Saturday, April 20, 2013

میں, وہ اور لمبی سڑک

یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کا ہر کردار آپکو اپنے اطراف میں با آسانی مل جائے گا ..... اور جنکو سمجھ نا آئے تو انکو سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں کہ یہ انکے لئے ہے بھی نہیں .....

تو اصل میں یہاں بات ہوگی 4 افراد کی,

میں
وہ
چیلا نمبر ایک
چیلا نمبر دو

ویسے تو چیلے ہزاروں میں مگر ہم صرف سمجھنے کے لئے دو چیلوں کا ہی سہارا لیں گے

سین نمبر ایک :
میں : یار کیا بہترین اور عمدہ سڑک ہے دونوں اطراف میں درخت لگے ہوئے ہیں دن میں سورج کی درختوں سے چھنتی ہوئی روشنی جب تارکول کی سیاہ سڑک پر پڑتی ہے تو بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے ... مگر آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ سڑک جاتی کہا تک ہے......

وہ : او چھوڑ اوے تو اسکو ایڈا تو فلسفی کبھی جایئو بھی نا اس سڑک کے آخر تک بہت ہی خطرناک ہے میں گیا ہوں کئی مرتبہ اسکے آخری سرے تک ... اور تو کرے گا کیا جا کر وہاں تو رہنے ہی دے تیرے بس کا روگ نہیں ہے تو یہیں لگا رہ .....
(یہ لیکچر "جھاڑنے" کے بعد 'وہ' خود موٹر سائیکل سٹارٹ کرتا ہے اور کہتا اچھا جانی میں جارا زرا سڑک کے آخری حصے کی طرف تو نا آئیو میرے پیچھے.... اوے اسکو سمجھا)

چیلا نمبر ایک : یار تو سمجھتا نہیں ہے اسکی بات کو یہ تیرے ہی بھلے کی بات کر رہا ہے اور اس میں تیرا ہی فائدہ ہمارا کوئی فائدہ نہیں ....

میں : یار عجیب ہی بات ہے خود وہاں جا رہا اور ہم کو منع کر رہا ....

چیلا نمبر دو : یار یہ سڑک ہے تو بہت زبردست اور اس پر وہیلنگ کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ اور گاڑی کا کانٹا 220 نا مارے تو سمجھو کوئی فیدہ نہیں .......

میں : (چیلا نمبر دو کو) اوے بس کر تو ایڈا تو آیا سلطان گولڈن کا پتر ... خبردار جو کبھی گیا اس سڑک پر تیرے کو پتہ نہیں کتنی خطرناک سڑک ہے یہ کتنے پر خطر موڑ ہیں اس پر کچھ اپنا نہیں تو اپنے اماں ابا کا ہی دھیان رکھ ( اسکے بعد "میں" نے گاڑی کا سلف مارا اور نکل گیا اسی سڑک کی لمبائی ناپنے)

چیلا نمبر دو : (چیلا نمبر ایک, سے) یار بڑا ہی کوئی چول ب ---- د بندہ ہے یار خود چلا گیا اور ہم کو ایسے منع کر گیا جیسے ہم اس سڑک پر گئے تو ایک زلزلہ آئے گا اور ساری سڑک تہس نہس ہو جائے گی ..... ایوں خود کو پتہ نہیں کیا سمجھ رکھا ہے .....

چیلا نمبر ایک : ہاں یار بڑا ہی عجیب انسان ہے یہ "میں" خود چلا گیا اور تجھے ایسے منع کر رہا تھا جیسے خود آرمی کا چیف لگا ہو مجھے ایسے بندے پڑے ہی چیپ لگتے ہیں یار ب ----- د

چیلا نمبر دو : یار ایک بات بتا میرے دوست چیلے نمبر ایک, جب 'وہ' گیا تھا تو, تونے 'میں' کو کہا تھا کہ تیرے ہی فائدے کی بات کر رہا ہے تیرا خیرخواہ ہے تیرا نقصان نہیں دیکھ سکتا, اب 'میں' مجھے وہی کہہ کر گیا جو 'وہ' کہہ کر گیا تھا تو, تو 'میں' کو گالیاں دے رہا ہے یہ کیا چکر ہے یار .......

