Tuesday, May 24, 2011

کیا قرآن پچھلی کتابوں سے کاپی شدہ انسانی کلام ہے ؟

ہمارے ایک درینہ دوست نے وہ تحاریر جو کہ آج کل لوگوں کے زہنوں کو منتشر کرنے کے لیے لکھی جا رہی ہیں ، کہ جواب میں کچھ تحقیق کری ہیں ان شاءاللہ ان کی یہ تحریر بہت فائدہ دے گی کچھ اقتباسات یہاں لکھ دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا قرآن پچھلی کتابوں سے کاپی شدہ انسانی کلام ہے ؟

یہ بہتان سب سے پہلے مکہ کے کفار و مشرکین نے قرآن پر لگایا تھا، اللہ نے قرآن ہی میں انکے ان تمام وساوس کا جواب دے دیا تھا، پھر بھی بعد میں یہود ونصاری نے باوجود اپنی کتابوں میں ہی اس کتاب کے سچی ہونے کی گواہیوں کے’ محض اپنے عناد و تکبر کی وجہ سے اسے دوہرایا اور آج بھی انکے پیروکار جان بوجھ کر یا جہالت میں ان وساوس کو کاپی کرتے آرہے ہیں۔

باقی کی تحریر اس بلاگ پر پڑھی جاسکتی ہے اور تبصرے بھی اس بلاگ پر کئے جا سکتے ہیں


جزاک اللہ خیر

Tuesday, May 10, 2011

جو یہاں کرو تو حرام اور وہاں ہوا تو حلال

یہ بھی صرف ایک خبر ہے اور صرف یہ جانے کے لئے کہ ھیتھرو پر کتنے فیصد روشن خیال اور ترقی پسند لوگ ہوتے ہیں اور کس ملک کے شہر میں موجود ہے یہ پوائی اڈاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے فیصد تاریک خیال بستے ہیں ان روشن خیالوں کے درمیان

اور ایک بات اور برائے مہربانی اعداد و شمار مصدقہ ہونے چاہیے نیز یہ بھی اگر معلوم چل جائے کہ اسکی آخر وجہ کیا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور آخر میں ایک بات یہ کہ اگر اسطرح کبھی بھی کہیں بھی مردوں کا کنوارہ پن جانچا ہے انہوں نے تو وہ حوالہ بھی مل جاتا تو مشکل آسان ہو جاتی بہت سے لوگوں کی

انیس سو ستر کے عشرے میں برطانیہ کے ويزا ضابطوں کے تحت جنوبی ایشیائی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کرنے کے بارے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ویزا دینے کے لیے لڑکیوں کی دوشیزگی کی جانچ کا معاملہ جتنا سمجھا جا رہا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔

فروری 1979 میں کنوارے پن یا دوشیزگی کی جانچ کے بارے میں انکشاف اور ہنگامہ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ حکومت نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس طرح کے ایک دو معاملے ہوئے تھے لیکن آسٹریلیائی محققوں کے ہاتھ بعض ایسی فائلیں آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کم ازکم 80 بھارتی خواتین کو برطانیہ آنے کے لیے اس ہتک آمیز عمل سے گزرنا پڑا تھا۔

اس انکشاف کے بعد اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت معافی مانگے۔

برطانوی قانون کے تحت تیس برس گزرنے کے بعد اس طرح کی فائلوں کی کاپی نکالنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اسی کے تحت آسٹریلیائی محققوں نے کئی محکموں سے دستاویزات حاصل کی ہیں۔

ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک سے شادی کر کے برطانیہ میں جا کر بسنے والی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کے ایک دو نہین بلکہ متعدد واقعات ہوئے تھے اور یہ جانچ سرکاری پالیسی کا حصہ تھی۔

لندن سے چھپنے والے اخبار ''گارڈین '' میں خبر شائع ہو نے کے بعد فروری 1979 میں برطانوی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے جانچ کے عمل پر پابندی لگا دی تھی۔

ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے شعبۂ قانون کے محقق اے ون سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت برطانوی حکومت نے بس ایک دو ایسے واقعات کی بات تسلیم کی تھی لیکن یہ سچ نہیں تھا۔

سمتھ نے کہا ’برطانیہ کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزیراعظم کے دفتر سے ہم نے جو کاغذات حاصل کیے ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ 1970 کے عشرے میں بھارت میں دلی اور مُمبئی میں 80 خواتین کی جانچ ہوئی تھی۔ ’ہمارے پاس پاکستان اور بنگنہ دیش کے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جتنا سمجھا جا رہا تھا یہ معاملہ اس سے کافی بڑا ہے‘۔

فروری 1979 میں اس معاملے کے سامنے آنے پر جوائنٹ کاؤنسل آن ویلفیر آف مائگرینٹس نے اس کی کافی مخالفت کی تھی۔

1960 میں قائم کیے گئے اس ادارے کی قانونی معاملات کی سربراہ حنا ماجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی شرمناک معاملہ ہے اور جس کے لیے حکومت کو معافی مانگنی چاہیے ۔

وہ کہتی ہیں ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جنوبی ایشیائی خواتین سے ہونے والی ان ذیادتیوں پر معافی مانگے کیونکہ یہ ایک شرمناک اور نفرت انگیز عمل تھا۔ اس بات کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کیونکہ یہ عمل خواتین، مائگرینٹس اور انسانی حقوق کے تئیں اہانت کے جزبات کا عکاس تھا‘۔

آسٹریلیائی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی نوجوان لڑکیوں کے کنوارے پن کی میڈیکل جانچ کے واقعات دلی اور مُمبئی میں واقع ویزا دفاتر میں اور کئی بار برطانیہ پہنچنے پر ہیتھرو ائر پورٹ پر بھی پیش آئے تھے۔

Tuesday, May 3, 2011

مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ

میں کیا اور میری اوقات کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر چاہوں بھی تو اس بات پر اللہ کا شکر ادا نہیں کر سکتا چاہے ساری عمر ایک ہی سجدہ میں کیوں نہ گزار دوں کے ایک سانس اندر گیا اور پھر واپس آجائے باہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ میری ماں،باپ کی، اور میری اہلیہ اور میرے ان تمام بے شمار دوستوں کی دعاوں کا نتیجہ ہے کہ جب بھی دل میں خواہش جنم لیتی ہے کہ بیت اللہ کی سعادت کی جائے یا آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رودضہ پر نور کی سعادت کی جائے تو یقین جانئے اللہ پاک بغیر کسی مشقت کے خیر و عافیت کے ساتھ پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں جب تک یہاں نہیں آیا تھا تو اکثر یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ یا اللہ صرف ایک مرتبہ اپنے گھر کی اور روضہ رسول کی زیارت کر وادے کہ آخر کو ایک مرتبہ دیکھوں تو صحیح اس مقام اس جگہ کو کہ جس کی جانب رخ کر کے اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ اس شہر اور اس ہستی کے روضہ کا دیدار تو کروا دے یا اللہ کہ جس کی وجہ سے یہ کائنات تخلیق کی گئی اور جو محسن انسانیت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمداللہ ثمہ الحمداللہ، اللہ پاک نے یہ سعادت بخشی کہ کئی مرتبہ جانا ہو چکا ہے دونوں مقدس مقامات پر اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یقین جانئے میں جب بھی جاتا ہوں تو یہ لگتا ہے کہ پہلی مرتبہ آہا ہوں کہ دیدار سے دل ہی نہیں بھرتا اور میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا اللہ کم سے کم ایک مرتبہ ہر مسلمان کو حج بیت اللہ اور روضہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب فرمائے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جانے سے پہلے ان تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہوں کہ جنکو میری وجہ سے دانستہ اور غیردانستہ تکلیف پہنچی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہم سب کے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرمائے