المیہ ہے یہ تو ۔۔۔۔۔۔ اس دور کا سب سے بڑا المیہ جس میں، میں خود بھرپور طریقے سے مبتلا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح سمجھنا ۔۔۔
آپ کسی بھی صحیح بات کو غلط سمجھیں گے تو اور غلط کو صحیح تو پھر کسی بھی انسان کا اور اس معاشرے کا ٹھیک ہونا نا ممکن ہی ہے ۔
بات یہ ہے کہ کل مجھے میرے ایک جانے والے نے کنیڈا سے فون کیا اور کہا کہ تم ایسا کرو یہاں آجاو بڑا سکون ہے بہت آزادی ہے بہت ڈویلویپمنٹ ہے ترقی کی راہیں بہت ہیں ۔۔ میں نے ان سے کہا کے یار یہ سب تو یہاں بھی بہت ہے ۔۔۔
تو مجھ سے کہا گیا ۔۔۔۔ ارے یار کہاں پھنسے ہوئے ہو یہ بھی کوئی آزادی ہے مرد الگ اور مستورات الگ :(
مطلب یہ اخذ ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔ اصل آزادی یہ ہے کہ آپ کا جو دل چاہے کریں اور اسپر کوئی روک ٹوک نا ہو ۔
تو بھائی میں باز آیا ایسی آزادی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :(
Tuesday, October 11, 2011
Sunday, September 11, 2011
ُپیدائش میں ولی کی شرکت
جب چنگیز خان کی پیدائش ہوئی ہوگی تو اسکے والدین نے ایک جشن منایا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر انکے والدین اور اس جشن میں شریک کسی بھی فرد کو اس بات کا رتی برابر بھی اندازہ ہوتا کہ یہ چنگیز خان جب بڑا ہوگا تو کیا، کیا کارنامے انجام دیگا تو شائد وہ اسکو اسی دن مار دیتے ۔۔۔۔۔۔۔
ہم مسلمانوں میں بھی ایک شخص گذرا ہے حجاج بن یوسف کے نام سے اسکے کارنامے تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اسکا بھی اگر کسی کو پتہ ہوتا تو وہ بھی مار دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ جب کے اسکے خاندان میں تو بڑے بڑے عرب شرفاء شامل تھے اور دین اسلام کے لئے انکی خدمات اور قربانیاں بھی بڑی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب انسان بلکہ جب کسی مسلمان کے گھر کوئی پیدا ہوتا ہے تو ایک جشن ہوتا ہے اسلامی اور سنت کیمطابق کان میں اذان اور اقامت کہی جاتی ہے
پھر عقیقہ ہوتا ہے اور اپنی اسططاعت کیمطابق لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جس میں سب ہی خوشی خوشی شرکت کرتے ہیں ۔۔۔
کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے تو کوئی انجینئر تو کوئی مفکر ہوتا ہے تو کوئی اسکالر تو کوئی رئیس امرہوی جیسا انسان ہوتا ہے سب شریک ہوتے ہیں سب دعا دیتے ہیں ۔۔۔ کہ اللہ پاک عمر دراز کرے ۔۔۔ نیک اور صالح بنائے نصیب اچھا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین اپنے شب و روز اپنی اولاد کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ والدین کی اپنی اولاد کے لیے قربانیوں کا کوئی شمار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچہ بھی آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا ہے ابتدائی دونوں میں جب تک والدین کے زیر اثر ہوتا ہے تو بہت ہی شریف اور نیک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بچپن سے لڑکپن کی طرف آجاتا ہے کچھ کچھ اپنی من مانیاں کرنے لگتا ہے والدین سمجھاتے ہیں کہ بیٹا یہ آپکے لئے صحیح نہیں ہے اسے آپکا بھی نقصان ہوگا اور دوسرے بھی پریشان ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر
بچے کے سمجھ میں نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے اماں باوا میرے تو دشمن ہی ہو گئے اور اسی دوران بچہ لڑکپن کو پھلانگتا ہوا جوانی دیوانی میں داخل ہو جاتا ہے
بہت ہی زورآور طریقے سے اور بہت سے اسیے لوگوں کیساتھ مل جاتا ہے کہ جنسے ملنے پر اسکے وہ تمام لوگ جو اس عقیقے میں شامل تھے اسکو سجمھاتے ہیں کہ دیکھوا بیٹا یہ روش ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ صرف تمھاری زات کا مسئلہ نہیں ہے یہ پورئ قوم کا مسئلہ ہے ۔۔۔۔ کہ جو لوگ اپنی قابلیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے وہ اب ۔۔۔۔ کانا ۔۔۔ کمانڈو ۔۔۔ ٹنڈے ۔۔۔ ٹی ٹی ۔۔۔۔ اور لنگڑے کے ناموں سے جانے جا رہے ۔۔۔۔۔
جن لوگوں کے ھاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا انکے ہاتھ میں اسلحہ آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ میرٹ میں اول ہوتے تھے اب وہ لوگ لوٹ مار اور بھتہ خوری میں اول آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اور اصل بات تو یہ ہے بیٹا کہ کسی اور کو نہیں اپنے ہی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اپنے ہی شہر کو جلا رہے ہیں ۔۔۔۔
شرفاء کی ایک جماعت اس بچے جو کہ اب جوان اور بااثر ہوگیا ہے اسکو سمجھاتے ہیں کہ اس وقت لوگ اور خاص کر نوجوان طبقہ اپنے والدین سے زیادہ آپ کی مان رہے ہیں ۔۔۔۔۔
تو جو اس ٹائم کچھ شریف لوگ ریئس امرہوی جیسے انہوں نے مشورہ دیا اس بچے کو کہ ابھی بھی وقت ہے اگر اس وقت کی جنریشن کو تعمیری کاموں میں لگا دیا جائے تو بغیر کسی خون خرابے کہ انقلاب آجائے ۔۔۔ مگر
صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تو ہر نشہ ہی حرام اور خطرناک ہے مگر جو سب سے خطرناک ہے وہ ہے جہالت اور طاقت کا نشہ اور اس میں بھی سب سے خطرناک ہے پڑھے لکھے جاہل کا جہالت کے نشے میں چور ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا خمیازہ 2 نسلیں تو بھگت چکیں اور پتہ ہیں کتنوں نے اسکو بھگتانا ہے
اصل بات یہ ہے کہ کسی کی پیدایئش میں کسی ولی اللہ کی شرکت اس شخص کے مستقبل میں ایک اچھا انسان بنے کی دلیل نہیں جب تک کہ وہ انسان خود اسکی کوشش نہ کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کیساتھ جمے رہنے کی دعا نہ کرے
اللہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
ہم مسلمانوں میں بھی ایک شخص گذرا ہے حجاج بن یوسف کے نام سے اسکے کارنامے تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اسکا بھی اگر کسی کو پتہ ہوتا تو وہ بھی مار دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ جب کے اسکے خاندان میں تو بڑے بڑے عرب شرفاء شامل تھے اور دین اسلام کے لئے انکی خدمات اور قربانیاں بھی بڑی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب انسان بلکہ جب کسی مسلمان کے گھر کوئی پیدا ہوتا ہے تو ایک جشن ہوتا ہے اسلامی اور سنت کیمطابق کان میں اذان اور اقامت کہی جاتی ہے
پھر عقیقہ ہوتا ہے اور اپنی اسططاعت کیمطابق لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جس میں سب ہی خوشی خوشی شرکت کرتے ہیں ۔۔۔
کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے تو کوئی انجینئر تو کوئی مفکر ہوتا ہے تو کوئی اسکالر تو کوئی رئیس امرہوی جیسا انسان ہوتا ہے سب شریک ہوتے ہیں سب دعا دیتے ہیں ۔۔۔ کہ اللہ پاک عمر دراز کرے ۔۔۔ نیک اور صالح بنائے نصیب اچھا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین اپنے شب و روز اپنی اولاد کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ والدین کی اپنی اولاد کے لیے قربانیوں کا کوئی شمار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچہ بھی آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا ہے ابتدائی دونوں میں جب تک والدین کے زیر اثر ہوتا ہے تو بہت ہی شریف اور نیک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بچپن سے لڑکپن کی طرف آجاتا ہے کچھ کچھ اپنی من مانیاں کرنے لگتا ہے والدین سمجھاتے ہیں کہ بیٹا یہ آپکے لئے صحیح نہیں ہے اسے آپکا بھی نقصان ہوگا اور دوسرے بھی پریشان ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر
بچے کے سمجھ میں نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے اماں باوا میرے تو دشمن ہی ہو گئے اور اسی دوران بچہ لڑکپن کو پھلانگتا ہوا جوانی دیوانی میں داخل ہو جاتا ہے
بہت ہی زورآور طریقے سے اور بہت سے اسیے لوگوں کیساتھ مل جاتا ہے کہ جنسے ملنے پر اسکے وہ تمام لوگ جو اس عقیقے میں شامل تھے اسکو سجمھاتے ہیں کہ دیکھوا بیٹا یہ روش ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ صرف تمھاری زات کا مسئلہ نہیں ہے یہ پورئ قوم کا مسئلہ ہے ۔۔۔۔ کہ جو لوگ اپنی قابلیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے وہ اب ۔۔۔۔ کانا ۔۔۔ کمانڈو ۔۔۔ ٹنڈے ۔۔۔ ٹی ٹی ۔۔۔۔ اور لنگڑے کے ناموں سے جانے جا رہے ۔۔۔۔۔
جن لوگوں کے ھاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا انکے ہاتھ میں اسلحہ آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ میرٹ میں اول ہوتے تھے اب وہ لوگ لوٹ مار اور بھتہ خوری میں اول آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اور اصل بات تو یہ ہے بیٹا کہ کسی اور کو نہیں اپنے ہی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اپنے ہی شہر کو جلا رہے ہیں ۔۔۔۔
شرفاء کی ایک جماعت اس بچے جو کہ اب جوان اور بااثر ہوگیا ہے اسکو سمجھاتے ہیں کہ اس وقت لوگ اور خاص کر نوجوان طبقہ اپنے والدین سے زیادہ آپ کی مان رہے ہیں ۔۔۔۔۔
تو جو اس ٹائم کچھ شریف لوگ ریئس امرہوی جیسے انہوں نے مشورہ دیا اس بچے کو کہ ابھی بھی وقت ہے اگر اس وقت کی جنریشن کو تعمیری کاموں میں لگا دیا جائے تو بغیر کسی خون خرابے کہ انقلاب آجائے ۔۔۔ مگر
صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تو ہر نشہ ہی حرام اور خطرناک ہے مگر جو سب سے خطرناک ہے وہ ہے جہالت اور طاقت کا نشہ اور اس میں بھی سب سے خطرناک ہے پڑھے لکھے جاہل کا جہالت کے نشے میں چور ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا خمیازہ 2 نسلیں تو بھگت چکیں اور پتہ ہیں کتنوں نے اسکو بھگتانا ہے
اصل بات یہ ہے کہ کسی کی پیدایئش میں کسی ولی اللہ کی شرکت اس شخص کے مستقبل میں ایک اچھا انسان بنے کی دلیل نہیں جب تک کہ وہ انسان خود اسکی کوشش نہ کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کیساتھ جمے رہنے کی دعا نہ کرے
اللہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
Tuesday, August 16, 2011
چھنو آنٹی کا کلب بلاگستان
بلاگستان کو جنگستان بنانے والی آنکھوں میں نشہ لئَے چھنو آنٹی کا ذکر تو بہت ہوچکا اب زرا انکے قلبی تعلق والے کلب کا بھی ذکر ہو ہی جائے بلاگستان پہلے امن کا گہوارہ تھا ایک دن اس بلاگستانی محلے میں ایک خارش زدہ کتا داخل ہوا اس کا کام ہر وقت بھونکنا تھا بلاگستان کا ہر بلاگی اس کو دھتکارتا تھا مگر چھنو آنٹی اس کو بہت پسند کرتی تھی ہر طرف کی دھتکار سے تنگ آکر اس نے چھنو آنٹی کے قدموں میں پناہ لی آنٹی کو ایک ہمراز غمگسار مل گیا ، کتا جب بھونک کے تھک جاتا تو چھنو آنٹی کے قدموں میں جا بیٹھتا اور قدموں میں سر رکھ کر سارے شکوے کہہ سناتا کہ کس نے اس پر کیا ستم ڈھائے، چھنو آنٹی اس زبان کی ماہر تھی سب کچھ سن کے تسلی دیتے ہوئے کہتی فکر نہ کر پیارے جب تک میں ہوں پنی ہر بلاگ پوسٹ تجھ پہ وار دوں گی پھر پیار سے اس کی ٹیڑھی دُم کو جھٹکا دیتی بلکل اس طرح جیسے لکڑی کی کاٹھی والے گھوڑے پہ ہتھوڑا مارا جاتا تھا تو وہ دُم دبا کے بھاگتا تھا لیکن یہ بلاگی کتا مالکن کے پیار سے شرما کے مالکن کے قدموں میں منہ چھپا لیتا اور سوچتا اس ظلمی بلاگستان میں کوئی تو ہے جو میرا اپنا ہے مالکن کا دستِ شفقت اس لاغر کو ایک نئی توانائی بخشتا تھا کتا اپنے مالک کے لیئے وفادار لیکن پاکبازوں کے لیئے نجس ہے اس لیئے اے ایمان والو ! کتے کا سوچ کے 313 مرتبہ لاحول پڑھ کے پھونک مارا کرو غیبی پھونک ضرور اثر کرے گی اس لیئے کہ کتا جس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اس کا مالک بھی نظر نہیں آتا مگر اس کی باتیں کتوں پر اثر کرتی ہیں کتے کو ذلیل و خوار کرنے کی ترکیبوں پہ باقی باتیں پھر ہوں گی اس وقت لاحول پڑھتے ہی کتا مالکن کے پاس چلا گیا ہے اس پوسٹ کی شکایت لگانے رب راکھا ۔۔۔
Wednesday, August 10, 2011
انٹ کی شنٹ
ایسے ہی یہ پوسٹ بھی انٹ کی شنٹ ہے دیکھیں کہ کس، کس کے جاکے لگتی ہے :ڈ
بدصورت ہونا اتنی بری بات نہیں جتنا دماغی طور پر بدصورت ہونا۔ آپ میں یہ دونوں خامیاں اتم طور پر پائی جاتی ہیں۔ کیا آپ اپنی احساس کمتری کا اسی طور پرچارک کرتی رہیں گی؟ ویسے اگر آپ نے بچپن میں اس درخت سے ایک دفعہ بھی ہانڈی کھال لیتی ہوتی تو عقل اور شکل دونوں کو فرق پڑتا۔
خیر اب بچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئی کھیت۔
دراصل آپ کے اندر اتنا گند ہے کہ کینیڈا تو دور کی بات آپ تو جنتی مسلمانوں میں بھی کیڑے نکال دیں۔ وجہ ویسی ہی ہوگی کہ جیسے آپ کینیڈا کے لئے ذلیل ہو خوار ہو کر ویزہ حاصل کر سکیں ویسے ہی جیسے آپ کے اعمال اور اخلاقیات ہیں جنت کے لئے بھی تردد کرنا ہو گا۔ پانی ابال کر ہی پیچئے مگر خدارا یہ پتوں کا سفوف سادہ ہی پھانکئے کہ چہرے پر نہ صحیح دماغ کا گند تو صاف ہو۔
جیسے آپ اپنا تعفن اور بغض اپنی علمی تحاریر سے باہر نہیں رکھ سکتیں ویسے ہی قاری سے توقع نہ رکھیں نہ کسی معتدل تبصرہ نگار کو جانور کی طرح پڑیں۔
Monday, July 25, 2011
اقسامِ بلاگرز
بلاگرز ۔۔۔۔۔ ہاں تو آج بات ہوگی کچھ بلاگرز کی اقسام کے بارے میں اور یہ سراسر میری اپنی ذاتی آرا ہیں کوئی اسکو ذاتی نہ لے اور اگر لے بھی لے تو اسکی مرضی ۔۔۔
ویسے تو جی کئی اقسام کے بلاگرز ہیں ۔۔۔ مگر بات ہوگی صرف اردو بلاگرز کی کیونکہ انگریزی بلاگ تو میں پڑھتا نہیں ہوں بس دیکھتا ہوں :)
پچھلے ایک سال سے میں تقریباً روزآنہ کی بیناد پر بلاگ پڑھ رہا ہوں اور کسی بھی بلاگ کو پڑھنے کے لئے اردو سیارہ کا سہارا لیتا ہوں کے وہاں آسانی سے کسی بھی بلاگ کی رسائی ممکن ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ اس عرصے میں جو میں نے محسوس کیا بس آج اسکا ہی ذکر خیر ہوگا یہاں۔۔۔۔۔
سب سے پہلے بلاگرز کی اقسام !
