Wednesday, December 17, 2014

بنو قریظہ کے واقعے سے استدلال


معلوم نہیں، آرمی اسکول کے بچوں کو قتل کرنے کے حق میں بنو قریظہ کے واقعے سے استدلال، ذمہ داروں نے واقعی کیا ہے یا نہیں، لیکن اگر کیا ہے تو یہ افلاس علم کے باوجود تحکم اور خود اعتمادی کے اسی رویے کی ایک مثال ہے جو اس پورے طبقے میں علی العموم دکھائی دیتا ہے۔ بنو قریظہ کے جن مردان جنگی کے قتل کا فیصلہ، خود انھی کے مطالبے پر مقرر کردہ حکم نے کیا اور جو خود تورات کی شریعت کے مطابق تھا، وہ یہودیوں کے کسی مدرسے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل نہیں کر رہے تھے جن پر اچانک جا کر دھاوا بول دیا گیا اور کہا گیا کہ زیر ناف بال دیکھ کر بالغوں اور نابالغوں کو الگ کر دیا جائے اور بالغوں کو قتل کر دیا جائے۔ بنو قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور ایک نہایت نازک موقع پر مدینہ پر حملہ آور مشرکین کے ساتھ ساز باز کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی سازش کی تھی۔ ان کا باقاعدہ جنگی قوانین کے مطابق محاصرہ کیا گیا اور پھر انھی کے مطالبے پر انھیں اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کی اجازت دی گئی کہ ان کے متعلق فیصلہ ان کے اپنے منتخب کردہ حکم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کروایا جائے گا۔ چونکہ بنو قریظہ کی پوری آبادی اس جنگی جرم میں ملوث تھی، اس لیے ان کے عورتوں اور بچوں کوچھوڑ کر تمام مردان جنگی کو یہ سزا دیا جانا کسی بھی لحاظ سے جنگی اخلاقیات کے منافی نہیں تھا۔ اس سے یہ استدلال کرنا کہ دشمن کے کیمپ سے متعلق غیر مقاتلین پر اور وہ بھی ایک تعلیمی ادارے میں جمع ہونے والے معصوم بچوں پر حملہ آور ہو کر انھیں قتل کر دینا، سنت نبوی کی پیروی ہے، جہالت اور سفاہت کی ایک عبرت ناک مثال ہے۔

