گا تو کیا یہ عذر پیش کریں گے کے چندہ جمع کرنے اور سجاوٹ لگانے، پھر جشن منانے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی ?

میں ساتھ والے محلے میں ایک دوست کی طرف گیا واپسی پر چھوٹی گلی کے اندر سے آنے کی بجائے مین روڈ کی طرف سے نکل آیا کہ چلو ذرا رونق ہی دیکھتا چلوں۔ ایک طرف گلی میں لوگوں کا ہجوم دیکھا تو آگے بڑھ کر دیکھا تو کچھ نوجوانوں نے (جنھون نے چہروں پر سبز پینٹ کیے ہوئے تھے، سٹیج پر بڑے سائز کے ڈیک لگا کر ڈسکو پرفارم کر رہے تھے، لوگ تالیاں بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے جس سے پرفارمرز کے جوش میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ میں پاس کھڑے ایسے ہی بہروُپ میں کھڑے ایک نوجوان سے کہا کہ آج کے اس مقدس دن میں آپ لوگ انڈین گانوں پر پرفارم کر کے کیا خدمت انجام دے رہے ہیں? مسجد میں جائیں نماز پڑھیں، دورد شریف کی تسبیحات پڑہیں۔ نوجوان نے غصہ سے کہا، بھائی صاحب نعت کو انڈین گانا کہہ کر مذاق تو نہ اڑائیں، ہم اتنے بھی گئے گذرے نہیں کہ عید میلادالنبی والے دن انڈین گانے بجائیں، میں ذرا غور سے سُنا تو واقعی الفاط تو کچھ مدحت نما ہی تھے مگر ان کی ادائیگی اورڈسکو طرز کی میوزک بیٹ کی وجہ سے وہ کوئی انڈین ڈسکو گانا ہی محسوس ہو رہا تھا۔ میں پیچھے کی جانب مڑا ہی تھا کے ساتھ کھڑا ایک باریش آدمی ماتھے پر تیوری ڈالتے ہوئے کہنے لگا کیا بات ہے?۔ میں نے کہا کچھ نہیں بس ذرا بچے کو سمجھا رہا تھا کہ آج کے دن ناچ گانے کی محفلون کی بجائے اللہ اللہ کیا جائے تو بہتر ہوگا ، وہ صاحب تنک کر بولے، جناب یہ بچے اپنے سٹائل میں حضور پاک کی آمد کا جشن منا رہے ہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہو رہی ہے، کہیں آپ ‘ وہابی" تو نہیں?۔ ۔ "کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا"