فلسفی بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے بلاگز کو تو شائد خود بھی کچھ نہیں پتہ ہوتا کے وہ کیا لکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسکا کام ہوتا ہے صرف لکھنا چاہے کسی کو سمجھ آئے یا نا آئے اور ایسے بلاگروں کی تعداد بہت ہی کم ہے میں سب کا نام تو نہیں لکھوں گا مگر آجکل ہمارا ایک بہت ہی اچھا دوست ایسی ہی بلاگنگ کر رہا ہے اگر اپنا اوے شاہ پڑھے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میں نے اسکو کہا ہے ۔۔۔ باقی وہ خود بہت سمجھدار ہے :)
بھوکے بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان بلاگروں کی تعداد اب کچھ ترقی کی جانب جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں بلا تخصیص مرد اور خواتین سب شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جنکا مقصد کچھ نہیں ہوتا سوائے اپنے بلاگ کی ٹریفک بڑھانے کے ۔۔۔۔ اور آپ یقین کریں یہ ایک ایسی لت ہے جسکا اگر ابھی سے علاج نہیں کیا تو یہ بلاگرز سے وہ، وہ لکھاوائے گی اور وہ، وہ کروائے گی کہ پوچھو مت۔
ایسا بلاگرز لکھتے ہوئے نا کچھ سوچتا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اسکا مقصد صرف اپنی بکواس لکھنے کا ہوتا ہے چاہے اس کے لکھنے سے اسکا انسان ہونے میں بھی شک ہونے لگے اور بعض اوقات تو کچھ خواتین بلاگرز بھی ایسا لکھتی ہیں کے گمان ہوتا ہے کوئی انتہائی پڑھا لکھا جاہل انسان اس بلاگ کو لکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی تازہ مثال تو ماضی قریب میں ایک مکھی کی بھنبھناہٹ سے لی جاسکتی ہے ۔۔۔۔
مرد نما عورت بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اب کیا کہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ کہونگا تو وہ کیا کہتے ہیں کہ یہ بات تیر کی طرح لگے گی مقام خاص پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بلاگرز ہیں جنکا کام ہی لوگوں کا زہن خراب کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور بقول ہمارے ایک دوست کے ۔۔۔۔۔۔ یہ احساس محرومی کی ماری بلاگرز ہوتی ہیں انکو انکے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ۔
نفیس بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے بلاگروں کی تعداد انتہائی قلیل مقدار میں ہے ۔۔۔۔ اور بلاشبہ یہ ہی چند بلاگرز ہیں جنکی وجہ سے قارئین تک حقیت پر مبنی تحریں پہنچتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انکا مقصد واقعی کسی اچھی بات کی ترویج کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔ ان میں جاوید گوندل صاحب ۔۔۔ ابو شامل، تلخابہ اجمل صاحب، ڈاکٹر جواد، اپنا عمر لالا، حجاب، تانیہ رحمان وغیرہ ۔۔۔۔۔ اور بھی بہت نام ہیں مگر ان نامون کی تعداد پھر بھی اپر دی گئی قسم بلاگرز سے بہت کم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
دبنگ بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ ٹھوکو بلاگرز‘( بلاگرز لوگوں کے اندیشوں کو مدِ نطر رکھتے ہوئے ۔۔۔۔ نام تبدیل کردیا ہے ۔۔۔۔۔ ورنہ اپنے استاد کو تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا). یہ صرف چند بلاگرز ہیں اور انکا مقصد ان بلاگرز کی ٹھوک ٹھوک کے بجانا ہے جنکا مقصد لوگوں کے زہنوں کو خراب کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔ یہ بہت کم لکھتے ہیں مگر جب بھی لکھتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتی کہ کس کی بجا رہے ہیں ۔۔۔ ان میں سر فہرست تو اپنا استاد ہے اسکے بعد ایک ایسا بلاگر ہے جسکا نام تو ایویں چول سا ہے اور شکل کو پیلیا ہوا
ایک اپنے ڈاکٹر صیب ہیں ایک جو کبھی بدتیمز تھا اب نہیں رہا ۔۔۔۔ ایک وقار اور جو سب سے زیادہ چھوٹا ہے لیکن بنا ہوا انکل سب کا، اپنے دوست شاکر عزیز ۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ایسے ہی ہیں بلاگرز دنیا میں جیسے کچھ لوگ ہوتے ہیں امن کمیٹی میں اور جنکا کام ہوتا ہے کہ جو کوئی امن خراب کرنے کی کوشش کرے اسکی تشریف لال کردیں ان اقسام کے بلاگرز کا بھی یہی کام ہوتا ہے کہ جو کوئی بلاگرز ورلڈ میں نقص امن کا سبب بنتا ہے یہ اسکی لال کردیتے ہیں مگر ایسے کہ لال بھی ہوجاتی ہے آواز بھی نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔
جلابی بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو بڑی ہی عجیب قسم کے بلاگرز ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اپنی پوسٹس ایسی بھینکر سپیڈ میں لکھتے ہیں جیسے کسی کو جلاب لگے ہوئے ہوں ۔۔۔۔ مطلب اور مقصد کچھ بھی ہیں ۔۔۔۔۔ بس سال کے آخر میں گنتی ہوئی تو پتہ چلا کے سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اسکو 6 سے ضرب دے دیں ۔۔۔ ارے بھائیوں مہینے میں ایک ہی پوسٹ لکھو مگر با معنی لکھو :)
روشن خیال بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ بلاگرز اپنی تعریف آپ ہیں انکا بلاگ پڑھنے کے بعد مجھے تو غسل کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ اور کلمہ بھی پڑھتا ہوں ساتھ میں کہ دل و دماغ سب پاک ہو جائے
ان بلاگرز میں بڑے ہی اعلی قسم کی شخصیات شامل ہیں ۔۔۔۔۔ اگر یقین نہ آئے تو کچھ دن صبر کریں کہ ابھی تحقیق جاری ہے اور گرمیاں بھی کچھ خاص شروع نہیں ہوئی ہیں وہاں :)
پست ذہن بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔(یہ لوگوں کی سوچ ہےکہ یہ پست زہن ہیں) آہ یہ وہ بلاگرز ہیں جو بیچارے گنتی کے ہی ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ کہتے ہیں کہ بھائی جیسا کہا گیا ہے صرف ویسا ہی کرو اپنی عقل نہیں لگاو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سمجھ تو گئے ہونگے جی ہاں یہ وہ لوگ ہیں جو قلم کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا تعلق انکے خالق سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں بہت ہمارے سب سے محترم بھائی سعد المعروف بنیاد پرست اور ابو نجمہ سعید صاحب۔ سلیم صاحب ، عمران اقبال اور ایک ہیں خامخواہ قابل زکر ہیں
ٹھرکی بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بلاگرز، بلاگرز کم اور کمنٹیٹر زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔ انکا مقصد مرد بلاگرز کے بلاگ پر بلاوجہ کی تنقید اور خواتین بلاگرز کے بلاگ پر جا کر اپنی ٹھرک کو پورا کرنا ہوتا ہے جاہے وہ خواتین بلاگرز انکی ٹوں کی ٹوں ہی نہ کر دیں اور اگر کہیں وہ خواتین روشن خیال ہوں تو پوچھیں مت :)
صلح جو بلاگرز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بلاگرز ہیں جو بیچارے بس اسی کوشش میں ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی بلواہ نا ہو اگر کچھ ہو جاتا ہے تو یہ کوشش کرکے صلح نامہ کرواتے ہیں انمیں جو بلاگرز ہیں وہ میرے خیال سے شازل سمیر اور اپنے وکیل صیب ہیں ۔۔۔۔۔ اور بھی ہونگے مگر میں نے انکی تحریروں کو ایسا ہی پایا ہے
اور بھی کئی اقسام کے بلاگرز ہیں مگر یہ وہ چند اقسام ہیں جو میں نے لکھی ہیں جنکو میں نے پڑھا ہے اور لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ لکھنے کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا
ہاں میں کس قسم کا بلاگر ہوں ۔۔۔ تو بھائی میں تو ابھی اس تالاب میں اترا ہی نہیں ہوں جس کو بلاگنگ کہتے ہیں :)
Wednesday, June 15, 2011
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ویسے تو کئی تحرریں ایسی ہوتی ہیں جو پڑھتے ہی کچھ دیر کے لیئے ہی سہی اپنا اثر کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جو پہلی مرتبہ پڑھ کر سمجھ میں ہی نہیں آتی ہیں۔
مگر کچھ تحاریر ایسی ہوتی ہیں جنکو انسان غیر ارادی طو پر کئی کئی مرتبہ پڑھتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ آیا وہ تحریر اسکو سمجھ آرہی ہے کہ نہیں ۔
لیکن جب سمجھ آتی ہے تو لگتا ہے کہ جیسے شاعر نے میری روزآنہ کی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ اشعار لکھے ہیں
کچھ اسطرح کل میرے ساتھ بھی ہوا ۔۔ میں آفس سے نکلا تو ایک صفحہ کسی کاپی کا میری گاڑی کی بونٹ پر پڑا ہوا تھا مین نے اسکو اٹھا کر دیکھا تو اس پر اردو کی نظم تحریر تھی
میں نے وہیں کھڑے کھڑے پڑھا اور وہ کاغذ لپیٹ کے اپنی جیب میں رکھ لیا۔
مجھے شک تو تھا کہ یہ نظم انکی ہی ہوگی جو میں سمجھ رہا ہوں ۔۔۔ گھر پہنچ کر پہلا کام یہی کیا گوگل میں سرچ کیا تو نام آیا ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
میں اسکو پڑھنے کہ بعد سوچتا رہا کہ واقعی لگتا ہے کہ اللہ پاک کی کوئی خاص رحمت تھی اس شخص کیساتھ جسکو اس دور میں یہ ہنر بخشا کہ وہ لوگوں کہ لیے مشعل راہ بن سکے کسی جگمگاتے ہوئے جگنو کی طرح۔
ویسے تو اقبال رحمۃ اللہ عیلہ کی تمام شاعری ہی بہت پر اثر ہے مگر یہ نظم تو ماشاءاللہ سے بہت ہی خوب ہے اور جو اگر میں اپنا زرا سا بھی محاسبہ کرلوں تو شائد زندگی بدل جائے اس لیے آپ سب کے ساتھ بھی شئیر کر رہا ہوں۔
اقبال فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے
یہ بات نہیں کہ مجھ کو اس ہر یقیں نہیں
بس ڈر گیا خود کو صاحب ایماں کہتے کہتے
توفیق نہ ہوئی مجھ کو اک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا موزن اذاں کہتے کہتے
کسی کافر نے جو پوچھا کہ یہ کیا ہے مہینہ
شرم سے پانی ہوا میں رمضاں کہتے کہتے
میرے شیلف میں جو گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا
میں گڑھ کیا زمیں میں قرآں کہتے کہتے
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے
مگر کچھ تحاریر ایسی ہوتی ہیں جنکو انسان غیر ارادی طو پر کئی کئی مرتبہ پڑھتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ آیا وہ تحریر اسکو سمجھ آرہی ہے کہ نہیں ۔
