Monday, February 6, 2012

منانا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔۔!!!!


ہمارے ایک دوست ہیں طارق عزیز صاحب انہوں نے یہ واقعات سنائے اور کم و بیش پورے پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس کی ایک جھلک یہاں ملاحظہ فرمائیں!!!!!!
گیارہ ربیع الاول کی رات کو میں اپنی بائیک پر ریگل سنیما چوک سے بائیں (سٹیٹ بنک کی ) طرف مڑنے لگا تو آگے ساری ٹریفک بند ملی۔ ویگن گاڑیوں والے واپس موڑ کر متبادل راستوں سے نکلنے لگے، ان میں ایک ایمبولینس بھی شامل تھی، جو شاید میو ہسپتال جانے والے راستے کی تلاش میں تھی۔ معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی کا کوئی جلوس آرھا ہے جسکی وجہ سے راستے بند ہیں۔ خیر میں اطراف سے جگہ بناتے ہوئے کریم بخش اینڈ سنز کے سامنے سے نکل کر دائیں طرف والی سروس روڈ سے ہوتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ شاید ادھر سے کوئی راستہ مل جائے۔ میں آگے بڑھتا ہوا، سٹیٹ بنک کے سامنے تک جا پہنچا، جہاں ٹریفک وارڈن نے دو ایک موٹر سائیکلوں اور بائیسائیکل والوں کو ھاتھ کے اشارے سے روکا ہوا تھا کہ جب تک جلوس نہیں گذر جاتا انتظار کرو۔ تھوڑی دیر میں ہائیکورٹ کی جانب سے دو گھوڑ سوار برامد ہوئے، ان کے پیچھے چار گھوڑوں والی ایک بگھی میں پچھلی سیٹ پر ایک پیر صاحب چمکدار کلف لگا لٹھے کا سوٹ، واسکٹ اور بھاری سی پگڑی تن زیب کیے اک شان بے نیازی سے ہاتھ میں تسبیح گھماتے ہوئے براجمان تھے، برابر مین دو چھوٹے بچے جنھوں نے دولہا جیسی شیروانیاں اور کُلّے پہں رکھے تھے بھی بیٹھے ہوئے تھے، مجھے لگا کہ جیسے کسی فلم کا منظر ہو جس میں بادشاہ سلامت کی شاھی سواری مع شہزادہ گان گذر رہی ہے، ین کے پیچھے دو مُریدین باقاعدہ مورچھل ہلا رہے تھے۔ بگھی کے پیچھے مریدین کا مشعل بردار قافلہ جھومتا ہوا آرہا تھا۔ مزید 20-25 منٹ کی زحمت برداشت کر نے کے بعد رستہ کھولا گیا اور میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔ میں سارے راستہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیسا مذھبی رہنما اور جلوس ہے جسکی وجہ سے اللہ کی کتنی مخلوق کو شدید ذہنی و جسمانی کوفت اُٹھانا پڑ رہی ہے، اور جو ایمبولینس راستہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس مڑ گئی کیا پتہ اسکے مریض کو کتنی تکلیف کا سامنا اُٹھانا پڑا ہوگا، کتنے لوگ ہونگے جو کسی مجبوری کی وجہ سے جلدی کسی مقام پر جانا چاہ رہے ہونگے مگر بارہ ربیع الاول سے قبل ہی غیر متوقع طور پر انھیں رستہ بند ہونے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔
