Wednesday, November 26, 2014

کیونکہ میں پاکستان ہوں۔۔


ہمارے ایک بہت ہی قریبی دوست حافظ عبدالناصر کی لکھی ہوئی ایک بر اثر تحریر آپ سب کے لئے بیشِ خدمت ہے ۔۔۔

کیونکہ میں پاکستان ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں لگتا ہے ، کہ کسی نے کراچی کو الگ کرنے کی بات کی تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے ، کہ جیت ہار کے فیصلے پر کسی نے پنجاب کو برا بھلا کہا ، تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔ تمہیں لگتا ہے ، کہ مری غریب جاہل عوام کو بے غیرت کہا گیا تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔
تمہیں لگتا ہے، کہ لوگوں نے جب پاکستان کی امید کے مرنے کی بات کی تو مجھے دکھ نہیں ہوا۔۔۔
تمہیں لگتا ہے، کہ جیتنے والوں کی دھاندلی کا دکھ نہیں ہے مجھے۔۔۔ تمہیں لگتا ہے، کہ ہارنے والوں کے حوصلوں کی تکلیف مری تکلیف نہیں ہے۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے۔۔۔ بلوچ مرے بلوچ نہیں ہہیں۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے، کہ سرائیکیوں کی ہار کا نعرہ مجھے چھلنی نہیں کر رہا۔۔تمہیں لگتا ہے، کہ آرمی کو چوڑیوں کی پیشکش مرا زخم نہیں ہے۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے، کہ انتخابی قافلوں پر حملوں میں مری جان نہیں گئی۔۔۔۔ تمہِیں لگتا ہے کہ ریلیوں پر مرنے والوں کا دکھ نہیں پہنچا مجھ تک۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے ، کہ ایوانوں تک پہنچنے والے بے ضمیروں پر مجھے غصہ نہیں ہے۔۔۔ تمہیں لگتا ہے،ن، پ ق ، انصاف کے خاندانی حکمران مری آنکھوں میں نہین چھبتے۔۔۔۔۔۔
مجھے تم سب سے دکھ ہے ، مگر تم سب میں ہی مرا حوصلہ ہے۔۔۔۔ میں پاکستان ہوں۔۔۔۔ امید مرے جسم میں خون بن کر دوڑتا ہے۔۔۔۔ اور میں کبھی مایوس نہیں ہوتا۔۔۔۔تب بھی نہیں جب تم تھکے ٹوٹے ہارے چہرے اور بچوں جیسی چیخ پکار لے کر شور مچانے لگتے ہو۔۔۔۔ کیونکہ میں تمہاری ماں ہوں۔۔۔۔۔ تم میری اولاد ہو۔۔اچھی بری ہو، نکمی ہوشیار بھی ہو۔۔مگر مری اپنی ہو۔۔۔۔۔ تم مجھے دکھ بھی دو، مگر مری جھولی میں تمہارے لئے دنیا بھر کی دعائیں اور محبت ہے۔۔۔۔۔
بس ، اپنے اپنے کام کرنا، مگر یاد رکھنا۔۔۔۔ مری محبت تب تک ہے، جب تک میں ہوں۔۔۔۔ مری محبت کو مرنے نہ دینا۔۔۔۔ میں اپنی نہیں تمیاری زندگی مانگ رہا ہوں۔۔۔۔ کیونکہ میں پاکستان ہوں۔۔۔۔ بہت دکھ میں ہوں، مگر امید مری رگوں میں اب بھی خون بن کر دوڑ رہی ہے۔۔۔۔ اور مجھے مری ساری اولاد اپنی غلطیوں سمیت عزیز ہے۔۔۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد۔۔۔۔