لیکن جب سمجھ آتی ہے تو لگتا ہے کہ جیسے شاعر نے میری روزآنہ کی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ اشعار لکھے ہیں
کچھ اسطرح کل میرے ساتھ بھی ہوا ۔۔ میں آفس سے نکلا تو ایک صفحہ کسی کاپی کا میری گاڑی کی بونٹ پر پڑا ہوا تھا مین نے اسکو اٹھا کر دیکھا تو اس پر اردو کی نظم تحریر تھی
میں نے وہیں کھڑے کھڑے پڑھا اور وہ کاغذ لپیٹ کے اپنی جیب میں رکھ لیا۔
مجھے شک تو تھا کہ یہ نظم انکی ہی ہوگی جو میں سمجھ رہا ہوں ۔۔۔ گھر پہنچ کر پہلا کام یہی کیا گوگل میں سرچ کیا تو نام آیا ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
میں اسکو پڑھنے کہ بعد سوچتا رہا کہ واقعی لگتا ہے کہ اللہ پاک کی کوئی خاص رحمت تھی اس شخص کیساتھ جسکو اس دور میں یہ ہنر بخشا کہ وہ لوگوں کہ لیے مشعل راہ بن سکے کسی جگمگاتے ہوئے جگنو کی طرح۔
ویسے تو اقبال رحمۃ اللہ عیلہ کی تمام شاعری ہی بہت پر اثر ہے مگر یہ نظم تو ماشاءاللہ سے بہت ہی خوب ہے اور جو اگر میں اپنا زرا سا بھی محاسبہ کرلوں تو شائد زندگی بدل جائے اس لیے آپ سب کے ساتھ بھی شئیر کر رہا ہوں۔
اقبال فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے
یہ بات نہیں کہ مجھ کو اس ہر یقیں نہیں
بس ڈر گیا خود کو صاحب ایماں کہتے کہتے
توفیق نہ ہوئی مجھ کو اک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا موزن اذاں کہتے کہتے
کسی کافر نے جو پوچھا کہ یہ کیا ہے مہینہ
شرم سے پانی ہوا میں رمضاں کہتے کہتے
میرے شیلف میں جو گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا
میں گڑھ کیا زمیں میں قرآں کہتے کہتے
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے
Sunday, June 12, 2011
استانی، مائی ورک اور پیٹھ پہ تھپکی۔
ہمارا ایک دوست اپنی والدہ کے انتقال کے بعد یتیم ہوگیا اور اسکی والدہ مرتے، مرتے ایک عدد ہر جگہ سینگ پھنسانے والی چیز اسکے حوالے کر گئیں ایسے میں ایک محلے کی آنٹی نے اس سینگ پھنسانے والی چیز کو اپنی زیر تربیت(جامہ نہیں )رکھ رکھا لیا۔ ساتھ ساتھ اسے وہ پڑھا بھی رہی ہیں کہ اسکی والدہ نے اس شعبہ پہ کوئی کام نہیں کیا ہے۔ اس سینگ پھنسانے والی چیز نے استانی محترمہ سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس ایسی یہ کیا تکنیک ہے جس سے آپ سامنے والے کو دیوار سے لگا دیتی ہیں۔ بلخصوص احکام اسلام میں تو کوئی آپ کے نقطہ نظر کو کاٹ ہی نہیں سکتا۔ سبکو چپی لگ جاتی ہے(اگر چہ اسکی یہ چپی آپکو پاگل اور نفسیاتی مریض سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہے) استانی نے پہلے تو کنواریوں کی طرح نخرے دکھائے (کیونکہ اصل زندگی میں انکو نخروں کا موقعہ نی ملا۔ جسکے سامنے نخرہ کیا وہ پلٹ کر واپس نی آیا )اور کہا:کیا ہم نے یوں ہی پھرا یا ہے اپنا دماغ؟! عرصہ ہائے دراز لگا تب جاکے پھرا ۔ سینگ پھنسانے والی چیز خوشامد کرتے کرتے جب تھک گیا تو اس نے ترپ کا یکا بن کے آخری چال چلی اور استاد کے تجویز کردہ نسخہ(نسخہ نی بے دوا ) کی پیش کش کی جس کو سنتے ہی وہ "ٹھنڈی" ہوگئیں (استاد کیسی دوا بتائی ہے وہ تو ٹھنڈا کر دیتی ہے) اور فرمانے لگیں:سامنے والے نے جو بات یا آیت پیش کی ہے اسکو لیکر بیٹھ جاؤ۔ اور عقلی طور پہ جو بعید سے بعید اعتراض یا اعتراضات اس پہ ہو سکتے ہوں وہ سب کر ڈالو ۔ سامنے والے کی خود ہی چپی لگ جائے گی۔ "اصول کافی حد تک میں سمجھ گیا ہوں بس ایک آدھ مثال اگر آپ دے دیتیں تو میں تو میں بصیرت کے درجہ پہ فائز ہوجاتا"۔ "مثال چاہیئے؟ لو مثال بھی لو ۔ یہ دیکھو میں نے ایک ڈاکٹر کو کیسے دیوار سے لگایا ہے جس نے ایک آیت پیش پیش کی تھی
۔"آپ نے میری اس بات کا جواب نہیں دیا کہ ایک واقعہ ہوتا ہے جس میں ایک جاہل مرد موجود ہے جو کسی گائوں سے شہر میں نووارد ہے اور ایک عورت ہے جو اسی شہر میں رہتی ہے پڑھی لکھی ہے ، تمام فہم و فراست رکھتی ہے، جدید علوم سے واقف ہے. وہ ایک بہتر گواہ ہوگی یا وہ جاہل مرد جو اس شہر کی گلیوں سے نا آشنا"۔
جاؤ گھر جا کے اس ضابطہ پہ خوب مشق کرو۔
اب وہ سینگ پھنسانے والی چیز ٹھری نری جاہل ۔۔۔۔۔ الف سے لام لا لٹو نہیں پتہ اسکو وہ سیدھے پمارے دوست کے پاس آیا اور آنٹی کی دی ہوئی مشق کو انجام تک پہچانے کی دوخواست کی پہلے تو ہمارے دوست نے منع کیا کہ ، نہ کر اوے کہ اگر میں نے اسکا جواب لکھ دیا تو آنٹی نے تجھے دیوار کے ساتھ لگا کے وہ کرنا ہے کہ وہاں وہاں تیرے زخم آئیں گے کہ کسی کو دکھا کہ ہمدردی بھی نہیں لے سکے گا۔۔۔۔۔ لیکن نہیں بھئی سینگ پھنسانے والی چیز کوئی آخری ڈھیت مانا ہی نہیں تو پھر ہمارے دوست کہا چل جیسی تیری مرضی ۔۔۔۔۔
ہمارا دوست نیٹ پہ بیٹھا اور مشقی میٹر کیلئے گوگل بگھوان کو عرضی دی۔ انہوں نے جواب میں مندرجہ ذیل "مواد"باہر پھینکا
۔"دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے
بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا"۔
اور ساتھ ہی یہ جواب لکھ کر سینگ پھنسانے والی چیز کے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ ایک پڑھے لکھے جوڑے کی شادی اس شق کے ساتھ ہوتی ہے۔ دونوں بڑی محبت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں ۔لوگ بھی اس جوڑے پہ رشک کرتے ہیں۔ شادی کے بعد شوہر بیوی کو ملازمت کا نہ صرف اختیار دیتا ہے بلکہ اپنے سے بھی اچھی ملازمت اس کیلئے تلاش لیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد شوہر مزید کوشش کر کے بیوی کیلئے بیرون ملک بھی ایک ملازمت تلاش لیتا ہے۔ بیوی بیرون ملک چلی جاتی ہے۔ اپنی عمدہ کار گذاری کی وجہ سے اسے اس سے بھی اچھی ملازمت دوسری جگہ مل جاتی ہے۔شوہر سے بھی رابطہ میں رہتی ہے۔ ادھر میاں بھی اپنے لئے باہر کی ملازمت تلاش کرتا ہے، دوران تلاش وہ ٹارگیٹ کلنگ کی زد میں آتا ہے اور اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھتا ہے۔ رہی سہی نوکری بھی چلی جاتی ہے۔ بیوی ضروری کاموں کی وجہ سے وطن نہیں آپاتی البتہ شوہر کا سرمایہ ختم ہوجانے کے بعد علاج کا تھوڑا خرچہ اٹھاتی ہے۔ سوئے اتفاق یہ کہ ایک بار میاں اپنا منھ دھوتا ہے اور بجائے پانی کی بوتل اٹھانے کے تیزاب کی بوتل اٹھا تا ہے۔ گرمی زیادہ ہونی کی وجہ سے چھینٹے نہیں مارتا بلکہ بوتل چہرے پہ انڈیلتا ہے ۔علاج بسیار کے بعد جان تو بچ جاتی ہے مگر چہرہ مکروہ ہوجاتا ہے۔ بیوی ضروری کام نپٹا کر وطن آتی ہے ۔ شوہر کی یہ حالت دیکھ کر اسکی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ کچھ دن تو برداشت کرتی ہے پر ایک دن شوہر سے کہہ دیتی ہے کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ کیوں؟ ان احوال میں تم مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے۔ لیکن یہ تو میرے ساتھ حادثہ ایسا ہوگیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ میں نہیں جانتی۔میں نے تمہارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا تھا۔ تمہارے لئے یہاں بھی ملازمت تلاش کی تھی اور باہر بھی۔ اسکا کچھ تو خیال کرو۔ دیکھو میں نے تمہارے چہرے کے علاج میں اتنا پیسا خرچ کیا ہے کہ اتنا تم نے ابھی تک کمایا بھی نہیں ہوگا۔ تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک کیا ہے اس پہ میں شکریہ ادا کرتی ہوں لیکن میں اس وقت تمہاری تلاش کی ہوئی ملازمت پہ نہیں ہوں میں تو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے اپنا ایک الگ جہان بنا چکی ہوں۔ لیکن میرا کچھ تو سوچو، میرا آگے کیا ہوگا میرے تو رشتہ دار بھی نہیں ہیں۔ یہ سر دردی تمہاری ہے۔ تو اب تم کیا چاہتی ہو؟میں شق اٹھارہ میں دیا ہوا حق استعمال کرنا چاہتی ہوں
سوال یہ ہے کہ جب تک میٹھا میٹھا رہا بیوی ہپ ہپ کرتی رہی جونہی کڑوا شروع ہوا بیوی نے تھو تھو کرنا شروع کر دیا
جب وہ سینگ پھنسانے والی چیز اپنا کام استانی کو دکھانے کیلئے لے گئے تاکہ پیٹھ پہ "یو آر اے سمارٹ بوئے کے تعریفی جملہ کے ساتھ شاباشی کی تھپکی لیں۔ انہوں نے کام ملاحظہ کیا۔ بعد ملاحظہ کے حکم دیا کہ ہاٹھ اٹھاؤ۔ اٹھا لئے۔ "دیوار سے لگ جاؤ"۔ لگ گئے۔ انہوں نے "دیوار سے لگانے" کے بعد تھپکی لی اور پیٹھ پہ جو بجائی ہے ( اور صرف تھپکی ہی نہیں بیلن چکلا جھاڑو گلاس۔ و علی ہذا القیاس) تو سینگ پھنسانے والے بیٹھنے اور سونے کے لائق نہیں رہے دو دن سے گھوڑے کی طرح کھڑے کھڑے سورہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ پیٹھ پہ وہ والی تھپکی کے بجائے یہ والی تھپکی کیوں پڑی؟
۔"آپ نے میری اس بات کا جواب نہیں دیا کہ ایک واقعہ ہوتا ہے جس میں ایک جاہل مرد موجود ہے جو کسی گائوں سے شہر میں نووارد ہے اور ایک عورت ہے جو اسی شہر میں رہتی ہے پڑھی لکھی ہے ، تمام فہم و فراست رکھتی ہے، جدید علوم سے واقف ہے. وہ ایک بہتر گواہ ہوگی یا وہ جاہل مرد جو اس شہر کی گلیوں سے نا آشنا"۔
جاؤ گھر جا کے اس ضابطہ پہ خوب مشق کرو۔
اب وہ سینگ پھنسانے والی چیز ٹھری نری جاہل ۔۔۔۔۔ الف سے لام لا لٹو نہیں پتہ اسکو وہ سیدھے پمارے دوست کے پاس آیا اور آنٹی کی دی ہوئی مشق کو انجام تک پہچانے کی دوخواست کی پہلے تو ہمارے دوست نے منع کیا کہ ، نہ کر اوے کہ اگر میں نے اسکا جواب لکھ دیا تو آنٹی نے تجھے دیوار کے ساتھ لگا کے وہ کرنا ہے کہ وہاں وہاں تیرے زخم آئیں گے کہ کسی کو دکھا کہ ہمدردی بھی نہیں لے سکے گا۔۔۔۔۔ لیکن نہیں بھئی سینگ پھنسانے والی چیز کوئی آخری ڈھیت مانا ہی نہیں تو پھر ہمارے دوست کہا چل جیسی تیری مرضی ۔۔۔۔۔
ہمارا دوست نیٹ پہ بیٹھا اور مشقی میٹر کیلئے گوگل بگھوان کو عرضی دی۔ انہوں نے جواب میں مندرجہ ذیل "مواد"باہر پھینکا
۔"دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے
بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا"۔
