Saturday, April 6, 2013

معاشرہ کیسے بنتا ہے؟

..معاشرہ کیسے بنتا ہے؟
دُشنام سے نہیں شیرینی بیان سے۔ سوئے ظن سے نہیں حسنِ ظن سے۔ تصادم سے نہیں مکالمے سے۔
تنوع میں خیر ہے اور حکمت بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری الہام میں بتادیا ہے کہ وہ تمام عالم انسانیت کو ایک اُمت بناسکتا تھا (لیکن اس نے ایسانہیں کیا)۔ اس نے تو یہ دیکھنا ہے کہ کون ہے جو سیدھے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ گویا انتخاب کا حق خود مشیتِ الٰہی ہے۔ اس سے تنوع وجود میں آتا ہے اور اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہم انسانوں کی ایک بستی میں رہتے ہیں۔ زبان،نسل، رنگ، مذہب، مسلک، ہمارے درمیان ان گنت اختلافات ہیں۔ یہ سب نہ بھی ہوں تو ذوق کااختلاف بہرحال ہے جو کسی دلیل کا پابند نہیں۔ مجھے ایک گلوکار پسند ہے۔ ممکن ہے آپ کے دل کو نہ بھاتا ہو۔ مجھے ایک مقرر اور خطیب اچھا لگتا ہے۔ ممکن ہے آپ کی سماعت اسے سننے سے اباءکرتی ہو۔ مجھے ایک رنگ اچھا لگتا ہے۔ ممکن ہے آپ کے ذوق پرگراں گزرتا ہو۔ اس دائرے کو وسیع کرتے چلے جائیے، آپ اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ تنوع کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ جو اس راز کو پاگیا، اس نے زندگی کو آسان کردیا۔ ورنہ دشنام ہے، سوئے ظن ہے اور تصادم۔
کیا اچھا درس ہے جو اللہ کے آخری رسول نے دیا۔ کہارمضان میں کوئی تصادم پر اتر آئے تو تم کہو: میں روزے سے ہوں۔ رمضان تو محض بہانہ ہے ورنہ اللہ جو تقویٰ اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ کچھ دن کے لیے نہیں، عمر بھر کے لیے ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جب بھی تصادم کی صورت پیدا ہو، تم اس درس کو یاد کرو جو تمہیں رمضان میں دیا گیا۔گویا اس تربیت کو حرزِ جاں بنالو جو تمہیں اس مہینے میں دی جاتی ہے۔ یہ صبر وتحمل جو تمہیں ان دنوں میں سکھایا جاتا ہے، اس لیے تو نہیں کہ شوال کا چاند نکلے اور تم اس سے دست بردار ہوجاﺅ۔ یہ صحیح ہے کہ انسان ہمیشہ ایک کیفیت میں نہیں رہتا۔ جس طرح کسی اچھی صحبت سے زیادہ دن دوری رہے تو خیر کے اثرات مدہم ہونے لگتے ہیں، اسی طرح رمضان سے جیسے جیسے دوری ہوتی جاتی ہے، زندگی پر سماج کا رنگ غالب آنے لگتا ہے۔ جو بدقسمتی سے بہت دیدہ زیب نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سال میں ایک مہینہ مختص کیا ہے کہ ایک دفعہ پھر صبغتہ اللہ کو نمایاں کیا جائے۔ اگر بھول جانے کا عمل رمضان ہی سے شروع ہوجائے تو سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا روزہ دار ایسے ہوتے ہیں؟
مذہب، فلسفہ، نظریات، افکار۔۔۔سب کیا ہیں۔۔۔انسان کو اچھا بنانے کے طریقے۔ ان سب کا موضوع انسان ہے۔ اصل اہمیت آدابِ زندگی کی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ میرا وجود اس زمین پر بوجھ ہے یا انسانوں کے لیے باعث خیر۔ اس کے آداب ہم نے سیکھنے ہیں۔ جنگ، آفت، قحط، یہ زندگی کی فکری حالتیں نہیں ہیں۔ ان کا تعلق ہنگامی حالات سے ہوتا ہے۔ اگر زندگی گزارنی ہے تو ان کیفیات کے لیے بھی آداب سیکھنے چاہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام اور دیگر افکار میں جنگ کا فلسفہ ہے اور آداب بھی۔ تاہم یہ زندگی کی فطری حالت نہیں ہوتی۔فطری حالات وہی سماجی زندگی ہے، جس میں میرا رویہ میرے گھر اور ماحول پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس سے سماج تشکیل پاتا ہے۔
پاکستان کی اصل قوت وہی ہے جو سماج کی طاقت ہے۔یہ ہم ہیں، یہاں کے شہری، جنہوں نے یہ طے کرنا ہے کہ انہوں نے زندگی کو جنت کا نمونہ بنانا ہے یا جہنم کا۔ خارجہ عوامل یقینا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری معاشرت کی بربادی انہی’خوارج“کی دین ہے۔ تاہم اگر سماج زندہ ہو اور مثبت اقدار پر کھڑا ہو تو پھر خارجی قوتیں بھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
یوں بھی خارجی قوتیں ہمارے قابو میں نہیں۔ پھر یہ معاملات ریاست سے متعلق ہیں اور ہمارے حکمران طبقے کا اندازِ فکر عوام سے مختلف ہے۔ ہمیں اگر بھروسہ کرنا ہے تو اپنی سماجی قوت پر۔ ہمیں ایک دوسرے کے دست وپا بننا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب تنوع ہمارے لیے باعث آزاد نہ بنے۔یہ ہماری قوت کا سبب بن جائے۔ رنگ ونسل،مذہب ومسلک اور فکر ورائے کے اختلاف کو ہم سماج کے عمومی اور ناگزیر رنگ سمجھیں۔ سرخ گلاب اس لیے نہیں ہوتا کہ سفید موتیے کا رنگ مدہم پڑ جائے۔ گل داﺅ دی کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں سب سے چمن کی رونق ہے اور دوسرے کا وجود بھی پہلے کے امتیاز کی دلیل ہے۔
ہمیں فطرت سے سیکھنا چاہیے۔ فطرت کا ایک درس وہ ہے جو اس کائنات کے نظم میں ہے یا بہارِ چمن میں۔ ایک درس جنگل میں بھی ہے جہاں خوف ہے، عدم اطمینان ہے، چیرپھاڑ ہے اور طاقت کی حکمرانی ہے۔ جنگل کے جانور مکالمہ نہیں کرتے، ان کا قانون یہی ہے کہ دوسرے کو برداشت نہ کیا جائے۔ ہمیں اب انتخاب کرنا ہے کہ چمن کے پھولوں سے سیکھنا ہے یا جنگل کے درندوں سے۔
پاکستان کو اگر زندہ ہونا ہے تو اپنی سماجی طاقت سے۔ یہ طاقت بڑھے گی اگر ہم تنوع کی افادیت اور حسن کو جان لیں۔ ہم دوسروں کو جینے کا حق دیں اور اختلاف کا۔ اب دُشنام کے بجائے مکالمے کا کلچر عام کریں۔ گفتگو ہو، ایک ساتھ مل بیٹھیں، ایک دوسرے کو دیانت داری سے سمجھیں۔ دوسروں کو شک کا فائدہ دیں اور حسنِ ظن کو غالب رکھیں الا یہ کہ حقائق ہمیں کسی دوسری رائے تک پہنچا دیں۔
مجھے اس پر تشویش ہے کہ ہم طبقات میں سمٹ رہے ہیں۔ اختلاف رائے کو ہم نے دیوار بنا دیا ہے۔ یوں سماج کے اندر دیواریں ہیں۔ جتنے انسان اتنی دیواریں۔ مسلمان تہذیب کا معاملہ تو بہت مختلف ہے۔ مغربی تہذیب نے خود غرضی کے کلچر کو فروغ دیا۔ مسلم تہذیب تو انفاق اور دعوت کے اصول پر کھڑی ہے۔ یہ وسائل کو سمیٹنے کا نہیں، پھیلانے کا پیغام ہے۔ یہ خیر کو خود تک محدود رکھنے کا نہیں، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا کلچر ہے۔ یہ اپنے پیٹ ہی کی نہیں پڑوسی کی بھوک کو جاننے کا نام ہے۔ یہ اپنی آخرت ہی کا احساس نہیں، دوسروں کو بھی نارِ جہنم سے بچانے کی کوشش ہے۔ ایسے دین کو ماننے والے اور ایسی تہذیب کے علمبردار دشنام، سوئے ظن اور تصادم پر اتر آئیں تویہ معمولی المیہ نہیں۔ ہمیں سوچنا ہے کہ اگر ہم نے اس سماج کو جنت نہ بنایا تو اُس جنت کے لیے اپنا استحقاق ثابت نہ کرسکیں گے۔ دُشنام، سوئے ظن اور تصادم، گھرہویا سماج اسے جہنم بنادیتے ہیں۔ جنت بنانے کا لائحہ عمل بالکل دوسرا ہے۔ شیرینی بیان، حسن ظن اور مکالمہ۔صحن کو کھلا کیجیے، دیواریں نہ بنائیے!