میں اور میری مسسز حسب معمول رات کا کھانا کھا کر باہر والک کے لیے نکلے، آج بارہ ربیع الاول عید میلادالنبی کی وجہ سے سبھی راتے روشن منور تھے، بڑا اچھا لگ رہا تھا کہ کافی عرصہ بعد بجلی مسلسل آرہی ہے اور چھوٹے چھوٹے قمقموں کی سجاوٹ سے گلیاں محلے جگمگا رہے تھے، ہم اپنے روٹین کے راستے سے ہوتے ہوئے اگلے موڑ کی طرف جا رہے تھے، جہاں ایسے موقعوں پر کوئی رش نہیں ہوتا، مگر آج خلاف توقع اگلے چوک سے پہلے ہی راستے میں رش نظر آیا، حالانکہ سجاوٹیں وغیرہ تو گلیوں میں تھیں اور بڑا روڈ کھلا ہوا ہی تھا مگر اس چوک سے پہلے گلی سے باہر آکر چند ایک باریش بزرگوں نے مائیک ہاتھوں مین لیے لوگوں کو جمع کر کے نعرے لگوانے شروع کیے ہوئے تھے روڈ کی دونوں طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش لگ گیا، میں نے بیگم کو ایک طرف کھڑا ہونے کو کہا اور ایک باریش نوجوان کو کہا کہ بھائی آپ ذرا آگے ہو کر مائیک والے صاحب سے کہیں کے یہ کام اگر آپ گلی کے اندر جہاں سجاوٹ کی ہوئی ہے وہان جا کر یہ نعرے لگوا لیں تو لوگوں کے گذرنے کا راستہ تو بلاک نہین ہوگا۔ نوجوان نے خفگی سے گھورتے ہوئے کہا ، جناب آج عید میلاد النبی کا دن ہے آپ لوگوں کو کس نے کہا تھا کہ آج باہر نکلو، ہم نے کوئی روز روز تو جشں منانا نہین ہوتا، اس پر بھی آپ لوگ ہمیں روک ٹوک شروع کر دیتے ہیں، اور دوبارہ مولانا صاحب کے نعرے :غلام ہیں غلام ہین"کے جواب میں "رسول کے غلام ہیں" کا جواب دینے لگا۔ میں اسکا جواب سن کر کچھ کہے بغیر بیگم کو ساتھ لیے واپس مڑ گیا، پیچھے سے آواز آ رھی تھی" غلامیئ رسول میں موت بھی قبول ہے، جو ہو نہ عشق مصطفیٰ تو زندگی فضول ہے۔، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں والے جن کے ساتھ خواتین بھی تھیں وہ بھی مایوس ہو کر واپس ٹرن کر رہے تھے جنیھں اب "عاشقان رسول" کی وجہ سے لمبا رستہ کاٹ اس چوک کی طرف جانا تھا، جس سے چند قدم پہلے غلامان رسول نعرے لگانے میں مصروف تھے۔ واقعی " جو ہو نہ عشق مصطفیٰ تو زندگی فضول ہے"۔ - حاجی صاحب نے اپنی گلی برقی قمقموں سے بھری ہوئی تھی جس مین 100 واٹ ک بلبوں کی کافی تعداد بھی جگ مگ کر رہی تھی، میں نے گذرتے ہوئے حاجی صاحب سے کہا واہ جناب بڑی رونق لگائی ہوئی ہے آپ نے، بولے: بس جناب عشق نبی پاک کا تقاضہ بھی نبھانا ضروری ہے نا، میں آن کی پشت کی جانب دیکھا جہاں سے لایئٹوں کی تاریں نکل رہی تھیں، چھوٹی تاریں تو ھاجی صاحب نے اپنے گھر سے اکسٹینشن لے کر لگائی ہوئی تھیں جبکہ بڑے 100 وات کے بلبوں کی تاریں بجلی کے میٹر سے پہلے "کنڈی" میں لگائی ہوئی تھیں۔ میں تعجب سے پوچھا حاجی صاحب یہ کیا، یہ تاریں تو سرکاری تار میں پھنسا کر ڈائیرکٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ بولے : لو جناب ہم نے کوئی ذاتی تقریب کے لیے تھوڑی یہ بجلی کے بلب روشن کیے ہوئے ہیں، عید میلادالنبی کی سجاوٹ کے لیے تو پھر "کنڈی" ہی لگانی پڑتی ہے نہ ۔ میں نے دل میں سوچا کہ واہ، نبی پاک کی ذات کو خراج تحسین اور وہ بھی چوری کی بجلی سے????? اور گھر کی جانب چل دیا۔

Tuesday, January 10, 2012

تلافی نہیں!!!

اس کو آج کل کا ایک نہایت ہی سنگین المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے انتقال پر خوش ہونا۔

اور کسی بھی ایک فرد کے کردہ گناہ کو بنیاد بنا کر اسے متعلق اور منسلک ہر فرد کو اسکا شریک کرنا بھی نہات ہی افسوسناک عمل ہے۔

اور یہ دونوں ہی باتیں انتہائی خطرناک ہیں جن کا ادراک ابھی تو ہمکو نہیں ہوتا مگر اس دن جس دن ماں اپنے جگر کے گوشوں کو بھی بھول جائے گی تو اس دن ہمارا یہ عمل بھی ہمارے لئے انتہائی مشکل کا باعث بنے گا۔

اس لئے کسی ایک فرد کے گناہ کو بنیاد بنا کر ساری قوم کو مورد الزام نہیں ٹھرانا چاہیے
میں نے عبد الوہاب صاجب سے خود سنا ہے کہ اگر کسی فرد نے یہ کہا کہ تمام پنجابی برے ہیں یا فلاں قوم پوری کی پوری ایسی ہے تو روز محشر اس قوم کے ایک، ایک فرد سے اپنے اس کہے کی جس میں وہ پوری قوم مبتلا نہیں تھی اسکی معافی نہیں مانگے گا تب تک خلاصی نہیں ہوگی۔

تو اللہ ہم سبکو کو اپنی حفظ امان میں رکھے اور ہر اس عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمارے لئے اس دنیا میں اور اسکے بعد آنے والی دنیا میں پریشانی کا سبب نا بنے
آمین

Wednesday, January 4, 2012

ٹیگ در ٹیگ پوسٹ

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی نے مجھے بھی ٹیگ کیا اور جہاں تک میری یاداشت کام کر رہی 2009 سے مستقل بلاگ پڑھ رہا ہوں پہلے میری نظر سے ایسی کوئی ٹیگنگ پوسٹ نہیں گذری خیر اچھی بات روایت ہے جاری رہنا چاہیے