Tuesday, December 2, 2014

ناسٹیلجیا ۔۔۔۔۔


ہمارے دوست ابو نجمہ سعید صاحب کی جانب سے ایک بہترین قسم کا اظہار اور ماضی کی یاد۔۔۔۔۔۔ تمام اردو بلاگرز حضرات سے انکی شخصیت کوئی دھکی چھپی نہیں ہے۔۔۔۔۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔ سچ کہا جس نے کہا کہ آدمی کو مکان اور اس کے متعلقات سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی عزیزوں سے۔ واٹس ایپ پر ویڈیو اور تصاویر موصول ہوئیں، اس حسرت ناک خبر کے ساتھ کہ آم کا پیڑ کاٹ دیا گیا۔ ہائے ہائے!!! خبر کیا تھی اک تیر پُر ستم تھا جو سیدھا جگر میں پیوست ہوا۔ ایسا لگا کہ آرا پیڑ پر نہیں ہمارے دلوں پر چلا۔ کاٹا اسکو نہیں ہمیں گیا۔ اکھاڑا اسکو نہیں ہمیں گیا۔ شاخیں اسکی نہیں بازو ہمارے کاٹے گئے۔اوندھے منھ وہ نہیں ہم گرے۔ ہائے ہائے!! آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔ تو پکارے ہائے گل، میں چلاؤں ہائے دل۔ یہ تو معلوم نہیں کب سے تھا وہ ۔ البتہ آنکھ جب سے کھولی تب سے تھا وہ۔ کرکٹ بھی اسی کی چھاؤں میں کھیلی، کیریاں بھی اسی کی کھائیں۔ اسی کے نیچے اپنے دادا کو پوتوں کا قرآن سنتے دیکھا۔ ان کے بعد والد صاحب اور چچاؤں کو دیکھا۔ آنے والے مہمانوں کو دیکھا۔ ہونے والی مٹنگوں کو دیکھا۔دی جانے والی اذانوں کو دیکھا۔ پڑھی جانے والی نمازوں کو دیکھا۔ ہونے والی شادیوں کو دیکھا۔ رکنے والی گاڑیوں کو دیکھا۔ بہنے والے پانیوں کو دیکھا۔پانی پینے والے بیلوں کو دیکھا۔ نہلائے جانے والی بھینسوں کو دیکھا۔ تیرنے والے ہم عمروں کو دیکھا۔ وضوء کرنے والے بزرگوں کو دیکھا۔پڑھے جانے والے قرآنوں کو دیکھا۔ ہونے والے دوروں کو دیکھا۔ دینے والے مالکوں کو دیکھا۔ لینے والے مزدوروں کو دیکھا۔ میٹنگ ہال بھی تھا وہ۔ مردان خانہ بھی تھا وہ۔ مہمان خانہ بھی تھا وہ۔گاڑیوں کا گیراج بھی تھا وہ۔ آنے والے مرد مہمان اسکے نیچے بچھی چارپائی پہ بیٹھتے اور عورتیں گھروں میں چلی جاتیں۔ چائے ناشتہ جو ہوتا وہ اس کی چھاؤں میں۔ شادی بیاہ کے ہنگامے جو ہوتے وہ اس چھاؤں میں۔ اذانیں جو ہوتیں وہ اسکی چھاؤں میں۔ نمازیں جو ہوتیں وہ اسکی چھاؤں میں۔ صرف دو موقعوں سے ویران ہوتا۔ ایک برسات میں دوسرے رات میں۔ اول الذکر کی وجہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ثانی الذکر کی وجہ آپ جانتے ہی ہونگے ۔ واٹس ایپ پر جو آج خبر موصول ہوئی تو ایسے لگا جیسے دادا کا ایک بار پھر انتقال ہوگیا۔ لگنا بھی بجا ہے کہ آخر تھا بھی وہ دادا ہی کی عمروں کا۔ دادا ہی طرح ہمیشہ دیا لیا کبھی نہیں۔ حتی کہ مرتے ہوئے بھی نہال کرگیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ سچ کہا جس نے کہا کہ آدمی کو مکان اور اس کے متعلقات سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی عزیزوں سے۔ہائے ہائے!! آ عندلیب! مل کے کریں آہ و زاریاں۔ تو پکارے ہائے گل، میں چلاؤں ہائے دل۔ حالت غم میں ہوں یارو! تعزیت کرتے جاؤ یارو!

Wednesday, November 26, 2014

کیونکہ میں پاکستان ہوں۔۔


ہمارے ایک بہت ہی قریبی دوست حافظ عبدالناصر کی لکھی ہوئی ایک بر اثر تحریر آپ سب کے لئے بیشِ خدمت ہے ۔۔۔

