Saturday, February 2, 2013

دو گروہ

یہ دو گروہ اس دنیا میں شائد ازل سے ہیں اور قیامت آنے سے کچھ پہلے تک دو ہی رہیں گے اور قیامت آئے گی ہی اس وقت جب ان میں سے ایک گروہ جو اللہ کو ماننے والا ہے بلکل ختم ہو کر صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائے گا .....

یہ اللہ کا بہت ہی کرم اور احسان ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو ماننے والوں میں کردے اور اس کے بعد یہ اس ماننے والے کا کام ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کہ اس انعام اور اکرام کی قدر کرتا ہے کہ اسکی اس دی ہوئی نعمت میں اللہ کی طرف سے اضافہ ہوتا رہے کہ وہ ہمیشہ دسروں کے لئے بھی اس بات کا ذریعہ بنا جائے کہ لوگ اسے عمل سے متاثر ہو کر اللہ کی جانب راغب ہوں اور ان کے دلوں میں بھی اس بات کی خواہش بیدار ہو جائے کہ انکا تعلق بھی اللہ سے جوڑ جائے ....

اگر اللہ چاہے تو اس پوری کائنات تو اپنا مطیع بنا لے اور اسکو بنانے میں اتنا وقت بھی نا لگے جتنا پلک جھپکنے میں لگتا ہے ... مگر اللہ نے انسان کے اپر کوئی زور زبردستی نہیں رکھی ہے اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے اپنے خالق سے تعلق جوڑے .. اور اگر اللہ نے زبردستی کرنی ہی ہوتی تو انبیاء علیہ کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا .... اور انبیاء کرام کا سلسلہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کامیاب ہوجائے اور کوئی انسان جب اللہ کے پاس لوٹے تو کامیاب پہنچے ..... اور انیباء کرام کی محنت سے لوگ کا تعلق اللہ سے بنتا تھا اور وہ لوگ اللہ کے بندے اور اللہ کے ماننے والے جاننے جاتے ہیں ... اور جو نہیں مانتے وہ خالق کے نافرمان
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں شائد...

ماننے والوں کی ذمہ داری نا ماننے والوں سے زیادہ ہوتی ہے کہ جو لوگ جنہوں نے دین کو مذاق سمجھا ہوا وہ اس بات کی تاک میں رہتے ہیں کہ جیسے ہی آپ نے کوئی غلط بات کی اور غلط کام کیا وہ فورا اس بات کو جواز بنا کر دین سے متعلق غلط باتوں کو پھیلا سکیں اور دوسرے لوگوں کو دین کے خلاف اکسا سکیں ... اور نا ماننے والوں کا یہی وطیرہ رہا ہے ازل سے ..... لیکن ان کو ابھی اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ دین بھی مخلوق ہے اور اس میں دیئے گئے احکامات بھی مخلوق ہیں .. اگر کوئی جدانخواستہ دین اور اسکے احکامات کا مذاق بنا رہا تو وہ دراصل میں ..... میری تو اتنی جسارت ہی نہیں کہ میں یہ لکھ سکوں.....

اب اصل بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو دین اور اسے احکامات سے روگردانی کر رہا کہیں اسکی وجہ وہ لوگ تو نہیں جو دین کے ماننے والے ہیں .... یقین جانئے اگر ایسا ہے تو یہ سراسر نقصان کا سودا ہے .....

یہ بھی بلکل صدقہ جاریہ کی طرح سے ہے کہ اگر کوئی ایک شحص ہماری وجہ سے سیدھے راستے پر آگیا تو ہماری نجات کے لئے کافی اور اسی طرح اگر کوئی بھی ایک شخص ہماری کسی بات اور کسی عمل کی وجہ سے دین سے دور ہو گیا تو وہ ایک ہی ہمارے سارے اعمال کو راندہ درگاہ کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے .... اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے........

اور یہ تو المیہ ہی ہے خاص طور پر آج کے دور کے انسان کا کہ , وہ دوسرے کو دیکھ کر دین پر عمل کرتا ہے اور لوگ صرف جلوت کی زندگی ہی نہیں خلوت میں گذارے جانے والی زندگی کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں اگر ماننے والے اپنی زندگی کے قول اور فعل کے تضاد کو ختم کرنے کی سعی اور کوشش نہیں کرینگے تو معاملات کبھی بھی قابو میں نہیں آئیں گے .... اور حالات زور مزید درگوں ہوتے چلے جائینگے ....

بقول ہمارے ایک بزرگ کے, کہ آج کا مسلمان ہی مسلمان اور اغیار کا دین پر عمل کرنے اور دین میں داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے .....

اللہ ہم سبکو کو ویسا بنا دے جیسا وہ چاہتا ہے ... اور اسکے لئے اب کوئی فرشتہ نہیں آئے گا یہ سب, ہم سب کو آپس میں مل کر غور و فکر سے حل کرنا ہے ... اللہ سبکو توفیق دے ... آمین

5 comments:

Anonymous said...

good one...

افتخار اجمل بھوپال said...

بہت خُوب

ابو عبداللہ said...

اللہ عمل کی توفیق دے- کسی بزرگ نے اک کتاب میں لکھا کہ زندگی اک خاموش سبق اور ہم اپنے چال چلن، رہین سہن سے دوسروں کو سبق دے دہے ہیں اور اب یہ سبق اچھا ہے یا برا اس کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے-

MAniFani said...

خوب لکھا ہے ۔ اللہ اچھا سوچنے، اچھا کہنے اور اچھا بننے کی توفیق عطا فرمائے امین

Unknown said...

Can we get out of narrowly focused religion and live real life.