اور ساتھ ہی یہ جواب لکھ کر سینگ پھنسانے والی چیز کے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ ایک پڑھے لکھے جوڑے کی شادی اس شق کے ساتھ ہوتی ہے۔ دونوں بڑی محبت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں ۔لوگ بھی اس جوڑے پہ رشک کرتے ہیں۔ شادی کے بعد شوہر بیوی کو ملازمت کا نہ صرف اختیار دیتا ہے بلکہ اپنے سے بھی اچھی ملازمت اس کیلئے تلاش لیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد شوہر مزید کوشش کر کے بیوی کیلئے بیرون ملک بھی ایک ملازمت تلاش لیتا ہے۔ بیوی بیرون ملک چلی جاتی ہے۔ اپنی عمدہ کار گذاری کی وجہ سے اسے اس سے بھی اچھی ملازمت دوسری جگہ مل جاتی ہے۔شوہر سے بھی رابطہ میں رہتی ہے۔ ادھر میاں بھی اپنے لئے باہر کی ملازمت تلاش کرتا ہے، دوران تلاش وہ ٹارگیٹ کلنگ کی زد میں آتا ہے اور اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھتا ہے۔ رہی سہی نوکری بھی چلی جاتی ہے۔ بیوی ضروری کاموں کی وجہ سے وطن نہیں آپاتی البتہ شوہر کا سرمایہ ختم ہوجانے کے بعد علاج کا تھوڑا خرچہ اٹھاتی ہے۔ سوئے اتفاق یہ کہ ایک بار میاں اپنا منھ دھوتا ہے اور بجائے پانی کی بوتل اٹھانے کے تیزاب کی بوتل اٹھا تا ہے۔ گرمی زیادہ ہونی کی وجہ سے چھینٹے نہیں مارتا بلکہ بوتل چہرے پہ انڈیلتا ہے ۔علاج بسیار کے بعد جان تو بچ جاتی ہے مگر چہرہ مکروہ ہوجاتا ہے۔ بیوی ضروری کام نپٹا کر وطن آتی ہے ۔ شوہر کی یہ حالت دیکھ کر اسکی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ کچھ دن تو برداشت کرتی ہے پر ایک دن شوہر سے کہہ دیتی ہے کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ کیوں؟ ان احوال میں تم مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے۔ لیکن یہ تو میرے ساتھ حادثہ ایسا ہوگیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ میں نہیں جانتی۔میں نے تمہارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا تھا۔ تمہارے لئے یہاں بھی ملازمت تلاش کی تھی اور باہر بھی۔ اسکا کچھ تو خیال کرو۔ دیکھو میں نے تمہارے چہرے کے علاج میں اتنا پیسا خرچ کیا ہے کہ اتنا تم نے ابھی تک کمایا بھی نہیں ہوگا۔ تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک کیا ہے اس پہ میں شکریہ ادا کرتی ہوں لیکن میں اس وقت تمہاری تلاش کی ہوئی ملازمت پہ نہیں ہوں میں تو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے اپنا ایک الگ جہان بنا چکی ہوں۔ لیکن میرا کچھ تو سوچو، میرا آگے کیا ہوگا میرے تو رشتہ دار بھی نہیں ہیں۔ یہ سر دردی تمہاری ہے۔ تو اب تم کیا چاہتی ہو؟میں شق اٹھارہ میں دیا ہوا حق استعمال کرنا چاہتی ہوں
سوال یہ ہے کہ جب تک میٹھا میٹھا رہا بیوی ہپ ہپ کرتی رہی جونہی کڑوا شروع ہوا بیوی نے تھو تھو کرنا شروع کر دیا
جب وہ سینگ پھنسانے والی چیز اپنا کام استانی کو دکھانے کیلئے لے گئے تاکہ پیٹھ پہ "یو آر اے سمارٹ بوئے کے تعریفی جملہ کے ساتھ شاباشی کی تھپکی لیں۔ انہوں نے کام ملاحظہ کیا۔ بعد ملاحظہ کے حکم دیا کہ ہاٹھ اٹھاؤ۔ اٹھا لئے۔ "دیوار سے لگ جاؤ"۔ لگ گئے۔ انہوں نے "دیوار سے لگانے" کے بعد تھپکی لی اور پیٹھ پہ جو بجائی ہے ( اور صرف تھپکی ہی نہیں بیلن چکلا جھاڑو گلاس۔ و علی ہذا القیاس) تو سینگ پھنسانے والے بیٹھنے اور سونے کے لائق نہیں رہے دو دن سے گھوڑے کی طرح کھڑے کھڑے سورہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ پیٹھ پہ وہ والی تھپکی کے بجائے یہ والی تھپکی کیوں پڑی؟
Tuesday, June 7, 2011
تمام خداوں سے بہتر خدا۔
ہم سب ایک شخص کے نہایت عجیب و غریب استدلال کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جہاں پہلے وہ عقل استعمال کرتا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ عقل استعمال ہی ایک نیوٹرل بندے اور غیر مسلم کے پوائنٹ آف ویو سے کی تھی۔ پھر وہ خدا کا انٹرویو کر آتا ہے اپنی لاشعوری کوشش کہ اس کو لا دین نہ سمجھا جائے۔ عجب تضاد کا شکار ہے۔ پھر برسوں گمنامی میں سونے والا ایک اور شخص جو کہ نہایت دعووں کے ساتھ گیا تھا پھر نمودار ہوتا ہے اور اپنی لا یعنی باتوں کا آغاز کر لیتا ہے حتی کہ غیروں کی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مانند دوسرے بلاگز پر پرائے پھڑے میں ٹانگ اڑا لیتا ہے اور واپس جا کر مالک کو اپنی کارگزاری سنا رہا ہوتا ہے۔
یہ شخص جا بجا ترجمہ کرتا ہے اور اخلاقی جرات کا یہ عالم ہے کہ کہیں بتانے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ سب اس کا لکھا نہیں عجب فراڈ انسان ہے۔ فلپائن میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ جلا لیا۔ آگے کی کہانی اس کو خوب معلوم ہے۔ اللہ واقعی بے نیاز ہے مگر اگر وہ اتنا ہی بے نیاز ہے تو لوگوں کو حساب کیونکر لے گا؟ جنت قدموں تلے رکھنے والیوں کو ایک یہ بھی پڑھ لینا چاہئے۔ کیونکہ بارہا ثابت ہو چکا کہ اس نے قران سمجھنا تو دور کی بات ترجمے سے پڑھ بھی نہیں رکھا۔ اور ہم تمام لوگوں کے لئے درج کی گئِ تمام آیات اہم ہیں مگر اہم ترین آخری والی۔
يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾
وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠﴾
ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١﴾
جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ﴿١٢﴾
خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾
اور جب ان سے کہا گیا جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں
یہ شخص جا بجا ترجمہ کرتا ہے اور اخلاقی جرات کا یہ عالم ہے کہ کہیں بتانے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ سب اس کا لکھا نہیں عجب فراڈ انسان ہے۔ فلپائن میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ جلا لیا۔ آگے کی کہانی اس کو خوب معلوم ہے۔ اللہ واقعی بے نیاز ہے مگر اگر وہ اتنا ہی بے نیاز ہے تو لوگوں کو حساب کیونکر لے گا؟ جنت قدموں تلے رکھنے والیوں کو ایک یہ بھی پڑھ لینا چاہئے۔ کیونکہ بارہا ثابت ہو چکا کہ اس نے قران سمجھنا تو دور کی بات ترجمے سے پڑھ بھی نہیں رکھا۔ اور ہم تمام لوگوں کے لئے درج کی گئِ تمام آیات اہم ہیں مگر اہم ترین آخری والی۔
يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾
وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠﴾
ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١﴾
جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ﴿١٢﴾
خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾
اور جب ان سے کہا گیا جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں
Monday, June 6, 2011
اعترافی اور اقبالی بیان
ایک مینڈکی نے خفیہ طور پر اپنا نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر ہمارے اوے چینل کے نمائندے کو اپنا اعترافی اور اقبالی بیان ارسال کیا ہے جس کو من و عن آپک قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا کسی بھی قسم کی مماثلت کو غیر اختیاری مماثلت سمجھا جائے
بقول اور فعل مینڈکی کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ میں سے اکثر لوگ مجھے اچھی طرح جانتے اور پہچا نتے ہیں اور جو نہیں جانتے میں ان کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں ایک مینڈکی ہوں۔
آئیے میں آپ کو مزید اپنے بارے میں بتاتی ہوں۔
میرا مسکن پانی کے قریبی علاقوں میں ہوتا ہے۔ میدانی اور پہاڑی علاقوں اور وہاں کی مخلوقات سے مجھے سخت نفرت ہے۔
میری وہ خوبی جو مجھے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے میری پُھدکنا۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہر وقت میں تو بس پھدکتی رہتی ہوں۔ حاسدین اسی بات سے ہی بہت جلتے ہیں کہ میں گھر آرام سے کیوں نہیں بیٹھتی۔
دوسرے مینڈکوں کی طرح میرے دل کے بھی تین خانے ہیں۔ ایک خانہ "اُن" کیلیے اور باقی دو خانے میرے دو دوستوں ع غ کیلیے!
میرے سر میں زہریلے غدود پائے جاتے ہیں جو مجھے دشمنوں کا نوالہ بننے سے محفوظ رکھتے ہیں اور میری سوچ کو زہریلا کرتے ہیں۔ میری زبان کافی لمبی اور زہریلی ہے جس کی مدد سے میں اپنے آس پاس چھوٹے موٹے کیڑوں کو ایک پل میں چٹ کر جاتی ہوں۔
جب موافق موسم شروع ہوتا ہے تو میں راتوں کواٹھ کر ٹرٹرانا شروع کر دیتی ہوں اور ارد گرد کے مینڈک جو کہ کنویں کے مینڈک نہیں ہوتے، میری پکار پر لبیک کہتے ہوئے میری طرف لپکتے ہیں۔
میں دیگر جاہل اور ان پڑھ مینڈکیوں کے بر عکس صرف ایک بچے کی قائل ہوں اور دیگر ہزاروں انڈے ضائع کر دیتی ہوں۔ میں ان جاہلوں کو میٹامارفوسس کا عمل اور اس کے نقصانات بھی سمجھاتی رہتی ہوں۔
حد سے زیادہ ٹرٹرانے کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے مجھے زکام ہوا جو کہ اب بخار میں تبدیل ہو چکا ہے۔
بقول اور فعل مینڈکی کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ میں سے اکثر لوگ مجھے اچھی طرح جانتے اور پہچا نتے ہیں اور جو نہیں جانتے میں ان کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں ایک مینڈکی ہوں۔
آئیے میں آپ کو مزید اپنے بارے میں بتاتی ہوں۔
میرا مسکن پانی کے قریبی علاقوں میں ہوتا ہے۔ میدانی اور پہاڑی علاقوں اور وہاں کی مخلوقات سے مجھے سخت نفرت ہے۔
میری وہ خوبی جو مجھے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے میری پُھدکنا۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہر وقت میں تو بس پھدکتی رہتی ہوں۔ حاسدین اسی بات سے ہی بہت جلتے ہیں کہ میں گھر آرام سے کیوں نہیں بیٹھتی۔
دوسرے مینڈکوں کی طرح میرے دل کے بھی تین خانے ہیں۔ ایک خانہ "اُن" کیلیے اور باقی دو خانے میرے دو دوستوں ع غ کیلیے!