مجھے تو ٹیگ کیا ہے حجاب نے

م- 2012ء میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟

اپنی اماں اور اھلیہ کیساتھ حج ان شاءاللہ تعالی

۔ 2012ء میں کس واقعے کا انتظار ہے؟

مسلمانوں میں اتحاد ہونے کا انتظار ہے


3۔ 2011ء کی کوئی ایک کام یابی؟

اللہ کا شکر ہے بغیر کسی نقصان کے سال گذر گیا :)


4۔ 2011ء کی کوئی ایک ناکامی؟

کوئی نہیں


5۔ 2011ء کی کوئی ایک ایسی بات جو بہت یادگار یا دل چسپ پو؟


4 اگست 2011 کو اللہ نے بیٹی دی

6۔ سال کے آغاز پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟

افففففف ٹینشن آفس کی


7۔ کوئی چیز یا کام جو 2012ء میں سیکھنا چاہتے ہوں؟

زندگی کیسے صراط مستقیم پر آجائے


یہ تو تھے میرے جوابات اب میں ٹیگ کرتا ہوں کچھ ساتھی بلا گرز کو


اور میں ٹیگ کرتا ہوں اپنے ساتھی بلاکرز کو ڈفر

تانیہ بی بی

عادل بھیا

اہنا اوے لالا
خراسانی صاحب

اب تمام کے تمام لوگ جوابات دے دییں

اور سب آخر میں سب شبہیہ کی بکواس

Monday, January 2, 2012

2 جنوری

میں نے اسکو پہلی مرتبہ 2001 میں پاکستان کی ایک فرم میں بطور آیچ آر اسسٹنٹ کے دیکھا تھا اس وقت کچھ خاص دھیان بھی نہیں دیا تھا کیونکہ اس وقت میں دفتر کا کام بہت دل لگا کر کیا کرتا تھا ۔۔۔۔ اور چونکہ وہ ایچ آر میں تھی اور اپنا ٹریک ریکارڈ ماشاءاللہ سے آج تک اتنا شاندار ہے کہ وقت ہر آفس پہنچنا تو کبھی سیکھا ہی نہیں اس لیے ایچ آر والوں سے تو آلویز 36 کا آنکڑا رہتا ہے ۔

پھر کچھ ایسا ہوا کہ میں کمپنی چھوڑ کے 2002 دبئی چلا گیا اور جو اسکو پہلے مرتبہ دیکھا تھا وہ دبئی کی رنگنیاں دیکھ کر دل اور دماغ سے ایسے صاف ہوئی جیسے کچھ تھا ہی نہیں اور اس وقت تک واقعتاً کچھ نہیں تھا۔



دبئی میں 2 سال گذار کر واپس پاکستان آگیا اور جاب کی تلاش شروع کی جہاں پہلے جاب کرتا تھا وہاں بھی گیا تو پتہ چلا وہاں فی الحال کوئی آسامی خالی نہیں ۔ وہیں پر ایک دوست نے کسی دوسری فرم کا بتایا تو میں وہاں چلا گیا۔

یہ آفس ڈیفنس میں واقع ہے وہاں پہنچ کر جس پہلی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو دینا کے گول ہونے کا ہقین آگیا جی ہاں یہاں بھی وہی ایچ آر والی موجود تھی بس فرق صرف اتنا تھا کی پہلے والی کمپنی میں وہ اسسٹنٹ تھیں اور یہاں پر انکے اسسٹنٹ ۔

بس اب بہت دیٹیل میں نہیں جاونگا، جولائی 2004 کو پہلی مرتبہ میں نے اپنی ایچ آر منیجر کو پرپوز کیا اور 2 جنوری 2005 کو وہ میری زندگی میں شامل ہوگئ۔ آج ہماری شادی کی سالگرہ ہے اس بات کو ماشاءاللہ سے سات سال ہوچکے ہیں اس دوران پہت سی جنگیں اور امن معاہدے ہوئے اور اللہ کا شکر ہے بہت اچھی گذر رہی ہے اور ان شاءاللہ آگے بھی اچھی بری جیسی بھی گذرے گی اکھٹا ہی گذرے گی ساتھ میں اپنے بچوں کے۔

مگر ایک بات ہے زندگی کے بہترین دن جو تھے وہ جولائی 2004 سے لیکر جنوری 2005 تک کے تھے اسکے بعد سے زندگی مزید سے مزید پہترین ہوگئ اور اس بات کو کہتے ہوئے مجھے فخر ہے کے مجھے ایک انتہائی مخلص غمگسار اور چاہنے والی شریک حیات ملی اللہ اسکو ہمہشہ خوش رکھے