کیونکہ میں پاکستان ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں لگتا ہے ، کہ کسی نے کراچی کو الگ کرنے کی بات کی تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے ، کہ جیت ہار کے فیصلے پر کسی نے پنجاب کو برا بھلا کہا ، تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔ تمہیں لگتا ہے ، کہ مری غریب جاہل عوام کو بے غیرت کہا گیا تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔
تمہیں لگتا ہے، کہ لوگوں نے جب پاکستان کی امید کے مرنے کی بات کی تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔
تمہیں لگتا ہے، کہ جیتنے والوں کی دھاندلی کا دکھ نہیں ہے مجھے۔۔۔ تمہیں لگتا ہے، کہ ہارنے والوں کے حوصلوں کی تکلیف مری تکلیف نہیں ہے۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے۔۔۔ بلوچ مرے بلوچ نہیں ہہیں۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے، کہ سرائیکیوں کی ہار کا نعرہ مجھے چھلنی نہیں کر رہا۔۔تمہیں لگتا ہے، کہ آرمی کو چوڑیوں کی پیشکش مرا زخم نہیں ہے۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے، کہ انتخابی قافلوں پر حملوں میں مری جان نہیں گئی۔۔۔۔ تمہِیں لگتا ہے کہ ریلیوں پر مرنے والوں کا دکھ نہیں پہنچا مجھ تک۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے ، کہ ایوانوں تک پہنچنے والے بے ضمیروں پر مجھے غصہ نہیں ہے۔۔۔ تمہیں لگتا ہے،ن، پ ق ، انصاف کے خاندانی حکمران مری آنکھوں میں نہین چھبتے۔۔۔۔۔۔
مجھے تم سب سے دکھ ہے ، مگر تم سب میں ہی مرا حوصلہ ہے۔۔۔۔ میں پاکستان ہوں۔۔۔۔ امید مرے جسم میں خون بن کر دوڑتا ہے۔۔۔۔ اور میں کبھی مایوس نہیں ہوتا۔۔۔۔تب بھی نہیں جب تم تھکے ٹوٹے ہارے چہرے اور بچوں جیسی چیخ پکار لے کر شور مچانے لگتے ہو۔۔۔۔ کیونکہ میں تمہاری ماں ہوں۔۔۔۔۔ تم میری اولاد ہو۔۔اچھی بری ہو، نکمی ہوشیار بھی ہو۔۔مگر مری اپنی ہو۔۔۔۔۔ تم مجھے دکھ بھی دو، مگر مری جھولی میں تمہارے لئے دنیا بھر کی دعائیں اور محبت ہے۔۔۔۔۔
بس ، اپنے اپنے کام کرنا، مگر یاد رکھنا۔۔۔۔ مری محبت تب تک ہے، جب تک میں ہوں۔۔۔۔ مری محبت کو مرنے نہ دینا۔۔۔۔ میں اپنی نہیں تمیاری زندگی مانگ رہا ہوں۔۔۔۔ کیونکہ میں پاکستان ہوں۔۔۔۔ بہت دکھ میں ہوں، مگر امید مری رگوں میں اب بھی خون بن کر دوڑ رہی ہے۔۔۔۔ اور مجھے مری ساری اولاد اپنی غلطیوں سمیت عزیز ہے۔۔۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد۔۔۔۔