میرے سر میں زہریلے غدود پائے جاتے ہیں جو مجھے دشمنوں کا نوالہ بننے سے محفوظ رکھتے ہیں اور میری سوچ کو زہریلا کرتے ہیں۔ میری زبان کافی لمبی اور زہریلی ہے جس کی مدد سے میں اپنے آس پاس چھوٹے موٹے کیڑوں کو ایک پل میں چٹ کر جاتی ہوں۔
جب موافق موسم شروع ہوتا ہے تو میں راتوں کواٹھ کر ٹرٹرانا شروع کر دیتی ہوں اور ارد گرد کے مینڈک جو کہ کنویں کے مینڈک نہیں ہوتے، میری پکار پر لبیک کہتے ہوئے میری طرف لپکتے ہیں۔
میں دیگر جاہل اور ان پڑھ مینڈکیوں کے بر عکس صرف ایک بچے کی قائل ہوں اور دیگر ہزاروں انڈے ضائع کر دیتی ہوں۔ میں ان جاہلوں کو میٹامارفوسس کا عمل اور اس کے نقصانات بھی سمجھاتی رہتی ہوں۔
حد سے زیادہ ٹرٹرانے کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے مجھے زکام ہوا جو کہ اب بخار میں تبدیل ہو چکا ہے۔
Tuesday, May 24, 2011
کیا قرآن پچھلی کتابوں سے کاپی شدہ انسانی کلام ہے ؟
ہمارے ایک درینہ دوست نے وہ تحاریر جو کہ آج کل لوگوں کے زہنوں کو منتشر کرنے کے لیے لکھی جا رہی ہیں ، کہ جواب میں کچھ تحقیق کری ہیں ان شاءاللہ ان کی یہ تحریر بہت فائدہ دے گی کچھ اقتباسات یہاں لکھ دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا قرآن پچھلی کتابوں سے کاپی شدہ انسانی کلام ہے ؟
یہ بہتان سب سے پہلے مکہ کے کفار و مشرکین نے قرآن پر لگایا تھا، اللہ نے قرآن ہی میں انکے ان تمام وساوس کا جواب دے دیا تھا، پھر بھی بعد میں یہود ونصاری نے باوجود اپنی کتابوں میں ہی اس کتاب کے سچی ہونے کی گواہیوں کے’ محض اپنے عناد و تکبر کی وجہ سے اسے دوہرایا اور آج بھی انکے پیروکار جان بوجھ کر یا جہالت میں ان وساوس کو کاپی کرتے آرہے ہیں۔
باقی کی تحریر اس بلاگ پر پڑھی جاسکتی ہے اور تبصرے بھی اس بلاگ پر کئے جا سکتے ہیں
جزاک اللہ خیر
کیا قرآن پچھلی کتابوں سے کاپی شدہ انسانی کلام ہے ؟
یہ بہتان سب سے پہلے مکہ کے کفار و مشرکین نے قرآن پر لگایا تھا، اللہ نے قرآن ہی میں انکے ان تمام وساوس کا جواب دے دیا تھا، پھر بھی بعد میں یہود ونصاری نے باوجود اپنی کتابوں میں ہی اس کتاب کے سچی ہونے کی گواہیوں کے’ محض اپنے عناد و تکبر کی وجہ سے اسے دوہرایا اور آج بھی انکے پیروکار جان بوجھ کر یا جہالت میں ان وساوس کو کاپی کرتے آرہے ہیں۔
باقی کی تحریر اس بلاگ پر پڑھی جاسکتی ہے اور تبصرے بھی اس بلاگ پر کئے جا سکتے ہیں
جزاک اللہ خیر
Tuesday, May 10, 2011
جو یہاں کرو تو حرام اور وہاں ہوا تو حلال
یہ بھی صرف ایک خبر ہے اور صرف یہ جانے کے لئے کہ ھیتھرو پر کتنے فیصد روشن خیال اور ترقی پسند لوگ ہوتے ہیں اور کس ملک کے شہر میں موجود ہے یہ پوائی اڈاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے فیصد تاریک خیال بستے ہیں ان روشن خیالوں کے درمیان
اور ایک بات اور برائے مہربانی اعداد و شمار مصدقہ ہونے چاہیے نیز یہ بھی اگر معلوم چل جائے کہ اسکی آخر وجہ کیا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں ایک بات یہ کہ اگر اسطرح کبھی بھی کہیں بھی مردوں کا کنوارہ پن جانچا ہے انہوں نے تو وہ حوالہ بھی مل جاتا تو مشکل آسان ہو جاتی بہت سے لوگوں کی
انیس سو ستر کے عشرے میں برطانیہ کے ويزا ضابطوں کے تحت جنوبی ایشیائی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کرنے کے بارے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ویزا دینے کے لیے لڑکیوں کی دوشیزگی کی جانچ کا معاملہ جتنا سمجھا جا رہا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔
فروری 1979 میں کنوارے پن یا دوشیزگی کی جانچ کے بارے میں انکشاف اور ہنگامہ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ حکومت نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس طرح کے ایک دو معاملے ہوئے تھے لیکن آسٹریلیائی محققوں کے ہاتھ بعض ایسی فائلیں آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کم ازکم 80 بھارتی خواتین کو برطانیہ آنے کے لیے اس ہتک آمیز عمل سے گزرنا پڑا تھا۔
اس انکشاف کے بعد اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت معافی مانگے۔
برطانوی قانون کے تحت تیس برس گزرنے کے بعد اس طرح کی فائلوں کی کاپی نکالنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اسی کے تحت آسٹریلیائی محققوں نے کئی محکموں سے دستاویزات حاصل کی ہیں۔
ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک سے شادی کر کے برطانیہ میں جا کر بسنے والی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کے ایک دو نہین بلکہ متعدد واقعات ہوئے تھے اور یہ جانچ سرکاری پالیسی کا حصہ تھی۔
لندن سے چھپنے والے اخبار ''گارڈین '' میں خبر شائع ہو نے کے بعد فروری 1979 میں برطانوی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے جانچ کے عمل پر پابندی لگا دی تھی۔
ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے شعبۂ قانون کے محقق اے ون سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت برطانوی حکومت نے بس ایک دو ایسے واقعات کی بات تسلیم کی تھی لیکن یہ سچ نہیں تھا۔
سمتھ نے کہا ’برطانیہ کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزیراعظم کے دفتر سے ہم نے جو کاغذات حاصل کیے ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ 1970 کے عشرے میں بھارت میں دلی اور مُمبئی میں 80 خواتین کی جانچ ہوئی تھی۔ ’ہمارے پاس پاکستان اور بنگنہ دیش کے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جتنا سمجھا جا رہا تھا یہ معاملہ اس سے کافی بڑا ہے‘۔
فروری 1979 میں اس معاملے کے سامنے آنے پر جوائنٹ کاؤنسل آن ویلفیر آف مائگرینٹس نے اس کی کافی مخالفت کی تھی۔
1960 میں قائم کیے گئے اس ادارے کی قانونی معاملات کی سربراہ حنا ماجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی شرمناک معاملہ ہے اور جس کے لیے حکومت کو معافی مانگنی چاہیے ۔
وہ کہتی ہیں ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جنوبی ایشیائی خواتین سے ہونے والی ان ذیادتیوں پر معافی مانگے کیونکہ یہ ایک شرمناک اور نفرت انگیز عمل تھا۔ اس بات کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کیونکہ یہ عمل خواتین، مائگرینٹس اور انسانی حقوق کے تئیں اہانت کے جزبات کا عکاس تھا‘۔
آسٹریلیائی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی نوجوان لڑکیوں کے کنوارے پن کی میڈیکل جانچ کے واقعات دلی اور مُمبئی میں واقع ویزا دفاتر میں اور کئی بار برطانیہ پہنچنے پر ہیتھرو ائر پورٹ پر بھی پیش آئے تھے۔
اور ایک بات اور برائے مہربانی اعداد و شمار مصدقہ ہونے چاہیے نیز یہ بھی اگر معلوم چل جائے کہ اسکی آخر وجہ کیا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں ایک بات یہ کہ اگر اسطرح کبھی بھی کہیں بھی مردوں کا کنوارہ پن جانچا ہے انہوں نے تو وہ حوالہ بھی مل جاتا تو مشکل آسان ہو جاتی بہت سے لوگوں کی
انیس سو ستر کے عشرے میں برطانیہ کے ويزا ضابطوں کے تحت جنوبی ایشیائی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کرنے کے بارے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ویزا دینے کے لیے لڑکیوں کی دوشیزگی کی جانچ کا معاملہ جتنا سمجھا جا رہا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔
فروری 1979 میں کنوارے پن یا دوشیزگی کی جانچ کے بارے میں انکشاف اور ہنگامہ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ حکومت نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس طرح کے ایک دو معاملے ہوئے تھے لیکن آسٹریلیائی محققوں کے ہاتھ بعض ایسی فائلیں آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کم ازکم 80 بھارتی خواتین کو برطانیہ آنے کے لیے اس ہتک آمیز عمل سے گزرنا پڑا تھا۔
اس انکشاف کے بعد اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت معافی مانگے۔
برطانوی قانون کے تحت تیس برس گزرنے کے بعد اس طرح کی فائلوں کی کاپی نکالنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اسی کے تحت آسٹریلیائی محققوں نے کئی محکموں سے دستاویزات حاصل کی ہیں۔
ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک سے شادی کر کے برطانیہ میں جا کر بسنے والی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کے ایک دو نہین بلکہ متعدد واقعات ہوئے تھے اور یہ جانچ سرکاری پالیسی کا حصہ تھی۔
لندن سے چھپنے والے اخبار ''گارڈین '' میں خبر شائع ہو نے کے بعد فروری 1979 میں برطانوی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے جانچ کے عمل پر پابندی لگا دی تھی۔
ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے شعبۂ قانون کے محقق اے ون سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت برطانوی حکومت نے بس ایک دو ایسے واقعات کی بات تسلیم کی تھی لیکن یہ سچ نہیں تھا۔
سمتھ نے کہا ’برطانیہ کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزیراعظم کے دفتر سے ہم نے جو کاغذات حاصل کیے ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ 1970 کے عشرے میں بھارت میں دلی اور مُمبئی میں 80 خواتین کی جانچ ہوئی تھی۔ ’ہمارے پاس پاکستان اور بنگنہ دیش کے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جتنا سمجھا جا رہا تھا یہ معاملہ اس سے کافی بڑا ہے‘۔
فروری 1979 میں اس معاملے کے سامنے آنے پر جوائنٹ کاؤنسل آن ویلفیر آف مائگرینٹس نے اس کی کافی مخالفت کی تھی۔
1960 میں قائم کیے گئے اس ادارے کی قانونی معاملات کی سربراہ حنا ماجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی شرمناک معاملہ ہے اور جس کے لیے حکومت کو معافی مانگنی چاہیے ۔
وہ کہتی ہیں ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جنوبی ایشیائی خواتین سے ہونے والی ان ذیادتیوں پر معافی مانگے کیونکہ یہ ایک شرمناک اور نفرت انگیز عمل تھا۔ اس بات کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کیونکہ یہ عمل خواتین، مائگرینٹس اور انسانی حقوق کے تئیں اہانت کے جزبات کا عکاس تھا‘۔
آسٹریلیائی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی نوجوان لڑکیوں کے کنوارے پن کی میڈیکل جانچ کے واقعات دلی اور مُمبئی میں واقع ویزا دفاتر میں اور کئی بار برطانیہ پہنچنے پر ہیتھرو ائر پورٹ پر بھی پیش آئے تھے۔
Tuesday, May 3, 2011
مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
