Thursday, June 26, 2014

یہ بھی نہ تھی محبت!!!

تو پھر جب دل میں کچھ کچھ ہونے لگا اور بے بڑھنے لگی اس دوسری محبت کو دیکھ کر تو مجھے لگا کہ شائد یہی ہے محبت کہ نیند بھی کم آنے لگی تھی اور بھوک تو جیسے مانو کہ ختم ہی ہوگئی تھی بس ہم آفس سے آنے کے بعد دوست کی کتابوں کی دکان تھی اسکے تھڑے پر ہی ڈلے رہتے تھے اور ہماری یہ جدید محبت بھی ہر وقت چھت پر ٹنگی رہتی تھی زمانہ اتنا جدید نہیں تھا کہ موبائل فون وغیرہ ہوتے یہ بات ہے سن 1998 کی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ والی محبت واقعی بہت حسین تھی اور ماشاءاللہ سے خوش اخلاق بھی بہت تھی ۔

خیر جیسے تیسے بہت ہی تگ و دوڑ کے بعد گھر کا فون نمبر لینے میں کامیابی ہوئی شروع میں دو تین مرتبہ فون ملانے پر انکے ابا حضور کی کریلے میں ڈوبی آواز سن کر دل نے کہا ہمت نہیں ہارنی ہے اور اسی وقت دل نے راہ بھی دکھا دی کہ جیسے ہی انکے ابا جمعہ کی نماز پڑھنے نکلے ویسے ہی ہم نے کال ملا دی وہ جو کہتے ہیں نہ دل سے دل کو راہ ہوتی ٹھیک ہی کہتے ہیں فون پر جب پہلی مرتبہ آواز سنی تو لگا کہ کسی نے کانوں میں شہد گھول دیا وہ تو جب اس محبت کی حقیقت کھلی تو سمجھ میں یہ آیا کہ شہد وغیرہ کچھ نہیں ہوتا سوائے دماغی خلل کے۔۔۔۔۔۔

خیر دو چار ملاقاتوں کے بعد اپنی طرف سے تمام سابقہ تجربوں کی روشنی میں چھان بین کرنے کے بعد پھر اپنے پیر و مرشد ابا حضور کی خدمت میں حاضری دی اور کچھ افلاطونیاں جھاڑنے کے بعد اصل مدعا انکے گوش گذار کیا تو ابا نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا کہ اگر سچی محبت ہے تو ہماری مرضی کیا حیثیت رکھتی، ہم نے بھی جان لگادی اور انکے ساتھ ساتھ اماں بہنوں کو بھی راضی کر ہی لیا کہ بس اب اگر شادی ہوگی تو یہیں ہوگی خیر ابا نے کہا رمضان ہیں عید کے بعد جائینگے عندیہ لے کر اس دوران مزید اچھی طرح سے چیک کر لو۔۔۔۔۔۔۔


اس دروان ہمارے ٹیلی فونک خطابات زور و شور سے جاری تھے ک ایک مرتبہ فون کا بل دیکھ کے ابا نے کہا کہ برائے مہربانی یہ خطابات کو دوررانیہ کم کرو کیوں کہ ان دنوں کوئی آٹھ، دس گھنٹے فون پر بات کر لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔۔۔۔۔۔

اس دوران الحمداللہ عمر کوئی بائیس سال کی ہوگی کہ جب محبت میں کچھ نظر نہیں آتا سوائے دو تین چیزوں کہ اور جبکہ ماحول بھی کافی رنگین ہو تو ہم کوئی زمانے سے الگ نہیں تھے اور نہ ہی ہم کوئی شییخ سعدی تھے بلکہ ایک انتہائی محترم بزرگ سے یہ سن چکے تھے کہ اگر مخالف جنس کو دیکھ کر آپکو کچھ محسوس نہیں ہوتا تو سمجھو آپکی مردانگی پر نشان ہے اور اس عمر میں اکثریت مردانگی صرف اسکو ہی سمجھا جاتا ہے کہ کس نے کتنی مرتبہ اور کتنی دیر تک اپنی "مردانگی" ثابت کری ہے تو اسی ذیل میں ہمارے ذہن میں بھی یہی کچھ چل رہا تھااسکی وجہ شائد ہمارے آفس کا ماحول بھی ہوں جہاں گوریاں بعض مرتبہ تو ایسے لباس میں آجاتی تھی کہ دل کرتا تھا کہ یہیں ساری مردانگی جھاڑ دی جائے، خیر اللہ نے کرم کیا اور ایک مرتبہ پھر بہت ہی سوچا دل کو ٹٹولا تو اس میں سے ہر مرتبہ یہی آواز آئی کہ یار سب چھوڑ بس کوئی ایسی تگمڑ لڑا کہ مردانگی ثابت کر کے اسکو دوستوں یاروں کو بتایا جائے۔

بس پھر میں نے خود ہی ابا کو منع کردیا کہ یہاں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ محبت ہے نہیں ایسی محبت تو ڈائمنڈ مارکیٹ اور نپئیر روڈ پر جا کے روزآنہ کی بنیاد پر کی جاسکتی ہے، اوہ تیری خیر یہ بات سن کر ابا نے ایسے دیکھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ بیٹا میں ابا ہوں تیرا :)

اور بلکل سچ بتاؤں محبت پاکیزہ ہوتی بہت ہی معصوم ہوتی کہ جس میں جسمانی تعلق کے کوئی معنیٰ نہیں ہوتے ہاں چونکہ ایک فطری عمل سےجس سے کسی کو انکار بھی نہیں۔۔۔۔۔

خیر یہ اسکے بعد جب مجھے واقعی محبت ہوئی جو کہ میرے اعتبار سے اور جو محبت کا میرا معیار ہے اننی وا ہوئی ہے جس کے بارے جلد ہی لکھونگا

Tuesday, June 24, 2014

وہ محبت تھی ہی نہیں!!!