تو آپﷺ ذکر قیامت تک بلند رہے گا انشاء اللہ


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے کا جب انتقال ہوا تو عرب کے کفار بہت خوش ہوئے ، خونی رشتوں کی عرب میں بہت اہمیت تھی مگر ابو لہب تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا ، جب یہ تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آئی تو اسکی تو جیسے عید ہوگئی۔ صبح ہوئ تو وہ گھر گھر یہ خبر پہنچانے لگا (ابتر محمد اللیلتہ) آج رات محمد کی جڑ کٹ گئی اوروہ لا ولد ہوگئے (نعوذ باللہ )
اس کے بعدمکہ کے ایک سردار عاص بن وائل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ابتر کا لفظ خاص کر دیا جب بھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا تو وہ فورا" منہ بنا کر کہتا کہ ان کی کیا بات کرتے ہو وہ تو ابتر (جڑ کٹے ) آدمی ہیں (نعوذ باللہ ) اس نے اس ابتر والی بات کو خوب پھیلایا یہ بات دو دھاری تلوار کی طرح تھی اس سے انکا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے صاحبزادوں کے انتقال کا غم ستاتا رہے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم سے کٹ کر اس درخت کی مانند ہوگئے ہیں جس کی جڑیں کٹ گئی ہوں اور وہ گرنے ہی والا ہو ( استغفراللہ )
عاص بن وائل طنزا" کہتا یہ بے نسل رہ گئے انکا کوئی نام لیوا نہیں انکا نام مٹ جائے گا ، مسلمان جدھر سے گزرتے تو کفار ابتر ابتر کہہ کر انکا مذاق اڑاتے، جس سے مسلمانوں کو بہت تکلیف ہوتی ،
اللہ تعالی نے لفظ ابتر کے مقابلے میں سورۃ کوثر کو نازل فرمایا ،
اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا پس تم اپنے رب کی نماز پڑھو اور قربانی کرو ، بے شک تہمارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے
جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخالفین کے سامنے پڑھی تو وہ اس کے ادبی حسن سے مبہوت رہ گئے لیکن انہیں لفظ کوثر کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ، چنانچہ وہ لفظ ابتر کو بھول گئے اور لفظ کوثر کے پیچھے پڑ گئے کہ اسکا کیا مطلب ہے ،
لوگ ایک دوسرے کو پوچھنے لگے کہ یہ کوثر کیا ہے، لوگ ماہرین کلام کے آگے پیچھے پھرنے لگے ہر بازار ، ہر گلی ، ہر کوچہ ، ہر محفل میں بس ایک ہی لفظ کی تکرار رہ گئی ، لفظ ابتر کے مقابلے میں لفظ کوثر کا صوتی حسن بہت زیادہ ہے حتیٰ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں سے رجوع کیا اور لفظ کوثر کا مطلب پوچھا ، اس طرح لفظ کوثر نے مخالفین کے پروپیگنڈے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ، وہ مخالفین جو ابتر ابتر کہتے پھرتے تھے ان پر ایک زبردست ضرب لگائی کہ تم مخالف ہی جڑ کٹے ہو ، اللہ نے اپنی نبی کو تو خیر کثیر ، اللہ کا دین اور حوض کوثر عطا کیا ، اولاد کس کی باقی رہی ہے یہ تو سب مٹ جانے والے ہیں ،
اس وقت رواج تھا کہ خانہ کعبہ کے دروازے پر چیلنج کے طور پر کسی شعر یا کلام کو آویزاں کر دیا جاتا کہ اس کے مقابلے میں کوئی شعر یا کلام ہے تو لاؤ ۔ اگر کوئی لے آتا تو پہلے والا اتار کر دوسرا آویزاں کر دیا جاتا ،
مسلمانوں نے بھی سورۃ کوثر کے اعجاز و اثر کو دیکھ کر خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں کر دیا ، اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے بہت جوش وخروش پیدا ہوا اور اس کے بدلے کوئی کلام لانے پر خوب زور لگایا گیا مگر بے سود ، آخر عاجز آ کر کہنے لگے کہ یہ انسان کا قول نہیں ہے
دیکھا آپ نے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کا کیسے منہ توڑا ، اور انکو ذلیل کیا
انشاء اللہ آج بھی یہ دشمن اور چیلنج کرنے والے منہ کی کھائیں گے اور ذلیل ہونگے ، بے نام ونشان ہو کر رہ جائیں گے اور انکی آنے والی نسلیں انکا انجام دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گی
قرآن پاک میں ہے ، اور ہم نے تیرے لیے تیرے ذکر کو بلند کر دیا ، تو آپ ذکر قیامت تک بلند رہے گا انشاء اللہ