میں کیا اور میری اوقات کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر چاہوں بھی تو اس بات پر اللہ کا شکر ادا نہیں کر سکتا چاہے ساری عمر ایک ہی سجدہ میں کیوں نہ گزار دوں کے ایک سانس اندر گیا اور پھر واپس آجائے باہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میری ماں،باپ کی، اور میری اہلیہ اور میرے ان تمام بے شمار دوستوں کی دعاوں کا نتیجہ ہے کہ جب بھی دل میں خواہش جنم لیتی ہے کہ بیت اللہ کی سعادت کی جائے یا آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رودضہ پر نور کی سعادت کی جائے تو یقین جانئے اللہ پاک بغیر کسی مشقت کے خیر و عافیت کے ساتھ پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب تک یہاں نہیں آیا تھا تو اکثر یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ یا اللہ صرف ایک مرتبہ اپنے گھر کی اور روضہ رسول کی زیارت کر وادے کہ آخر کو ایک مرتبہ دیکھوں تو صحیح اس مقام اس جگہ کو کہ جس کی جانب رخ کر کے اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ اس شہر اور اس ہستی کے روضہ کا دیدار تو کروا دے یا اللہ کہ جس کی وجہ سے یہ کائنات تخلیق کی گئی اور جو محسن انسانیت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمداللہ ثمہ الحمداللہ، اللہ پاک نے یہ سعادت بخشی کہ کئی مرتبہ جانا ہو چکا ہے دونوں مقدس مقامات پر اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین جانئے میں جب بھی جاتا ہوں تو یہ لگتا ہے کہ پہلی مرتبہ آہا ہوں کہ دیدار سے دل ہی نہیں بھرتا اور میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ کم سے کم ایک مرتبہ ہر مسلمان کو حج بیت اللہ اور روضہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب فرمائے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جانے سے پہلے ان تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہوں کہ جنکو میری وجہ سے دانستہ اور غیردانستہ تکلیف پہنچی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہم سب کے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرمائے
یہ میری ماں،باپ کی، اور میری اہلیہ اور میرے ان تمام بے شمار دوستوں کی دعاوں کا نتیجہ ہے کہ جب بھی دل میں خواہش جنم لیتی ہے کہ بیت اللہ کی سعادت کی جائے یا آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رودضہ پر نور کی سعادت کی جائے تو یقین جانئے اللہ پاک بغیر کسی مشقت کے خیر و عافیت کے ساتھ پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب تک یہاں نہیں آیا تھا تو اکثر یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ یا اللہ صرف ایک مرتبہ اپنے گھر کی اور روضہ رسول کی زیارت کر وادے کہ آخر کو ایک مرتبہ دیکھوں تو صحیح اس مقام اس جگہ کو کہ جس کی جانب رخ کر کے اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ اس شہر اور اس ہستی کے روضہ کا دیدار تو کروا دے یا اللہ کہ جس کی وجہ سے یہ کائنات تخلیق کی گئی اور جو محسن انسانیت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمداللہ ثمہ الحمداللہ، اللہ پاک نے یہ سعادت بخشی کہ کئی مرتبہ جانا ہو چکا ہے دونوں مقدس مقامات پر اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین جانئے میں جب بھی جاتا ہوں تو یہ لگتا ہے کہ پہلی مرتبہ آہا ہوں کہ دیدار سے دل ہی نہیں بھرتا اور میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ کم سے کم ایک مرتبہ ہر مسلمان کو حج بیت اللہ اور روضہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب فرمائے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جانے سے پہلے ان تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہوں کہ جنکو میری وجہ سے دانستہ اور غیردانستہ تکلیف پہنچی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہم سب کے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرمائے
Monday, April 18, 2011
یہ آیک خبر ہے اسکو صرف خبر سمجھ کر پڑھا جائے
مہنگے علاقے کے ایک جدید کلینک میں نوجوان عرب خواتین ایسے آپریشن کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں جس سے نہ صرف ان کی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ شاید بچ بھی جائے۔آپریشن کا خرچہ سترہ سو پاؤنڈ ہے اور اس میں خطرے کی کوئی بات نہیں۔
یہ کلینک دبئی یا قاہرہ میں نہیں بلکہ پیرس میں واقع ہے اور وہاں موجود خواتین آپریشن کے ذریعے کنوارپن کی بحالی چاہتی ہیں۔
ایشیا اور عالم ِعرب میں شادی سے پہلے کنوارپن ختم ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین کی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد یہ معلوم ہونے پر کہ وہ پہلے ہی مباشرت کی مرتکب ہو چکی ہیں انہیں قتل بھی کیا جا سکتا یا کم سے کم برادری سے تونکال ہی دیاجائےگا۔
اب یہ خواتین آپریشن کے ذریعے ماضی کے جنسی فعل کے تمام نشان مٹا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ شادی کی رات ان کے بستر پر خون کے داغ نظر آئیں۔
خواتین کنوارپن کے حوالے سے دباؤ میں آ کر بعض اوقات اپنی جان لینے پر بھی مجبور ہو جاتی ہیں۔ کلینک میں پیرس کے آرٹ کالج کی ایک طالبہ بھی موجود تھی جو اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتی۔ وہ پیرس میں پیدا ہوئی لیکن عرب روایات ان کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جنسی تعلقات قائم کرنے کے بعد میں نے اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سوچا کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا حل نظر نہیں آتا تھا۔‘ لیکن اب ان کے پاس حل موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ ان کے ماضی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہو، خاص طور پر ان کے ہونے والے شوہر کو۔
کنوارپن کی بحالی کا آپریشن تقریباً تیس منٹ میں مکمل ہوتا جس دوران عورت کی جھلی کو دوبارہ جوڑ دیا جاتا ہے۔ کلینک کے مالک ڈاکٹر مارک نے بتایا کہ ان کے مریضوں کی اوسط عمر پچیس سال ہے۔ اس طرح کے آپریشن دنیا بھر میں ہو رہے ہیں لیکن ڈاکٹر مارک واحد عرب سرجن ہیں جو اس کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔
چینی طب میں تو کنوارپن کی بحالی آپریشن کے بغیر بھی ممکن ہے۔ ایک ویب سائٹ پر بیس پاؤنڈ میں مصنوعی جھلیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔چینی جھلی ایلاسٹک سے بنتی اور اس کو مصنوعی خون سے بھرا جاتا ہے۔
کیا اسکو روشن خیالی کہا جائے دھوکہ دہی یا پھر دین سے بے انتہا دوری
لبنانی خاتون ندا نے بتایا کہ وہ شادی سے پہلے سات سال تک ایک لڑکے کے ساتھ رہی، لیکن اس لڑکے کے گھر والے کہیں اور رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ان کی شادی نہ ہو سکی۔
ندا کی اب شادی ہو چکی ہے اور ان کے دو بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے آپریشن کے ذریعے دوبارہ جھلی بحال کروائی تھی۔ ’شادی کی رات میں بالکل سو نہیں سکی۔ بہت ڈری ہوئی تھی لیکن اسے بالکل شک نہیں ہوا۔ میں تمام رات روتی رہی۔‘
شام کے ایک عالم شیخ محمد نے بتایا کہ کنوارپن کے بارے میں لوگوں کو رویے روایت پر مبنی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی عیسائی آبادی بھی عورت کے کوارپن کے بارے میں اتنے ہی کٹر نظریات رکھتے ہیں۔
عرب مبصر ثنا الخیاط کے مطابق یہ سارا معاملہ ’کنٹرول‘ کا ہے۔ ’اگر وہ کنواری ہے تو اپنے شوہر کا کسی دوسرے مرد سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کے دوسرے مردوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر وہ تجربہ کار ہو گی۔ تجربہ انہیں طاقت دیتا ہے۔‘
یہ کلینک دبئی یا قاہرہ میں نہیں بلکہ پیرس میں واقع ہے اور وہاں موجود خواتین آپریشن کے ذریعے کنوارپن کی بحالی چاہتی ہیں۔
ایشیا اور عالم ِعرب میں شادی سے پہلے کنوارپن ختم ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین کی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد یہ معلوم ہونے پر کہ وہ پہلے ہی مباشرت کی مرتکب ہو چکی ہیں انہیں قتل بھی کیا جا سکتا یا کم سے کم برادری سے تونکال ہی دیاجائےگا۔
اب یہ خواتین آپریشن کے ذریعے ماضی کے جنسی فعل کے تمام نشان مٹا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ شادی کی رات ان کے بستر پر خون کے داغ نظر آئیں۔
خواتین کنوارپن کے حوالے سے دباؤ میں آ کر بعض اوقات اپنی جان لینے پر بھی مجبور ہو جاتی ہیں۔ کلینک میں پیرس کے آرٹ کالج کی ایک طالبہ بھی موجود تھی جو اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتی۔ وہ پیرس میں پیدا ہوئی لیکن عرب روایات ان کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جنسی تعلقات قائم کرنے کے بعد میں نے اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سوچا کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا حل نظر نہیں آتا تھا۔‘ لیکن اب ان کے پاس حل موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ ان کے ماضی کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہو، خاص طور پر ان کے ہونے والے شوہر کو۔
کنوارپن کی بحالی کا آپریشن تقریباً تیس منٹ میں مکمل ہوتا جس دوران عورت کی جھلی کو دوبارہ جوڑ دیا جاتا ہے۔ کلینک کے مالک ڈاکٹر مارک نے بتایا کہ ان کے مریضوں کی اوسط عمر پچیس سال ہے۔ اس طرح کے آپریشن دنیا بھر میں ہو رہے ہیں لیکن ڈاکٹر مارک واحد عرب سرجن ہیں جو اس کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔
چینی طب میں تو کنوارپن کی بحالی آپریشن کے بغیر بھی ممکن ہے۔ ایک ویب سائٹ پر بیس پاؤنڈ میں مصنوعی جھلیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔چینی جھلی ایلاسٹک سے بنتی اور اس کو مصنوعی خون سے بھرا جاتا ہے۔
کیا اسکو روشن خیالی کہا جائے دھوکہ دہی یا پھر دین سے بے انتہا دوری
لبنانی خاتون ندا نے بتایا کہ وہ شادی سے پہلے سات سال تک ایک لڑکے کے ساتھ رہی، لیکن اس لڑکے کے گھر والے کہیں اور رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ان کی شادی نہ ہو سکی۔
ندا کی اب شادی ہو چکی ہے اور ان کے دو بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے آپریشن کے ذریعے دوبارہ جھلی بحال کروائی تھی۔ ’شادی کی رات میں بالکل سو نہیں سکی۔ بہت ڈری ہوئی تھی لیکن اسے بالکل شک نہیں ہوا۔ میں تمام رات روتی رہی۔‘
شام کے ایک عالم شیخ محمد نے بتایا کہ کنوارپن کے بارے میں لوگوں کو رویے روایت پر مبنی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی عیسائی آبادی بھی عورت کے کوارپن کے بارے میں اتنے ہی کٹر نظریات رکھتے ہیں۔
عرب مبصر ثنا الخیاط کے مطابق یہ سارا معاملہ ’کنٹرول‘ کا ہے۔ ’اگر وہ کنواری ہے تو اپنے شوہر کا کسی دوسرے مرد سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر اس کے دوسرے مردوں سے تعلقات رہے ہیں تو پھر وہ تجربہ کار ہو گی۔ تجربہ انہیں طاقت دیتا ہے۔‘
Monday, April 11, 2011
فارمولا
بہت دن ہو گئے جی اب تو 30 مارچ2011 کو گذرے ہوئے ۔۔۔۔ یہ دن بھی پاکستان کی تاریخ میں کمال کا دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سمجھ گئے نا تو پھر اب کام کی بات ہو جائے
کبھی کسی نے تکون چاند دیکھا ہے، یا کبھی کسی نے ہوائی جہاز کو بانی پر تیرتے اور پانی کے جہاز کو ہوا میں اڑتے دیکھا ہے۔۔۔۔ ارے ناراض نہ ہوں میں تو پوچھ رہا ہوں آپ لوگوں سے ۔۔۔۔
اچھا دیکھنے کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟؟؟؟؟
کچھ لوگ لاجک لگا کر اسکو ممکن کر دیکھانے کی کوشش کریں گے اور آخر تک لگے رہیں گے اپنے اپنے طریقوں سے مگر جو علم رکھتے ہیں وہ شائد یہ کہہ دیں کہ اللہ پاک کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں وہ چاہے تو کچھ بھی کر ستکتا ہے۔۔۔
جی ہاں بےشک اللہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے اور کسی کا محتاج نہیں اور مسلمان ہونے کے ناطہ ہمارا ایمان بھی یہی ہے
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے لئے اس اللہ نے ایک فارمولا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ پہلے ہم انسان وہ کریں جو اللہ نے کہا ہے اسکے بعد اللہ پاک ہر وہ کام ہمارا کر دینگے جس کو عقل بھی کہتی ہے کہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم انسان ڈیڑھ سیانے کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ یا اللہ پاک آپ ہمارا یہ کام کر دیں تو پھر میں آپ کے تمام احکامات مانوں ۔۔۔۔۔۔ اور اس پر ہی جمے رہتے ہیں۔۔۔۔اور رو، رو کے دعائیں کرتے ہیں مطلب صرف دعا خالی خولی بغیر عمل کے۔۔۔۔۔۔