وہ محبت تھی ہی نہیں اگر محبت ہوتی تو اتنی آسانی سے اس سے دستبردار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔
میرے حساب سے تو مجنوں سے ایک لیول کے اپر تھا میں محبت میں گھر پہنچتے ہی ابا سے ملاقات ہوئی اور میں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ابا حضور مجھے محبت ہوگئی ہے تو ابا نے پہلے تو کچھ دیر مجھے دیکھا اور پھر کہا کہ میرے نکمے لعل تو یہ اسکو بتا جس سے محبت ہوئی ہے مجھے بتانے سے کیا فائدہ میں نے کہا کہ اصل میں وہ جس سے محبت ہوئی ہے وہ جس گھرانے کا ستارہ اور کرن ہے وہاں شائد آپ کی رضا نہ ہو تو اب کہنے لگے کہ اگرچہ محبت واقعی ہے تو پھر ہماری مرضی ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑے گا بشرطیکہ محبت ہو،۔۔اس مکالمے کے بعد میں نے ابا کو ساری تفصیل بتادی کہ کس سے ہوئی اور کتنی ہوئی اور یہ بھی کہ دونوں جانب برابر کی آگ لگی ہوئی ہے اس پر ابا اتنی آسانی سے راضی ہوجائینگے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔۔خیر ابا صرف اور صرف ہماری محبت کی شدت دیکھ کر اپنے پرانے خاندانی جھگڑوں کی بھلا کر پہنچ گئے رشتہ لے کر وہاں پہنچ کر پہلا سامنا ہی ہماری محبت سے ہو گیا اور ابا چونکہ بہت ہی دوراندیش تھے اسی دور اندیشی کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے صرف اتنا کہا کہ آج تو میں یہ جو سلسلہ چل رہا ہے اسکو فائنل کر کے ہی جاؤنگا یہ سنتے ہی ہماری محبت نے جو جواب دیا اسکو سننے کے بعد میں تو چکرا ہی گیا اور ابا نے جو مجھے دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ جیسے کہہ رہے رہوں یہ ہے تمھاری محبت جو ایک سوال کے سامنے نہیں رک سکی وہ ساری زندگی تمام تر مشکلات اور پریشانیوں میں کیا ساتھ دے گی تمھارا۔۔۔۔۔اور اسکے بعد ہماری محبت تو شائد ختم نہیں ہوئی تھی مگر جس سے محبت تھی اسکی محبت شائد ٹھنڈی پڑگئی تھی مگر میں بھلا اپنے دل کا کیا کرتا جو کہ کسی طور سنبھل ہی نہیں رہا تھا اسکا حل ایسا نکالا میں نے کہ دل و جاں صرف اور صرف پڑھائی پر لگادی مشکل توبہت ہوئی خیر اب اتنی بھی مشکل نہیں مگر محبت کا بھوت اتر گیا یا یوں کہہ لو کہ خاموش ہوگیا اسی دوران چار سال گذر گئے اور ہماری پہلی محبت بھی شائد اپنی پہلی محبت کے ساتھ اپنے پیا گھر سدھار گئیں جس کا کہیں دل کے کسی گوشے میں افسوس تو بہت ہوا تھا مگر کہتے ہیں نہ وقت بڑا مرہم ہے تو اس مرہم نے بھی یہی کام کیا اور بس کچھ بھول بھال کے نوکری میں لگ گیا اسے کے بعد پھر اچانک ہی کچھ کچھ ہونے لگاباقی اب پتہ چلا کہ محبت جب ہوتی ہے تو وہ کم نہیں ہوتی وہ بڑھتی ہی جاتی ہے مطلب اس رفتار سے بڑھتی ہے کہ جسکا مجھے اب پتہ چلا اور کبھی کبھی تو لگتا سوچتا ہوں کہ ضروری نہیں کہ پہلی محبت ہی پہلی ہو اکثر دوسری تیسری محبت بھی پہلی ہی ہو سکتی کیونکہ جو ہو کہ بھول جائے یا بھلا دی جائے وہ محبت ہوتی ہی نہیں ہے اور جس محبت میں صرف ترقی ہی ترقی ہو اور جس میں کوئی مفاد اور توقع نہ ہو اصل محبت وہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔آخر میں ابا مرحوم کا بہت بہت شکریہ کہ جنکی رہمنائی اور جنکی نصحتیں آج تک ہمارے بدرجہ اتم کام آرہی ہیں :)

باقی ریفیرینس کے لئے دو جنوری والی پوسٹ تو سب نے پڑھی ہی ہوگی