ساتھ والے محلے کے ایک دوست بتا رہے تھے،میرے آس پاس کےمحلوں کے فارغ لڑکے سارہ دن رسوں سے راستے روک کر آنے جانے والوں سے زبردستی چندہ وصول کر رہے تھے، رات گئے تک یہ مشغلہ جاری رہتا، میں گذرتے ہوئے کچھ ایک کو نماز کی دعوت دی کہ بھائی جو برے لڑکے ہیں وہ سب آو پہلے نماز پڑھ لو پھر آکر باقی کا کام کر لینا،تب تک یہ چھوٹے لڑکے پہرہ دیں گے۔ بولے لو جی یہ جو ہم دین کا کام کر ہے ہیں یہ کیا ثواب کا کام نہیں، ہم اگر یہ چھوڑ کر چلے گئے تو چھوٹے لڑکے پتہ نہیں کتنے پیسے اپنی جیب میں ڈال لیں گے۔میں نماز سے فارغ ہو کر گھر کی جانب آرہا تھا، میں نے پوچھا کہ کتنا جمع کر چکے، اور کتنا کرو گے? بولے تقریبا" آٹھ ہزار ہونے کو ہے بس کل آخری دن ہے ہم نے لازما" 12 ہزار کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ پوچھا 12 ہزار کیوں? بولے لو جناب ساری گلی آخر تک سجانی ہے، لائٹین جھنڈیاں وغیرہ کا حساب لگایا ہے، وہ تقریبا" 10 ہزرا کی آئیں گی، اور 2000 کا ہم سب لڑکے جنھوں نے اتنی محنت کی ہے وہ عید میلاد النبی والے دن پنڈارہ بنا کر کھائیں گے، 11-12 کی درمیانی رات سب لڑکے شام سے ہی سجاوٹ میں لگے ہوئے تھے اور رات بھر جاگ کر کام مکمل کیا، میں فجر کی نماز کے لیے نکلا تو دیکھا کے تقریبا" سارے ہی لڑکے شب بیداری کی مشقت سے تھک کر بنائے گئے سٹیج پر بے سُدھ سو رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے، تو کیا دُنیاوی رسوم کے لیے نماز چھوڑ کر نبی پاک کی آنکھوں کو تھنڈک پہنچا رہے ہیں? کل قیامت کو جب اللہ پاک نماز کا ھساب لے گا تو کیا یہ عذر پیش کریں گے کے چندہ جمع کرنے اور سجاوٹ لگانے، پھر جشن منانے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی ?

میں ساتھ والے محلے میں ایک دوست کی طرف گیا واپسی پر چھوٹی گلی کے اندر سے آنے کی بجائے مین روڈ کی طرف سے نکل آیا کہ چلو ذرا رونق ہی دیکھتا چلوں۔ ایک طرف گلی میں لوگوں کا ہجوم دیکھا تو آگے بڑھ کر دیکھا تو کچھ نوجوانوں نے (جنھون نے چہروں پر سبز پینٹ کیے ہوئے تھے، سٹیج پر بڑے سائز کے ڈیک لگا کر ڈسکو پرفارم کر رہے تھے، لوگ تالیاں بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے جس سے پرفارمرز کے جوش میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ میں پاس کھڑے ایسے ہی بہروُپ میں کھڑے ایک نوجوان سے کہا کہ آج کے اس مقدس دن میں آپ لوگ انڈین گانوں پر پرفارم کر کے کیا خدمت انجام دے رہے ہیں? مسجد میں جائیں نماز پڑھیں، دورد شریف کی تسبیحات پڑہیں۔ نوجوان نے غصہ سے کہا، بھائی صاحب نعت کو انڈین گانا کہہ کر مذاق تو نہ اڑائیں، ہم اتنے بھی گئے گذرے نہیں کہ عید میلادالنبی والے دن انڈین گانے بجائیں، میں ذرا غور سے سُنا تو واقعی الفاط تو کچھ مدحت نما ہی تھے مگر ان کی ادائیگی اورڈسکو طرز کی میوزک بیٹ کی وجہ سے وہ کوئی انڈین ڈسکو گانا ہی محسوس ہو رہا تھا۔ میں پیچھے کی جانب مڑا ہی تھا کے ساتھ کھڑا ایک باریش آدمی ماتھے پر تیوری ڈالتے ہوئے کہنے لگا کیا بات ہے?۔ میں نے کہا کچھ نہیں بس ذرا بچے کو سمجھا رہا تھا کہ آج کے دن ناچ گانے کی محفلون کی بجائے اللہ اللہ کیا جائے تو بہتر ہوگا ، وہ صاحب تنک کر بولے، جناب یہ بچے اپنے سٹائل میں حضور پاک کی آمد کا جشن منا رہے ہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہو رہی ہے، کہیں آپ ‘ وہابی" تو نہیں?۔ ۔ "کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا"

میں اور میری مسسز حسب معمول رات کا کھانا کھا کر باہر والک کے لیے نکلے، آج بارہ ربیع الاول عید میلادالنبی کی وجہ سے سبھی راتے روشن منور تھے، بڑا اچھا لگ رہا تھا کہ کافی عرصہ بعد بجلی مسلسل آرہی ہے اور چھوٹے چھوٹے قمقموں کی سجاوٹ سے گلیاں محلے جگمگا رہے تھے، ہم اپنے روٹین کے راستے سے ہوتے ہوئے اگلے موڑ کی طرف جا رہے تھے، جہاں ایسے موقعوں پر کوئی رش نہیں ہوتا، مگر آج خلاف توقع اگلے چوک سے پہلے ہی راستے میں رش نظر آیا، حالانکہ سجاوٹیں وغیرہ تو گلیوں میں تھیں اور بڑا روڈ کھلا ہوا ہی تھا مگر اس چوک سے پہلے گلی سے باہر آکر چند ایک باریش بزرگوں نے مائیک ہاتھوں مین لیے لوگوں کو جمع کر کے نعرے لگوانے شروع کیے ہوئے تھے روڈ کی دونوں طرف گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش لگ گیا، میں نے بیگم کو ایک طرف کھڑا ہونے کو کہا اور ایک باریش نوجوان کو کہا کہ بھائی آپ ذرا آگے ہو کر مائیک والے صاحب سے کہیں کے یہ کام اگر آپ گلی کے اندر جہاں سجاوٹ کی ہوئی ہے وہان جا کر یہ نعرے لگوا لیں تو لوگوں کے گذرنے کا راستہ تو بلاک نہین ہوگا۔ نوجوان نے خفگی سے گھورتے ہوئے کہا ، جناب آج عید میلاد النبی کا دن ہے آپ لوگوں کو کس نے کہا تھا کہ آج باہر نکلو، ہم نے کوئی روز روز تو جشں منانا نہین ہوتا، اس پر بھی آپ لوگ ہمیں روک ٹوک شروع کر دیتے ہیں، اور دوبارہ مولانا صاحب کے نعرے :غلام ہیں غلام ہین"کے جواب میں "رسول کے غلام ہیں" کا جواب دینے لگا۔ میں اسکا جواب سن کر کچھ کہے بغیر بیگم کو ساتھ لیے واپس مڑ گیا، پیچھے سے آواز آ رھی تھی" غلامیئ رسول میں موت بھی قبول ہے، جو ہو نہ عشق مصطفیٰ تو زندگی فضول ہے۔، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں والے جن کے ساتھ خواتین بھی تھیں وہ بھی مایوس ہو کر واپس ٹرن کر رہے تھے جنیھں اب "عاشقان رسول" کی وجہ سے لمبا رستہ کاٹ اس چوک کی طرف جانا تھا، جس سے چند قدم پہلے غلامان رسول نعرے لگانے میں مصروف تھے۔ واقعی " جو ہو نہ عشق مصطفیٰ تو زندگی فضول ہے"۔ - حاجی صاحب نے اپنی گلی برقی قمقموں سے بھری ہوئی تھی جس مین 100 واٹ ک بلبوں کی کافی تعداد بھی جگ مگ کر رہی تھی، میں نے گذرتے ہوئے حاجی صاحب سے کہا واہ جناب بڑی رونق لگائی ہوئی ہے آپ نے، بولے: بس جناب عشق نبی پاک کا تقاضہ بھی نبھانا ضروری ہے نا، میں آن کی پشت کی جانب دیکھا جہاں سے لایئٹوں کی تاریں نکل رہی تھیں، چھوٹی تاریں تو ھاجی صاحب نے اپنے گھر سے اکسٹینشن لے کر لگائی ہوئی تھیں جبکہ بڑے 100 وات کے بلبوں کی تاریں بجلی کے میٹر سے پہلے "کنڈی" میں لگائی ہوئی تھیں۔ میں تعجب سے پوچھا حاجی صاحب یہ کیا، یہ تاریں تو سرکاری تار میں پھنسا کر ڈائیرکٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ بولے : لو جناب ہم نے کوئی ذاتی تقریب کے لیے تھوڑی یہ بجلی کے بلب روشن کیے ہوئے ہیں، عید میلادالنبی کی سجاوٹ کے لیے تو پھر "کنڈی" ہی لگانی پڑتی ہے نہ ۔ میں نے دل میں سوچا کہ واہ، نبی پاک کی ذات کو خراج تحسین اور وہ بھی چوری کی بجلی سے????? اور گھر کی جانب چل دیا۔