Wednesday, October 29, 2014

خوش خیالیاں

خوش خیالیاں ________!!!
وہ وقت کیسا عجیب ہوگا جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ عمل کے نام پر جو کچھ وہ دنیا میں کرتے رہے وہ بے عملی کی بد ترین شکل تھی،
انکا اصلی کمال یہ تھا کہ وہ کمزوروں کا لحاظ کریں، لیکن وہ طاقت وروں کا استقبال کرتے رہے،
انکے لئے زیادہ بہتر یہ تھا کہ معانی کے خاموش سمندر میں غوطہ لگایں، لیکن وہ شور و غل کے ہنگامے کھڑے کرنے میں مصروف رہے،
انکی ترقی کا راز یہ تھا کہ وہ خود اپنا احتساب کرنے والے بنیں، مگر وہ دوسروں کا احتساب کرنے میں مصروف رہے،
آجکی دنیا میں لوگ دوسروں کے ظلم کا اعلان کرنے کے بہادر بنے ہوۓ ہیں،
اسوقت لوگوں کا کیا حال ہوگا حب انکو معلوم ہوگا کہ اصل بہادری یہ تھی کہ وہ خود اپنے ظلم کو جاننے کے بہادر بنیں،
لوگ الفاظ بول کر خود کو بر الزمہ سمجھ رہے ہیں، اسوقت لوگوں کا کیا حال ہوگا جب معلوم ہوگا کہ یہ صرف حقایق تھے جو کسی کو بری الزمہ کر سکتے تھے،
لوگ دوسروں کی غلطیوں کی فہرست مرتب کر رہے ہیں، اسوقت لوگوں کا کیا حال ہوگا جب فرشتے خود انکی غلطیوں کی فہرست انکے سامنے پیش کرینگے،
لوگ زندگی کو اصل مسئلہ سمجھ رہے ہیں، اسوقت کیا ہوگا جب معلوم ہوگا کہ انکا اصل مسئلہ موت تھی نہ کہ دنیا کی چند روزہ زندگی،
لوگ استقبال کرنے والوں کی بھیڑ پا کر اپنے کو خوش قسمت سمجھ رہے ہیں، اسوقت لوگوں کا کیا حال ہوگا جب انکو معلوم ہوگا کہ خوش قسمت صرف وہ تھا جسکے استقبال کیلئے الله اور اسکے فرشتے اسکا انتظار کر رہے تھے،
ہر آدمی نے اپنی خوش خیالیوں کی ایک دنیا بنا رکھی ہے، اور اپنے آپکو اسکے اندر پا کر مطمین ہے، مگر قیامت ایسے تمام گھروندوں کو توڑ دیگی!،
سمجھدار وہ ہے جو اس دن کے آنے سے پہلے اس دن کی تیاری کرلے!

Thursday, June 26, 2014

یہ بھی نہ تھی محبت!!!

تو پھر جب دل میں کچھ کچھ ہونے لگا اور بے بڑھنے لگی اس دوسری محبت کو دیکھ کر تو مجھے لگا کہ شائد یہی ہے محبت کہ نیند بھی کم آنے لگی تھی اور بھوک تو جیسے مانو کہ ختم ہی ہوگئی تھی بس ہم آفس سے آنے کے بعد دوست کی کتابوں کی دکان تھی اسکے تھڑے پر ہی ڈلے رہتے تھے اور ہماری یہ جدید محبت بھی ہر وقت چھت پر ٹنگی رہتی تھی زمانہ اتنا جدید نہیں تھا کہ موبائل فون وغیرہ ہوتے یہ بات ہے سن 1998 کی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ والی محبت واقعی بہت حسین تھی اور ماشاءاللہ سے خوش اخلاق بھی بہت تھی ۔

خیر جیسے تیسے بہت ہی تگ و دوڑ کے بعد گھر کا فون نمبر لینے میں کامیابی ہوئی شروع میں دو تین مرتبہ فون ملانے پر انکے ابا حضور کی کریلے میں ڈوبی آواز سن کر دل نے کہا ہمت نہیں ہارنی ہے اور اسی وقت دل نے راہ بھی دکھا دی کہ جیسے ہی انکے ابا جمعہ کی نماز پڑھنے نکلے ویسے ہی ہم نے کال ملا دی وہ جو کہتے ہیں نہ دل سے دل کو راہ ہوتی ٹھیک ہی کہتے ہیں فون پر جب پہلی مرتبہ آواز سنی تو لگا کہ کسی نے کانوں میں شہد گھول دیا وہ تو جب اس محبت کی حقیقت کھلی تو سمجھ میں یہ آیا کہ شہد وغیرہ کچھ نہیں ہوتا سوائے دماغی خلل کے۔۔۔۔۔۔