تو آپﷺ ذکر قیامت تک بلند رہے گا انشاء اللہ


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صاحبزادے کا جب انتقال ہوا تو عرب کے کفار بہت خوش ہوئے ، خونی رشتوں کی عرب میں بہت اہمیت تھی مگر ابو لہب تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا ، جب یہ تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آئی تو اسکی تو جیسے عید ہوگئی۔ صبح ہوئ تو وہ گھر گھر یہ خبر پہنچانے لگا (ابتر محمد اللیلتہ) آج رات محمد کی جڑ کٹ گئی اوروہ لا ولد ہوگئے (نعوذ باللہ )
اس کے بعدمکہ کے ایک سردار عاص بن وائل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ابتر کا لفظ خاص کر دیا جب بھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا تو وہ فورا" منہ بنا کر کہتا کہ ان کی کیا بات کرتے ہو وہ تو ابتر (جڑ کٹے ) آدمی ہیں (نعوذ باللہ ) اس نے اس ابتر والی بات کو خوب پھیلایا یہ بات دو دھاری تلوار کی طرح تھی اس سے انکا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے صاحبزادوں کے انتقال کا غم ستاتا رہے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم سے کٹ کر اس درخت کی مانند ہوگئے ہیں جس کی جڑیں کٹ گئی ہوں اور وہ گرنے ہی والا ہو ( استغفراللہ )
عاص بن وائل طنزا" کہتا یہ بے نسل رہ گئے انکا کوئی نام لیوا نہیں انکا نام مٹ جائے گا ، مسلمان جدھر سے گزرتے تو کفار ابتر ابتر کہہ کر انکا مذاق اڑاتے، جس سے مسلمانوں کو بہت تکلیف ہوتی ،
اللہ تعالی نے لفظ ابتر کے مقابلے میں سورۃ کوثر کو نازل فرمایا ،
اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا پس تم اپنے رب کی نماز پڑھو اور قربانی کرو ، بے شک تہمارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے
جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخالفین کے سامنے پڑھی تو وہ اس کے ادبی حسن سے مبہوت رہ گئے لیکن انہیں لفظ کوثر کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ، چنانچہ وہ لفظ ابتر کو بھول گئے اور لفظ کوثر کے پیچھے پڑ گئے کہ اسکا کیا مطلب ہے ،
لوگ ایک دوسرے کو پوچھنے لگے کہ یہ کوثر کیا ہے، لوگ ماہرین کلام کے آگے پیچھے پھرنے لگے ہر بازار ، ہر گلی ، ہر کوچہ ، ہر محفل میں بس ایک ہی لفظ کی تکرار رہ گئی ، لفظ ابتر کے مقابلے میں لفظ کوثر کا صوتی حسن بہت زیادہ ہے حتیٰ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں سے رجوع کیا اور لفظ کوثر کا مطلب پوچھا ، اس طرح لفظ کوثر نے مخالفین کے پروپیگنڈے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ، وہ مخالفین جو ابتر ابتر کہتے پھرتے تھے ان پر ایک زبردست ضرب لگائی کہ تم مخالف ہی جڑ کٹے ہو ، اللہ نے اپنی نبی کو تو خیر کثیر ، اللہ کا دین اور حوض کوثر عطا کیا ، اولاد کس کی باقی رہی ہے یہ تو سب مٹ جانے والے ہیں ،
اس وقت رواج تھا کہ خانہ کعبہ کے دروازے پر چیلنج کے طور پر کسی شعر یا کلام کو آویزاں کر دیا جاتا کہ اس کے مقابلے میں کوئی شعر یا کلام ہے تو لاؤ ۔ اگر کوئی لے آتا تو پہلے والا اتار کر دوسرا آویزاں کر دیا جاتا ،
مسلمانوں نے بھی سورۃ کوثر کے اعجاز و اثر کو دیکھ کر خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں کر دیا ، اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے بہت جوش وخروش پیدا ہوا اور اس کے بدلے کوئی کلام لانے پر خوب زور لگایا گیا مگر بے سود ، آخر عاجز آ کر کہنے لگے کہ یہ انسان کا قول نہیں ہے
دیکھا آپ نے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کا کیسے منہ توڑا ، اور انکو ذلیل کیا
انشاء اللہ آج بھی یہ دشمن اور چیلنج کرنے والے منہ کی کھائیں گے اور ذلیل ہونگے ، بے نام ونشان ہو کر رہ جائیں گے اور انکی آنے والی نسلیں انکا انجام دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گی
قرآن پاک میں ہے ، اور ہم نے تیرے لیے تیرے ذکر کو بلند کر دیا ، تو آپ ذکر قیامت تک بلند رہے گا انشاء اللہ