خیر جیسے تیسے بہت ہی تگ و دوڑ کے بعد گھر کا فون نمبر لینے میں کامیابی ہوئی شروع میں دو تین مرتبہ فون ملانے پر انکے ابا حضور کی کریلے میں ڈوبی آواز سن کر دل نے کہا ہمت نہیں ہارنی ہے اور اسی وقت دل نے راہ بھی دکھا دی کہ جیسے ہی انکے ابا جمعہ کی نماز پڑھنے نکلے ویسے ہی ہم نے کال ملا دی وہ جو کہتے ہیں نہ دل سے دل کو راہ ہوتی ٹھیک ہی کہتے ہیں فون پر جب پہلی مرتبہ آواز سنی تو لگا کہ کسی نے کانوں میں شہد گھول دیا وہ تو جب اس محبت کی حقیقت کھلی تو سمجھ میں یہ آیا کہ شہد وغیرہ کچھ نہیں ہوتا سوائے دماغی خلل کے۔۔۔۔۔۔
خیر دو چار ملاقاتوں کے بعد اپنی طرف سے تمام سابقہ تجربوں کی روشنی میں چھان بین کرنے کے بعد پھر اپنے پیر و مرشد ابا حضور کی خدمت میں حاضری دی اور کچھ افلاطونیاں جھاڑنے کے بعد اصل مدعا انکے گوش گذار کیا تو ابا نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا کہ اگر سچی محبت ہے تو ہماری مرضی کیا حیثیت رکھتی، ہم نے بھی جان لگادی اور انکے ساتھ ساتھ اماں بہنوں کو بھی راضی کر ہی لیا کہ بس اب اگر شادی ہوگی تو یہیں ہوگی خیر ابا نے کہا رمضان ہیں عید کے بعد جائینگے عندیہ لے کر اس دوران مزید اچھی طرح سے چیک کر لو۔۔۔۔۔۔۔
اس دروان ہمارے ٹیلی فونک خطابات زور و شور سے جاری تھے ک ایک مرتبہ فون کا بل دیکھ کے ابا نے کہا کہ برائے مہربانی یہ خطابات کو دوررانیہ کم کرو کیوں کہ ان دنوں کوئی آٹھ، دس گھنٹے فون پر بات کر لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
اس دوران الحمداللہ عمر کوئی بائیس سال کی ہوگی کہ جب محبت میں کچھ نظر نہیں آتا سوائے دو تین چیزوں کہ اور جبکہ ماحول بھی کافی رنگین ہو تو ہم کوئی زمانے سے الگ نہیں تھے اور نہ ہی ہم کوئی شییخ سعدی تھے بلکہ ایک انتہائی محترم بزرگ سے یہ سن چکے تھے کہ اگر مخالف جنس کو دیکھ کر آپکو کچھ محسوس نہیں ہوتا تو سمجھو آپکی مردانگی پر نشان ہے اور اس عمر میں اکثریت مردانگی صرف اسکو ہی سمجھا جاتا ہے کہ کس نے کتنی مرتبہ اور کتنی دیر تک اپنی "مردانگی" ثابت کری ہے تو اسی ذیل میں ہمارے ذہن میں بھی یہی کچھ چل رہا تھااسکی وجہ شائد ہمارے آفس کا ماحول بھی ہوں جہاں گوریاں بعض مرتبہ تو ایسے لباس میں آجاتی تھی کہ دل کرتا تھا کہ یہیں ساری مردانگی جھاڑ دی جائے، خیر اللہ نے کرم کیا اور ایک مرتبہ پھر بہت ہی سوچا دل کو ٹٹولا تو اس میں سے ہر مرتبہ یہی آواز آئی کہ یار سب چھوڑ بس کوئی ایسی تگمڑ لڑا کہ مردانگی ثابت کر کے اسکو دوستوں یاروں کو بتایا جائے۔
بس پھر میں نے خود ہی ابا کو منع کردیا کہ یہاں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ محبت ہے نہیں ایسی محبت تو ڈائمنڈ مارکیٹ اور نپئیر روڈ پر جا کے روزآنہ کی بنیاد پر کی جاسکتی ہے، اوہ تیری خیر یہ بات سن کر ابا نے ایسے دیکھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ بیٹا میں ابا ہوں تیرا :)
اور بلکل سچ بتاؤں محبت پاکیزہ ہوتی بہت ہی معصوم ہوتی کہ جس میں جسمانی تعلق کے کوئی معنیٰ نہیں ہوتے ہاں چونکہ ایک فطری عمل سےجس سے کسی کو انکار بھی نہیں۔۔۔۔۔
خیر یہ اسکے بعد جب مجھے واقعی محبت ہوئی جو کہ میرے اعتبار سے اور جو محبت کا میرا معیار ہے اننی وا ہوئی ہے جس کے بارے جلد ہی لکھونگا
1 comment:
Bohat khoob, aisi muhabbat to daily basisi pr ho sakti hai... (y)
Post a Comment