تو آپکا کیا خیال ہے ایسی دعا کس بلندی تک جاتی ہے اور اگر ہم کو دعا کو عرش تک پہنچانا ہے تو کس بات کی اشد ضرورت ہے ؟؟؟؟
کبھی کسی نے تکون چاند دیکھا ہے، یا کبھی کسی نے ہوائی جہاز کو بانی پر تیرتے اور پانی کے جہاز کو ہوا میں اڑتے دیکھا ہے۔۔۔۔ ارے ناراض نہ ہوں میں تو پوچھ رہا ہوں آپ لوگوں سے ۔۔۔۔
اچھا دیکھنے کو چھوڑیں یہ بتائیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟؟؟؟؟
کچھ لوگ لاجک لگا کر اسکو ممکن کر دیکھانے کی کوشش کریں گے اور آخر تک لگے رہیں گے اپنے اپنے طریقوں سے مگر جو علم رکھتے ہیں وہ شائد یہ کہہ دیں کہ اللہ پاک کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں وہ چاہے تو کچھ بھی کر ستکتا ہے۔۔۔
جی ہاں بےشک اللہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے اور کسی کا محتاج نہیں اور مسلمان ہونے کے ناطہ ہمارا ایمان بھی یہی ہے
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے لئے اس اللہ نے ایک فارمولا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ پہلے ہم انسان وہ کریں جو اللہ نے کہا ہے اسکے بعد اللہ پاک ہر وہ کام ہمارا کر دینگے جس کو عقل بھی کہتی ہے کہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم انسان ڈیڑھ سیانے کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ یا اللہ پاک آپ ہمارا یہ کام کر دیں تو پھر میں آپ کے تمام احکامات مانوں ۔۔۔۔۔۔ اور اس پر ہی جمے رہتے ہیں۔۔۔۔اور رو، رو کے دعائیں کرتے ہیں مطلب صرف دعا خالی خولی بغیر عمل کے۔۔۔۔۔۔
تو آپکا کیا خیال ہے ایسی دعا کس بلندی تک جاتی ہے اور اگر ہم کو دعا کو عرش تک پہنچانا ہے تو کس بات کی اشد ضرورت ہے ؟؟؟؟
Sunday, March 6, 2011
میرے دوست
انسان اپنے دستوں سے پہچانا تا ہے یہ بات کتنی درست ہے اسکا اندازہ اب جاکے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حقیقی لائف میں تو دوست رہے نہیں یا یوں کہہ لیں کے مجھ سمیت کسی کے پاس ٹائم ہی نہیں رہا کے کبھی وہی فرصت ہو اور میں اور میرے دوست ہوں ۔۔۔۔۔ بلاوجہ کی باتیں اور ان باتوں پر بلا وجہ ہنسنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو دوستی بھی الیکٹرانک ہوگی ہے ۔۔۔۔۔ جی ہاں اب فرینڈ صرف فیس بک پر، مگر یہاں بھی آپ اپنے فرینڈ لسٹ میں موجود فرینڈز کی وجہ سے ایڈ کیے جایئں گے۔۔۔۔۔
ویسے تو میری فیس بک فرینڈ لسٹ میں 100 سے زیادہ ہی فرینڈز ہیں مگر ان میں سے چند ہی ہیں جنکی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نا ہوگا۔۔۔۔۔۔
اور سب سے مزے کی بات جنکی وجہ سے بدنام ہوئے ان سے ابھی تک ملاقات ہی نہیں ہوئی اب تو ہر دم یہ دعا کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ تمام محترمین سے ملاقات ہوجائے تو انکی ہتھ بوسی کر لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر انسان تو پھر انسان ہے اللہ نے عقل تو دی ہے تو اس ہی کم عقلی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے چند دوستوں کا فرضی خاکہ بنایا ہوا ۔۔
مثلاً دوست جو سب سے زیادہ ڈیڑھ سیانے ہیں انکی شکل سے لگتا ہے کہ شائد کبھی کوئی ڈھنگ کا کام کرسکیں گے سوائے اسکے کہ دوسروں کے باتھ میں پیٹرول دے دیا ساتھ ایک کیوبا کا سگار بھی سلگا دیا اور کہا جا بچے ۔۔۔۔۔۔ اور بچہ اتنا سیدھا کے چلا بھی گیا۔۔۔۔۔
دوسرے دوست ہیں شکل سے تو بلکل گلاب کے پھول کی طرح ہیں ۔۔۔۔۔ مگر انکا فرضی خاکہ کچھ اسطرح ہی کہ چوک میں ایک دودھ کی دوکان کے باہر تھڑے پے پیٹھے ہوئے ہیں دو تین چھوٹے ساتھ ہیں جیسے کہیں کے استاد ہوں اور وہ چھوٹے استاد کے ھاتھ پاؤں اور ٹانگیں دبا رہے ہیں اور استاد صاحب لسی اور مکھن بن سے شغل فرما رہے ہیں
تیسرے دوست تو ہیں ہی انتہائی بدتمیز اور انکا فرضی خاکہ بہت حد تک انکی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے کہ خود کچھ کرنا کرانا نہیں بس کبھی کسی آنٹی کو انکل اور کسی انکل کو آنٹی بنانا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی تو خود سمجھ گئے ہونگے
چوتھے دوست ہمارے اللہ انکو خوش رکھے جہاں رہیں خوش رہیں (آج کل گوشئہ نشین ہیں) اگر آپکو کوئی اپنا ایسا کام جسکو آپ چاہتے ہوں کہ قیامت تک ختم نہ ہو ۔۔۔۔۔ تو ہمارے اس دوست کو دے دیں وہ فوراً سول کورٹ کا جج بن جائے گا اور دیتا رہے گا آپکو ۔۔۔۔۔۔ تاریخ پے تاریخ، تاریخ پے تاریخ، تاریخ پے تاریخ
اور یہ جو ہمارے دوست ہیں۔۔۔۔ انکا کچھ پتی ہی نہیں چلتا کہ کب انکا دماغ پھر جائے اور کب یہ آپکے اپر چڑھائی کر دیں ویسے اب تک کے تجزیے اور فرضی خاکے کے مطابق یہی سب سے نیک انسان ہیں انکو زیادہ ٹینشن ہوتی ہے تو یہ جنگل جنگل نکل جاتے ہیں وہ گیت گنگناتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگل جنگل پتہ لگا ہے ۔۔۔چڈی پہن کر شیر نکلا ہے
اور یہ جو آخری ہیں انکا جو فرضی خاکہ ہے وہ کچھ اسطرح ہے کہ ایک ھاتھ میں سرخ جھنڈا ہوگا اور آفس میں بیٹھے ہونگے اگر مدیر نے کوئی کام کا کہا تو اپکو تو پتہ ہے جھنڈے میں ڈنڈا بھی تو ہوتا ہے
اب تو دوستی بھی الیکٹرانک ہوگی ہے ۔۔۔۔۔ جی ہاں اب فرینڈ صرف فیس بک پر، مگر یہاں بھی آپ اپنے فرینڈ لسٹ میں موجود فرینڈز کی وجہ سے ایڈ کیے جایئں گے۔۔۔۔۔
ویسے تو میری فیس بک فرینڈ لسٹ میں 100 سے زیادہ ہی فرینڈز ہیں مگر ان میں سے چند ہی ہیں جنکی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نا ہوگا۔۔۔۔۔۔
اور سب سے مزے کی بات جنکی وجہ سے بدنام ہوئے ان سے ابھی تک ملاقات ہی نہیں ہوئی اب تو ہر دم یہ دعا کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ تمام محترمین سے ملاقات ہوجائے تو انکی ہتھ بوسی کر لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر انسان تو پھر انسان ہے اللہ نے عقل تو دی ہے تو اس ہی کم عقلی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے چند دوستوں کا فرضی خاکہ بنایا ہوا ۔۔
مثلاً دوست جو سب سے زیادہ ڈیڑھ سیانے ہیں انکی شکل سے لگتا ہے کہ شائد کبھی کوئی ڈھنگ کا کام کرسکیں گے سوائے اسکے کہ دوسروں کے باتھ میں پیٹرول دے دیا ساتھ ایک کیوبا کا سگار بھی سلگا دیا اور کہا جا بچے ۔۔۔۔۔۔ اور بچہ اتنا سیدھا کے چلا بھی گیا۔۔۔۔۔
دوسرے دوست ہیں شکل سے تو بلکل گلاب کے پھول کی طرح ہیں ۔۔۔۔۔ مگر انکا فرضی خاکہ کچھ اسطرح ہی کہ چوک میں ایک دودھ کی دوکان کے باہر تھڑے پے پیٹھے ہوئے ہیں دو تین چھوٹے ساتھ ہیں جیسے کہیں کے استاد ہوں اور وہ چھوٹے استاد کے ھاتھ پاؤں اور ٹانگیں دبا رہے ہیں اور استاد صاحب لسی اور مکھن بن سے شغل فرما رہے ہیں
تیسرے دوست تو ہیں ہی انتہائی بدتمیز اور انکا فرضی خاکہ بہت حد تک انکی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے کہ خود کچھ کرنا کرانا نہیں بس کبھی کسی آنٹی کو انکل اور کسی انکل کو آنٹی بنانا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی تو خود سمجھ گئے ہونگے
چوتھے دوست ہمارے اللہ انکو خوش رکھے جہاں رہیں خوش رہیں (آج کل گوشئہ نشین ہیں) اگر آپکو کوئی اپنا ایسا کام جسکو آپ چاہتے ہوں کہ قیامت تک ختم نہ ہو ۔۔۔۔۔ تو ہمارے اس دوست کو دے دیں وہ فوراً سول کورٹ کا جج بن جائے گا اور دیتا رہے گا آپکو ۔۔۔۔۔۔ تاریخ پے تاریخ، تاریخ پے تاریخ، تاریخ پے تاریخ
اور یہ جو ہمارے دوست ہیں۔۔۔۔ انکا کچھ پتی ہی نہیں چلتا کہ کب انکا دماغ پھر جائے اور کب یہ آپکے اپر چڑھائی کر دیں ویسے اب تک کے تجزیے اور فرضی خاکے کے مطابق یہی سب سے نیک انسان ہیں انکو زیادہ ٹینشن ہوتی ہے تو یہ جنگل جنگل نکل جاتے ہیں وہ گیت گنگناتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگل جنگل پتہ لگا ہے ۔۔۔چڈی پہن کر شیر نکلا ہے
اور یہ جو آخری ہیں انکا جو فرضی خاکہ ہے وہ کچھ اسطرح ہے کہ ایک ھاتھ میں سرخ جھنڈا ہوگا اور آفس میں بیٹھے ہونگے اگر مدیر نے کوئی کام کا کہا تو اپکو تو پتہ ہے جھنڈے میں ڈنڈا بھی تو ہوتا ہے
Saturday, February 26, 2011
جس کا دل چاہے حیا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایک بزرگ ہیں ۔۔۔۔ عمر انکی تقریباً 80 سال تو ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 20 سال کی عمر سے دین کی محنت کو بلا کسی غرض کے کر رہے ہیں ہاں غرض ہے تو صرف اتنی کہ کس طرح سارے کے سارے مسلمان اللہ کی ماننے والے ہو جایئں اور اپنی ساری زندگی اس طرح سے گذاریں جس طرح سے گذرانے کا حکم ہے۔
یہ کوئی آج سے 10 سال پہلے کئ بات ہے بیان فرمارہے تھے اور جب عموعی مجمے میں بات ہوتی ہے تو ایسی عام اور سادہ زبان میں ہوتی ہے کے ہر کسی کے بآسانی سے سمجھ میں آجائے کیونکہ ہر طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں اس قسم کی نشستوں میں ہوتے ہیں۔
اسی بیان میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے انکی سمجھ میں یہ عام اور سیدھی باتیں نہیں آیئں کہ ہانچ وقت کی نماز پڑھو، اللہ کا زکر کرو ، دوسرے مسلمان کا اکرام کرو سارے کے سارے اعمال کرنے کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہونی چاہئے اور جتنا علم اللہ پاک نے عطا کیا ہے اسکو دوسروں تک پہنچاو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اتنی سادہ سی باتیں ہیں کہ جنکو سمجھنا اور سمجھ کر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں بس اللہ پاک کا ہقین ہو اور آخرت کا ۔۔۔۔
بہرحال ڈاکٹر صاحب بیان کے بعد بزرگ صاحب کے باس گئے اور ان سے عرض کی کہ حضرت آپنے ابھی جو بیان فرمایا وہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے تو ان بزرگ نے ان سے تعارف کرا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے فخر سے بتایا کہ میں فلاں شعبے میں ڈاکٹریٹ ہوں ہعنی پی ایچ ڈی ۔۔۔۔۔ بزرگ نے انکی تعلیمی قابلیت تو سراہا اور آخر میں فرماہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ جب کبھی ایسی محفل میں بیٹھو جہاں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بات ہو رہی ہو تو اپنی معلومات کے پاجامے کو اتار کے بیٹھا کرو اپنے دل کے پبالے کو خالی کر کے بیٹھا کرو اس طرح بیٹھا کرو کہ تم کو کچھ نہیں آتا اور کچھ نہیں پتہ ورنہ اگر یہ سوچ کر اور یہ زہن میں رکھ کر بیٹھے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے اور مجھے سب پتہ ہے تو اتنی سی بھی بات سمجھ نہیں آئے گی کہ
نماز میں کل 14 فرض ہیں اور ان میں سے ایک فرض ہے ستر کا ڈھکا ہوا ہونا اگر ستر ڈھکی ہوئی نہ ہو تو نماز نہیں ہوگی اور اور عورتوں کے بال انکی ستر کا حصہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ستر کے کھلے ہونے کا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سب کو پتہ ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اب جس کی مرضی ننگا بابانگ دھل گھومے یا جس کا دل چاہے حیا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ پیغام تو تمام نبیوں کا مشترکہ ہے کہ ۔۔۔۔ جب تم حیا نہ کرو تو جو دل چاہے وہ کرو۔
یہ کوئی آج سے 10 سال پہلے کئ بات ہے بیان فرمارہے تھے اور جب عموعی مجمے میں بات ہوتی ہے تو ایسی عام اور سادہ زبان میں ہوتی ہے کے ہر کسی کے بآسانی سے سمجھ میں آجائے کیونکہ ہر طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں اس قسم کی نشستوں میں ہوتے ہیں۔