9 comments:

DuFFeR - ڈفر said...

یار مولبی تو جلدی جلدی لکھے کر
ھر ھفتے ایک پوسٹ بالکل سہی رھے گی

سالوں بعد لکھے گا تو تجھے بھی دوبارہ پڑھنے پہ خود سمجھ نی آنی

Anonymous said...

تمام پیراؤں میں قابل عمل بات جو کہ وقت کی پکار ہے اجتماعی طور پر ' آخر سے ساتویں سطر میں پہلے جملے کے پہلے الفاظ ہیں -
" بھوک " تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے -
ایک تقسیم ہم تک پہنچی ہے اور کچھ ہم نے تقسیم کرنا ہے - انفرادی اگرچہ بہت سی مثالیں ہوں گی مگر اجتماعیت بنے تو بات بنے -

جیسا کہ آپ جانتے ہیں مّلا اور حکمرانوں کو گالیاں دینا اک اجتماعی عمل بن چکا ہے :)

فضل دین said...

زبردست سر جی۔
معاشرہ تو معاشرہ ہوتا ہے۔۔۔۔ ایسا ہو یا ویسا ہو :ڈ

Sarwataj said...

Correct....lekin hm tu insan hony ka ehsas bhooltey ja rhy hein

اسد حبیب said...

بہت خوب!۔

شازل said...

آپ کا انداز تحریر آج مجھے ہارون الرشید کا سا لگا۔
بہت عمدہ

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

ضیاء بھائی!
مجھے افسوس ہے کہ اتنی بہترین تحریر میں نے اس قدر تاخیر سے کیوں پڑھی۔
واللہ آپ کی یہ تحریر سونے کاے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

ابوعبداللہ said...

بہت عمدہ تحریر- مبارک باد قبول کریں- اللہ ہمیں عمل پیرا ہونے کی توفیق دے-

Rai Azlan said...

شاندار تحریر ہے جس میں کافی غور طلب باتیں ہیں لیکن میں ٹھہرا پاکستانی میرا کیا لینا دینا غور اور فکر سے. ویسے بھی ہم پاکستانی ایک زوال آمدہ قوم بن گئے ہیں اور اگر ابھی تک نہیں بنی تو اس طرف کا سفر ہم لک بن کر بڑی تیزی سے کر رہے ہیں.