چیلا نمبر ایک : یار بات بہت ہی آسان ہے 'میں' جو ہے, 'میں' ہے اور 'وہ' جو ہے استاد ہے


ختم شد ب ------------------ د

Saturday, April 6, 2013

معاشرہ کیسے بنتا ہے؟

..معاشرہ کیسے بنتا ہے؟
دُشنام سے نہیں شیرینی بیان سے۔ سوئے ظن سے نہیں حسنِ ظن سے۔ تصادم سے نہیں مکالمے سے۔
تنوع میں خیر ہے اور حکمت بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری الہام میں بتادیا ہے کہ وہ تمام عالم انسانیت کو ایک اُمت بناسکتا تھا (لیکن اس نے ایسانہیں کیا)۔ اس نے تو یہ دیکھنا ہے کہ کون ہے جو سیدھے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ گویا انتخاب کا حق خود مشیتِ الٰہی ہے۔ اس سے تنوع وجود میں آتا ہے اور اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہم انسانوں کی ایک بستی میں رہتے ہیں۔ زبان،نسل، رنگ، مذہب، مسلک، ہمارے درمیان ان گنت اختلافات ہیں۔ یہ سب نہ بھی ہوں تو ذوق کااختلاف بہرحال ہے جو کسی دلیل کا پابند نہیں۔ مجھے ایک گلوکار پسند ہے۔ ممکن ہے آپ کے دل کو نہ بھاتا ہو۔ مجھے ایک مقرر اور خطیب اچھا لگتا ہے۔ ممکن ہے آپ کی سماعت اسے سننے سے اباءکرتی ہو۔ مجھے ایک رنگ اچھا لگتا ہے۔ ممکن ہے آپ کے ذوق پرگراں گزرتا ہو۔ اس دائرے کو وسیع کرتے چلے جائیے، آپ اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ تنوع کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ جو اس راز کو پاگیا، اس نے زندگی کو آسان کردیا۔ ورنہ دشنام ہے، سوئے ظن ہے اور تصادم۔
کیا اچھا درس ہے جو اللہ کے آخری رسول نے دیا۔ کہارمضان میں کوئی تصادم پر اتر آئے تو تم کہو: میں روزے سے ہوں۔ رمضان تو محض بہانہ ہے ورنہ اللہ جو تقویٰ اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ کچھ دن کے لیے نہیں، عمر بھر کے لیے ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جب بھی تصادم کی صورت پیدا ہو، تم اس درس کو یاد کرو جو تمہیں رمضان میں دیا گیا۔گویا اس تربیت کو حرزِ جاں بنالو جو تمہیں اس مہینے میں دی جاتی ہے۔ یہ صبر وتحمل جو تمہیں ان دنوں میں سکھایا جاتا ہے، اس لیے تو نہیں کہ شوال کا چاند نکلے اور تم اس سے دست بردار ہوجاﺅ۔ یہ صحیح ہے کہ انسان ہمیشہ ایک کیفیت میں نہیں رہتا۔ جس طرح کسی اچھی صحبت سے زیادہ دن دوری رہے تو خیر کے اثرات مدہم ہونے لگتے ہیں، اسی طرح رمضان سے جیسے جیسے دوری ہوتی جاتی ہے، زندگی پر سماج کا رنگ غالب آنے لگتا ہے۔ جو بدقسمتی سے بہت دیدہ زیب نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سال میں ایک مہینہ مختص کیا ہے کہ ایک دفعہ پھر صبغتہ اللہ کو نمایاں کیا جائے۔ اگر بھول جانے کا عمل رمضان ہی سے شروع ہوجائے تو سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا روزہ دار ایسے ہوتے ہیں؟
مذہب، فلسفہ، نظریات، افکار۔۔۔سب کیا ہیں۔۔۔انسان کو اچھا بنانے کے طریقے۔ ان سب کا موضوع انسان ہے۔ اصل اہمیت آدابِ زندگی کی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ میرا وجود اس زمین پر بوجھ ہے یا انسانوں کے لیے باعث خیر۔ اس کے آداب ہم نے سیکھنے ہیں۔ جنگ، آفت، قحط، یہ زندگی کی فکری حالتیں نہیں ہیں۔ ان کا تعلق ہنگامی حالات سے ہوتا ہے۔ اگر زندگی گزارنی ہے تو ان کیفیات کے لیے بھی آداب سیکھنے چاہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام اور دیگر افکار میں جنگ کا فلسفہ ہے اور آداب بھی۔ تاہم یہ زندگی کی فطری حالت نہیں ہوتی۔فطری حالات وہی سماجی زندگی ہے، جس میں میرا رویہ میرے گھر اور ماحول پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس سے سماج تشکیل پاتا ہے۔