اسی بیان میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے انکی سمجھ میں یہ عام اور سیدھی باتیں نہیں آیئں کہ ہانچ وقت کی نماز پڑھو، اللہ کا زکر کرو ، دوسرے مسلمان کا اکرام کرو سارے کے سارے اعمال کرنے کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہونی چاہئے اور جتنا علم اللہ پاک نے عطا کیا ہے اسکو دوسروں تک پہنچاو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اتنی سادہ سی باتیں ہیں کہ جنکو سمجھنا اور سمجھ کر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں بس اللہ پاک کا ہقین ہو اور آخرت کا ۔۔۔۔
بہرحال ڈاکٹر صاحب بیان کے بعد بزرگ صاحب کے باس گئے اور ان سے عرض کی کہ حضرت آپنے ابھی جو بیان فرمایا وہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے تو ان بزرگ نے ان سے تعارف کرا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے فخر سے بتایا کہ میں فلاں شعبے میں ڈاکٹریٹ ہوں ہعنی پی ایچ ڈی ۔۔۔۔۔ بزرگ نے انکی تعلیمی قابلیت تو سراہا اور آخر میں فرماہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ جب کبھی ایسی محفل میں بیٹھو جہاں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بات ہو رہی ہو تو اپنی معلومات کے پاجامے کو اتار کے بیٹھا کرو اپنے دل کے پبالے کو خالی کر کے بیٹھا کرو اس طرح بیٹھا کرو کہ تم کو کچھ نہیں آتا اور کچھ نہیں پتہ ورنہ اگر یہ سوچ کر اور یہ زہن میں رکھ کر بیٹھے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے اور مجھے سب پتہ ہے تو اتنی سی بھی بات سمجھ نہیں آئے گی کہ
نماز میں کل 14 فرض ہیں اور ان میں سے ایک فرض ہے ستر کا ڈھکا ہوا ہونا اگر ستر ڈھکی ہوئی نہ ہو تو نماز نہیں ہوگی اور اور عورتوں کے بال انکی ستر کا حصہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ستر کے کھلے ہونے کا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سب کو پتہ ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اب جس کی مرضی ننگا بابانگ دھل گھومے یا جس کا دل چاہے حیا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ پیغام تو تمام نبیوں کا مشترکہ ہے کہ ۔۔۔۔ جب تم حیا نہ کرو تو جو دل چاہے وہ کرو۔
Saturday, February 19, 2011
در شاباش روشن خیال
دنیا میں 3 قسم کے لوگ ہوتے ہیں اول وہ جو کہتے ہیں ھمکو کسی سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ اپنی لائف میں مست رہتے ہیں دوئم وہ جو کہتے ہیں یار اپنی تو خیر ہے مگر اپنے دوسرے بھائی کا بھلا ہو جائے یہ والی قسم اپ آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جا رہی ہے اور تیسری قسم وہ ہوتی ہے جس میں اتنی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے جیسے بارش کے بعد پتنگوں کی تعداد میں ہوتا ہے تیسری قسم کے حامل افراد کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں
1 - نہ جیو اور نہ جینے دو
2- اگر کوئی خوش قسمتی سے جینے لگے یا جینے کی کوشش کرنے لگے وہیں سے اسکو دھکا دے دو۔
3- کسی کو کبھی کسی حال میں خوش نہیں دیکھو
4 - اور سب سے بڑی خوبی کے کوئی اگر انکے عمل کو ذرا سا بھی غلط کہے تو اس کے اپر فوراً ذہنی پسماندگی کا لیبل لگا دو
اصل میں آج صبح میں ہماری ایک فیس بکی فرینڈ ہیں محترمہ پاپردہ پٹھان صاحبہ انکے بلاگ پر گیا وہاں انکی تحاریر پڑھیں بہت ہی شائستہ اور مہذب الفاظات میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہوا ہے اپنے خیالات تو اپنے دسروں کی خیالات کی ترجمانی بھی کی ہوئی
انکی تحاریر میں ایک تحرہر کسی دوست کی طرف سے الوداعی تحریر بھی ہے جس میں انکے دوست نے اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے بلاگنگ اور نیٹ سرفنگ سے معذرت کی ہے اس تحریر کے تبصروں میں لوگوں نے انکے اس اقدام کو ان لوگوں نے بہت سراہا جو گھر اور گھر میں بسنے والے لوگوں کی اہمیت سے واقف ہیں اور ان لوگوں نے اس فعل کو غیر اہم اور دقیانوس قرار دیا جو دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے انکے لئے انکا اپنا آپ ہی سب کچھ ہوتا ہے
اصل میں ذندگی میں ترجیحات وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی رہتی ہیں لڑکوں کی ترجیحات شادی سے پہلے کچھ اور، اور شادی کے بعد کچھ اور بلکل اسی طرح لڑکیوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے
اور اصل میں تو جینا ہے ہی دوسروں کے لئے اپنے لئے تو بارہ سنگھا بھی جیتا ہے
پتہ نہیں بات کہاں سے کہاں چلی جائے گی اور نا جانے کتنے روشن خیال لوگ پتہ نہیں کیا کیا کہیں گے مگر بات صرف اتنی سے ہے کہ جس چیز کا پابند کیا گیا ہے اسکو خوش اسلوبی سے کرنے کی کوشش کی جائے اپنی سائنس نہیں لڑائی جائے اور اگر خود کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو جو کوئی دوسرا اچھا کر رہا ہے تو اسکے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے جایئں ۔۔۔
1 - نہ جیو اور نہ جینے دو
2- اگر کوئی خوش قسمتی سے جینے لگے یا جینے کی کوشش کرنے لگے وہیں سے اسکو دھکا دے دو۔
3- کسی کو کبھی کسی حال میں خوش نہیں دیکھو
4 - اور سب سے بڑی خوبی کے کوئی اگر انکے عمل کو ذرا سا بھی غلط کہے تو اس کے اپر فوراً ذہنی پسماندگی کا لیبل لگا دو
اصل میں آج صبح میں ہماری ایک فیس بکی فرینڈ ہیں محترمہ پاپردہ پٹھان صاحبہ انکے بلاگ پر گیا وہاں انکی تحاریر پڑھیں بہت ہی شائستہ اور مہذب الفاظات میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہوا ہے اپنے خیالات تو اپنے دسروں کی خیالات کی ترجمانی بھی کی ہوئی
انکی تحاریر میں ایک تحرہر کسی دوست کی طرف سے الوداعی تحریر بھی ہے جس میں انکے دوست نے اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے بلاگنگ اور نیٹ سرفنگ سے معذرت کی ہے اس تحریر کے تبصروں میں لوگوں نے انکے اس اقدام کو ان لوگوں نے بہت سراہا جو گھر اور گھر میں بسنے والے لوگوں کی اہمیت سے واقف ہیں اور ان لوگوں نے اس فعل کو غیر اہم اور دقیانوس قرار دیا جو دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے انکے لئے انکا اپنا آپ ہی سب کچھ ہوتا ہے
اصل میں ذندگی میں ترجیحات وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی رہتی ہیں لڑکوں کی ترجیحات شادی سے پہلے کچھ اور، اور شادی کے بعد کچھ اور بلکل اسی طرح لڑکیوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے
اور اصل میں تو جینا ہے ہی دوسروں کے لئے اپنے لئے تو بارہ سنگھا بھی جیتا ہے
پتہ نہیں بات کہاں سے کہاں چلی جائے گی اور نا جانے کتنے روشن خیال لوگ پتہ نہیں کیا کیا کہیں گے مگر بات صرف اتنی سے ہے کہ جس چیز کا پابند کیا گیا ہے اسکو خوش اسلوبی سے کرنے کی کوشش کی جائے اپنی سائنس نہیں لڑائی جائے اور اگر خود کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو جو کوئی دوسرا اچھا کر رہا ہے تو اسکے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے جایئں ۔۔۔
Thursday, January 20, 2011
جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے اپنا روپ اور نام تک بدل لیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی جنگل میں ایک بارہ سنگھا رہتا تھا۔ وہ جنگل میں آزادانہ گھومتا پھرتا تھا۔ جنگل کے بعض قطعے ایسے تھے جہاں اسے گھاس وافر مقدار میں میسر تھی۔ وہ ان قطعوں سے خوب گھاس چرتا اور پورے جنگل میں بول و براز کرتا پھرتا۔
اس کی یہ بے باکی بعض جانوروں کو پسند نہ آئی۔ انھوں نے حسد کے مارے بارہ سنگھے کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں جانوروں نے باہمی مشاورت سےشہر کےمنجھے ہوئے شکاریوں سے رابطہ کیا۔ جب شکاری بارہ سنگھے کا شکار کرنے جنگل پہنچے تو انہیں جانوروں نے بارہ سنگھے کی تمام خصلتوں سے آگاہ کیا اور ان پر واضح کیا کہ کیوں اس سے چھٹکارہ پانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
شکاریوں نے بارہ سنگھے کو پھانسنے کیلیے جنگل میں جگہ جگہ پھندے لگا دیے۔ بارہ سنگھا چونکہ یہ سب مشاہدہ کر رہا تھا لہٰذا محتاط ہو گیا اور کسی پھندے میں نہیں آیا۔ تنگ آکر شکاریوں نے دو سو سالہ پرانا طریقہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن کسی خرگوش کی مخبری پر شکاریوں نے بارہ سنگھےکو آن لیا اور اس کے پیچھے شکاری کتے چھوڑ دیے۔ بارہ سنگھا اپنی پوری رفتار سے بھاگا۔ چونکہ اس کی رفتار کتوں سے تیز تھی لہٰذا کتے اور شکاری کافی پیچھے رہ گئے۔ بھاگتے بھاگتے اچانک سامنے جھاڑیاں آ گئیں۔ شکاری یہ دیکھ کر خوش ہو گئے کہ بارہ سنگھے کے سینگ اب جھاڑیوں میں پھنس جائیں گے اور ہم اس کا شکار کر لیں گے مگر بارہ سنگھے کو اپنے پردادا کا انجام معلوم تھا جو ان جھاڑیوں میں اپنے سینگ پھنسا کر کتوں کا شکار بن گیا تھا۔ بارہ سنگھے نے ہائی جمپ کیا اور جھاڑیوں کے اوپر سے گزر گیا اور جنگل میں روپوش ہو گیا۔ شکاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
دن گزرتے گئے۔ شکاریوں اور بارہ سنگھے کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ ایک دن لومڑی نے بارہ سنگھے کو بھیس بدلنے کا مشورہ دیا تاکہ شکاریوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔
وہ دن اور آج کا دن، شکاری اب تک بارہ سنگھے کا شکار کرنے کیلیے سرگرداں ہیں مگر بارہ سنگھا اب بہت چالاک ہو چکا ہے۔ جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے اپنا روپ اور نام تک بدل لیتا ہے۔
اس کی یہ بے باکی بعض جانوروں کو پسند نہ آئی۔ انھوں نے حسد کے مارے بارہ سنگھے کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں جانوروں نے باہمی مشاورت سےشہر کےمنجھے ہوئے شکاریوں سے رابطہ کیا۔ جب شکاری بارہ سنگھے کا شکار کرنے جنگل پہنچے تو انہیں جانوروں نے بارہ سنگھے کی تمام خصلتوں سے آگاہ کیا اور ان پر واضح کیا کہ کیوں اس سے چھٹکارہ پانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
شکاریوں نے بارہ سنگھے کو پھانسنے کیلیے جنگل میں جگہ جگہ پھندے لگا دیے۔ بارہ سنگھا چونکہ یہ سب مشاہدہ کر رہا تھا لہٰذا محتاط ہو گیا اور کسی پھندے میں نہیں آیا۔ تنگ آکر شکاریوں نے دو سو سالہ پرانا طریقہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن کسی خرگوش کی مخبری پر شکاریوں نے بارہ سنگھےکو آن لیا اور اس کے پیچھے شکاری کتے چھوڑ دیے۔ بارہ سنگھا اپنی پوری رفتار سے بھاگا۔ چونکہ اس کی رفتار کتوں سے تیز تھی لہٰذا کتے اور شکاری کافی پیچھے رہ گئے۔ بھاگتے بھاگتے اچانک سامنے جھاڑیاں آ گئیں۔ شکاری یہ دیکھ کر خوش ہو گئے کہ بارہ سنگھے کے سینگ اب جھاڑیوں میں پھنس جائیں گے اور ہم اس کا شکار کر لیں گے مگر بارہ سنگھے کو اپنے پردادا کا انجام معلوم تھا جو ان جھاڑیوں میں اپنے سینگ پھنسا کر کتوں کا شکار بن گیا تھا۔ بارہ سنگھے نے ہائی جمپ کیا اور جھاڑیوں کے اوپر سے گزر گیا اور جنگل میں روپوش ہو گیا۔ شکاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
دن گزرتے گئے۔ شکاریوں اور بارہ سنگھے کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ ایک دن لومڑی نے بارہ سنگھے کو بھیس بدلنے کا مشورہ دیا تاکہ شکاریوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔
وہ دن اور آج کا دن، شکاری اب تک بارہ سنگھے کا شکار کرنے کیلیے سرگرداں ہیں مگر بارہ سنگھا اب بہت چالاک ہو چکا ہے۔ جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے اپنا روپ اور نام تک بدل لیتا ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)