خیر دو چار ملاقاتوں کے بعد اپنی طرف سے تمام سابقہ تجربوں کی روشنی میں چھان بین کرنے کے بعد پھر اپنے پیر و مرشد ابا حضور کی خدمت میں حاضری دی اور کچھ افلاطونیاں جھاڑنے کے بعد اصل مدعا انکے گوش گذار کیا تو ابا نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا کہ اگر سچی محبت ہے تو ہماری مرضی کیا حیثیت رکھتی، ہم نے بھی جان لگادی اور انکے ساتھ ساتھ اماں بہنوں کو بھی راضی کر ہی لیا کہ بس اب اگر شادی ہوگی تو یہیں ہوگی خیر ابا نے کہا رمضان ہیں عید کے بعد جائینگے عندیہ لے کر اس دوران مزید اچھی طرح سے چیک کر لو۔۔۔۔۔۔۔


اس دروان ہمارے ٹیلی فونک خطابات زور و شور سے جاری تھے ک ایک مرتبہ فون کا بل دیکھ کے ابا نے کہا کہ برائے مہربانی یہ خطابات کو دوررانیہ کم کرو کیوں کہ ان دنوں کوئی آٹھ، دس گھنٹے فون پر بات کر لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔۔۔۔۔۔

اس دوران الحمداللہ عمر کوئی بائیس سال کی ہوگی کہ جب محبت میں کچھ نظر نہیں آتا سوائے دو تین چیزوں کہ اور جبکہ ماحول بھی کافی رنگین ہو تو ہم کوئی زمانے سے الگ نہیں تھے اور نہ ہی ہم کوئی شییخ سعدی تھے بلکہ ایک انتہائی محترم بزرگ سے یہ سن چکے تھے کہ اگر مخالف جنس کو دیکھ کر آپکو کچھ محسوس نہیں ہوتا تو سمجھو آپکی مردانگی پر نشان ہے اور اس عمر میں اکثریت مردانگی صرف اسکو ہی سمجھا جاتا ہے کہ کس نے کتنی مرتبہ اور کتنی دیر تک اپنی "مردانگی" ثابت کری ہے تو اسی ذیل میں ہمارے ذہن میں بھی یہی کچھ چل رہا تھااسکی وجہ شائد ہمارے آفس کا ماحول بھی ہوں جہاں گوریاں بعض مرتبہ تو ایسے لباس میں آجاتی تھی کہ دل کرتا تھا کہ یہیں ساری مردانگی جھاڑ دی جائے، خیر اللہ نے کرم کیا اور ایک مرتبہ پھر بہت ہی سوچا دل کو ٹٹولا تو اس میں سے ہر مرتبہ یہی آواز آئی کہ یار سب چھوڑ بس کوئی ایسی تگمڑ لڑا کہ مردانگی ثابت کر کے اسکو دوستوں یاروں کو بتایا جائے۔

بس پھر میں نے خود ہی ابا کو منع کردیا کہ یہاں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ محبت ہے نہیں ایسی محبت تو ڈائمنڈ مارکیٹ اور نپئیر روڈ پر جا کے روزآنہ کی بنیاد پر کی جاسکتی ہے، اوہ تیری خیر یہ بات سن کر ابا نے ایسے دیکھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ بیٹا میں ابا ہوں تیرا :)

اور بلکل سچ بتاؤں محبت پاکیزہ ہوتی بہت ہی معصوم ہوتی کہ جس میں جسمانی تعلق کے کوئی معنیٰ نہیں ہوتے ہاں چونکہ ایک فطری عمل سےجس سے کسی کو انکار بھی نہیں۔۔۔۔۔

خیر یہ اسکے بعد جب مجھے واقعی محبت ہوئی جو کہ میرے اعتبار سے اور جو محبت کا میرا معیار ہے اننی وا ہوئی ہے جس کے بارے جلد ہی لکھونگا

Tuesday, June 24, 2014

وہ محبت تھی ہی نہیں!!!