پاکستان کی اصل قوت وہی ہے جو سماج کی طاقت ہے۔یہ ہم ہیں، یہاں کے شہری، جنہوں نے یہ طے کرنا ہے کہ انہوں نے زندگی کو جنت کا نمونہ بنانا ہے یا جہنم کا۔ خارجہ عوامل یقینا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری معاشرت کی بربادی انہی’خوارج“کی دین ہے۔ تاہم اگر سماج زندہ ہو اور مثبت اقدار پر کھڑا ہو تو پھر خارجی قوتیں بھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
یوں بھی خارجی قوتیں ہمارے قابو میں نہیں۔ پھر یہ معاملات ریاست سے متعلق ہیں اور ہمارے حکمران طبقے کا اندازِ فکر عوام سے مختلف ہے۔ ہمیں اگر بھروسہ کرنا ہے تو اپنی سماجی قوت پر۔ ہمیں ایک دوسرے کے دست وپا بننا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب تنوع ہمارے لیے باعث آزاد نہ بنے۔یہ ہماری قوت کا سبب بن جائے۔ رنگ ونسل،مذہب ومسلک اور فکر ورائے کے اختلاف کو ہم سماج کے عمومی اور ناگزیر رنگ سمجھیں۔ سرخ گلاب اس لیے نہیں ہوتا کہ سفید موتیے کا رنگ مدہم پڑ جائے۔ گل داﺅ دی کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں سب سے چمن کی رونق ہے اور دوسرے کا وجود بھی پہلے کے امتیاز کی دلیل ہے۔
ہمیں فطرت سے سیکھنا چاہیے۔ فطرت کا ایک درس وہ ہے جو اس کائنات کے نظم میں ہے یا بہارِ چمن میں۔ ایک درس جنگل میں بھی ہے جہاں خوف ہے، عدم اطمینان ہے، چیرپھاڑ ہے اور طاقت کی حکمرانی ہے۔ جنگل کے جانور مکالمہ نہیں کرتے، ان کا قانون یہی ہے کہ دوسرے کو برداشت نہ کیا جائے۔ ہمیں اب انتخاب کرنا ہے کہ چمن کے پھولوں سے سیکھنا ہے یا جنگل کے درندوں سے۔
پاکستان کو اگر زندہ ہونا ہے تو اپنی سماجی طاقت سے۔ یہ طاقت بڑھے گی اگر ہم تنوع کی افادیت اور حسن کو جان لیں۔ ہم دوسروں کو جینے کا حق دیں اور اختلاف کا۔ اب دُشنام کے بجائے مکالمے کا کلچر عام کریں۔ گفتگو ہو، ایک ساتھ مل بیٹھیں، ایک دوسرے کو دیانت داری سے سمجھیں۔ دوسروں کو شک کا فائدہ دیں اور حسنِ ظن کو غالب رکھیں الا یہ کہ حقائق ہمیں کسی دوسری رائے تک پہنچا دیں۔
مجھے اس پر تشویش ہے کہ ہم طبقات میں سمٹ رہے ہیں۔ اختلاف رائے کو ہم نے دیوار بنا دیا ہے۔ یوں سماج کے اندر دیواریں ہیں۔ جتنے انسان اتنی دیواریں۔ مسلمان تہذیب کا معاملہ تو بہت مختلف ہے۔ مغربی تہذیب نے خود غرضی کے کلچر کو فروغ دیا۔ مسلم تہذیب تو انفاق اور دعوت کے اصول پر کھڑی ہے۔ یہ وسائل کو سمیٹنے کا نہیں، پھیلانے کا پیغام ہے۔ یہ خیر کو خود تک محدود رکھنے کا نہیں، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا کلچر ہے۔ یہ اپنے پیٹ ہی کی نہیں پڑوسی کی بھوک کو جاننے کا نام ہے۔ یہ اپنی آخرت ہی کا احساس نہیں، دوسروں کو بھی نارِ جہنم سے بچانے کی کوشش ہے۔ ایسے دین کو ماننے والے اور ایسی تہذیب کے علمبردار دشنام، سوئے ظن اور تصادم پر اتر آئیں تویہ معمولی المیہ نہیں۔ ہمیں سوچنا ہے کہ اگر ہم نے اس سماج کو جنت نہ بنایا تو اُس جنت کے لیے اپنا استحقاق ثابت نہ کرسکیں گے۔ دُشنام، سوئے ظن اور تصادم، گھرہویا سماج اسے جہنم بنادیتے ہیں۔ جنت بنانے کا لائحہ عمل بالکل دوسرا ہے۔ شیرینی بیان، حسن ظن اور مکالمہ۔صحن کو کھلا کیجیے، دیواریں نہ بنائیے!