Tuesday, May 26, 2015

باتیں کروڑوں کی اور دوکان پکوڑوں

باتیں کروڑوں کی اور دوکان پکوڑوں کی جس نے بھی یہ محاورہ بنایا ہے کوئی کمال کا ہی حقیقت پسند انسان ہوگا یا پھر اسکا واسطی ایسے لوگوں سے ہی پڑا ہوگا کے جنکی زندگی صرف باتیں کرتی ہی گذری ہوگی خیر یہاں آج ایسا کوئی خاص موضوع نہیں ہے سوائے اسکے کے یہ جو آجکل بلاگنگ بلاگنگ کا شور مچا ہوا ہے اور ہر شخص اپنی حیثیت، تجربے اور مشاہدے کے مطابق جو بھی معاشرے میں اچھائی یا برائی نظر آرہی ہے اسکو لکھ رہا اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کے اب بھی لوگوں میں اچھائی اور برائی محسوس کرنے کی صلاحیت باقی۔۔۔۔۔۔

اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب جہاں کچھ دوست لوگ بلاگنگ کو سوائے ایک اندھے کنوئیں کو کچھ نہیں سمجھتے ہیں وہیں ہمارے ملک، یہاں ہمارے ملک اس لئے کہا ہے کے کسی اور ملک میں ایسا کوئی واقعہ دیکھنے کا میرا کوئی تجربہ نہیں، تو ہمارے ملک کا آج کے دور کا سب سے اہم میڈیا جس کو الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے اور انکے ذیلی ادارے جو لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات دے کر اپنے پاس ملازمت دیتے ہیں کے وہ انکے ادارے کے لئے کچھ لکھیں گے، اس ہی میڈیا کے بڑے بڑے مشہور صحافی اور اینکرز ان چھوٹے چھوٹے اردو بلاگرز کی تحاریر کو بغیر کسی اجازت کے اپنے کالمز میں چھاپتے رہے ہیں اور چھاپ رہے ہیں اور اگر کوئی نشاندہی کردے تو بجائے اسکے کہ اس پر شرمندہ ہوں آگے سے تاویلیں دینا شروع کردیتے ہیں کے یہ تو ہمارے پاس برسوں سے لکھی ہوئی رکھی تھی۔۔۔

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کے اردو بلاگنگ سے وابسطہ لوگ چاہے کوئی بھی ہوں اور انکے آپس میں کیسے بھی تعلقات ہوں سرد و گرم یہ تو ویسے بھی زندگی کی نشانی ہے مگر کم سے کم ان میں اتنی صلاحیتیں تو موجود ہیں کہ اللہ نے جو ان کو عقل و فہم دیا ہے اسکو استعمال کرتے ہیں اور بغیر کسی لالچ اور بغیر کسی مشہوری کی خواہش کے جو دیکھتے ہیں وہ لکھ دیتے ہیں اور ایسے تمام لوگوں سے بہت ہی بہتر ہیں جو پیسے بھی لیتے ہیں انکی مشہوری پر لاکھوں روہے بھی خرچ ہوتے ہیں اور لکھنے کے لئے انکو صرف دوسرے کے بلاگز کی اسٹالکنگ کرنی پڑتی ہے اور پرانی کوئی اچھی تحریر اپنے نام سے چھاپ دیتے ہیں۔

اب اس بات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس شخض کو اتنا بھی علم و فہم، نہیں کے وہ کس طرح معاشرے کی برائی اور اچھائی عوام الناس کو دکھا سکے اس سے یہ کیسے امید لگائی جاسکتی ہے کے وہ معاشرے کو برائی سے بچا سکے گا،،،،

پتہ نہیں بات کہاں سے کہاں نکلے جارہی ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کے اردو بلاگرز کو پڑھیں یہاں بہت اچھے اچھے لکھنے والے ملیں گے اور ہر موضوع پر انکو صرف اس وجہ سے کنوئیں کا ڈڈو نہ کہیں کے یہ اپنی قومی زبان میں لکھتے ہیں اور قومی زبان کے فروغ کے لئے بغیر کسی لالچ کے انتھک محنت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ انکی نہ دوکانیں انچی ہیں اور نہ ہی یہ بڑے بڑے نام نہاد صحافیوں اور چینلیز کی طرح صرف باتیں کروڑوں کی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

والسلام

2 comments:

راجہ افتخار خان said...

جناب ہمارے ملک مین اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے، آپ کا عنوان اور مضمون بلکل برموقع ہے یہاں پر پکوڑوں کی دکان ہے اور کروڑوں کی آمدن کے دعوے کئے جارہے ہین۔
رہی بات کچھ کوالٹی کی تو وہ موجود ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ بڑے بڑے صحافی کو کروڑوں کا خرچہ شو کرتے ہین وہ بلاگرز کی تحریریں اپنے نام سے شائع کرتے پھرتے ہین ادھر تو مفتے میں کام ہورہا ہے، انہی لوگوں نے یونیکوڈ میں لکھنا شروع کیا، کسی نے ایڈیٹر بنادیا تو کسی نے انسٹالر، کوئی فونت بنا رہا ہے تو کوئی اسکو بہتر بنا رہا ہے، مجھے خوشی ہے کہ ہمارے تعلق ایک ایسے قبیلے سے ہے جس مین بہت سے متحرک اور جنون والے لوگ موجود ہین جو اردو سے محبت کرتے ہین۔
اگر انکو کھوہ کا ڈڈو بھی کہا جائے تو یہ بھی ایک اعزاز ہوگا۔ ہین جی

محمد ریاض شاہد said...

درست فرمایا کہ بے چارہ بلاگر تو وقت صرف کر کے ایک اچھی تحریر لکھے اور اخبارات و جرائد کے ایڈیٹرز اتنی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ گوگل سے چیک ہی کر لیں کہ یہ مضمون کاپی شدہ تو نہیں ھے ۔ اینٹی پائیریسی کی مہم کو جاری رہنا چاہئیے اس وقت تک جب کہ نام نہاد لکھاری یہ سیکھ نہیں لیتے کہ کنوئیں سے پانی نکالنے کے لیئے ڈول ڈال کر رسی کھنچنا پڑتی ہے ، ذرا زور لگانا پڑتا ھے