وہ محبت تھی ہی نہیں اگر محبت ہوتی تو اتنی آسانی سے اس سے دستبردار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔
میرے حساب سے تو مجنوں سے ایک لیول کے اپر تھا میں محبت میں گھر پہنچتے ہی ابا سے ملاقات ہوئی اور میں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ابا حضور مجھے محبت ہوگئی ہے تو ابا نے پہلے تو کچھ دیر مجھے دیکھا اور پھر کہا کہ میرے نکمے لعل تو یہ اسکو بتا جس سے محبت ہوئی ہے مجھے بتانے سے کیا فائدہ میں نے کہا کہ اصل میں وہ جس سے محبت ہوئی ہے وہ جس گھرانے کا ستارہ اور کرن ہے وہاں شائد آپ کی رضا نہ ہو تو اب کہنے لگے کہ اگرچہ محبت واقعی ہے تو پھر ہماری مرضی ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑے گا بشرطیکہ محبت ہو،۔۔اس مکالمے کے بعد میں نے ابا کو ساری تفصیل بتادی کہ کس سے ہوئی اور کتنی ہوئی اور یہ بھی کہ دونوں جانب برابر کی آگ لگی ہوئی ہے اس پر ابا اتنی آسانی سے راضی ہوجائینگے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔۔خیر ابا صرف اور صرف ہماری محبت کی شدت دیکھ کر اپنے پرانے خاندانی جھگڑوں کی بھلا کر پہنچ گئے رشتہ لے کر وہاں پہنچ کر پہلا سامنا ہی ہماری محبت سے ہو گیا اور ابا چونکہ بہت ہی دوراندیش تھے اسی دور اندیشی کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے صرف اتنا کہا کہ آج تو میں یہ جو سلسلہ چل رہا ہے اسکو فائنل کر کے ہی جاؤنگا یہ سنتے ہی ہماری محبت نے جو جواب دیا اسکو سننے کے بعد میں تو چکرا ہی گیا اور ابا نے جو مجھے دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ جیسے کہہ رہے رہوں یہ ہے تمھاری محبت جو ایک سوال کے سامنے نہیں رک سکی وہ ساری زندگی تمام تر مشکلات اور پریشانیوں میں کیا ساتھ دے گی تمھارا۔۔۔۔۔اور اسکے بعد ہماری محبت تو شائد ختم نہیں ہوئی تھی مگر جس سے محبت تھی اسکی محبت شائد ٹھنڈی پڑگئی تھی مگر میں بھلا اپنے دل کا کیا کرتا جو کہ کسی طور سنبھل ہی نہیں رہا تھا اسکا حل ایسا نکالا میں نے کہ دل و جاں صرف اور صرف پڑھائی پر لگادی مشکل توبہت ہوئی خیر اب اتنی بھی مشکل نہیں مگر محبت کا بھوت اتر گیا یا یوں کہہ لو کہ خاموش ہوگیا اسی دوران چار سال گذر گئے اور ہماری پہلی محبت بھی شائد اپنی پہلی محبت کے ساتھ اپنے پیا گھر سدھار گئیں جس کا کہیں دل کے کسی گوشے میں افسوس تو بہت ہوا تھا مگر کہتے ہیں نہ وقت بڑا مرہم ہے تو اس مرہم نے بھی یہی کام کیا اور بس کچھ بھول بھال کے نوکری میں لگ گیا اسے کے بعد پھر اچانک ہی کچھ کچھ ہونے لگاباقی اب پتہ چلا کہ محبت جب ہوتی ہے تو وہ کم نہیں ہوتی وہ بڑھتی ہی جاتی ہے مطلب اس رفتار سے بڑھتی ہے کہ جسکا مجھے اب پتہ چلا اور کبھی کبھی تو لگتا سوچتا ہوں کہ ضروری نہیں کہ پہلی محبت ہی پہلی ہو اکثر دوسری تیسری محبت بھی پہلی ہی ہو سکتی کیونکہ جو ہو کہ بھول جائے یا بھلا دی جائے وہ محبت ہوتی ہی نہیں ہے اور جس محبت میں صرف ترقی ہی ترقی ہو اور جس میں کوئی مفاد اور توقع نہ ہو اصل محبت وہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔آخر میں ابا مرحوم کا بہت بہت شکریہ کہ جنکی رہمنائی اور جنکی نصحتیں آج تک ہمارے بدرجہ اتم کام آرہی ہیں :)

باقی ریفیرینس کے لئے دو جنوری والی پوسٹ تو سب نے پڑھی ہی ہوگی